ایک دن شہباز شریف کے بیٹے حمزہ شہباز ،اعجاز حسین بٹالوی کے گھر پہنچے اور ان کو نواز شریف کا پیغام پہنچایا کہ تایا ابو (نواز شریف)ان کو اٹک جیل میں ملاقات کے لئے بلا رہے ہیں۔ اعجاز حسین بٹالوی اس کیس میں ان کے وکیل تھے ، بلکہ نواز شریف کے لئے ان کو وکیل ہم نے ہی کیا تھا۔بٹالوی صاحب نے خرابی ِ طبیعت کی وجہ سے معذرت کر لی لیکن حمزہ شہباز منت سماجت کرکے اُن کو ساتھ لے جانے میں کامیاب ہوگئے۔یہ کہانی بٹالوی صاحب نے مجھے خود سنائی۔ ’’ نواز شریف نے جیب سے ایک کاغذ نکالااور کہا۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ بٹالوی صاحب نے بتایا کہ اٹک قلعہ کی اس ملاقات میں نواز شریف کے علاوہ اُن کی بیگم کلثوم نواز اور ایک پائلٹ، جسے میں نہیں جانتا تھا،وہ بھی موجود تھے۔نواز شریف نے ایک رقعہ جیب سے نکال کر بٹالوی صاحب کو پکڑادیا اور کہنے لگے۔ ۔ ۔ ’’اس کو ذرا پڑھ لیں۔‘‘ یہ وہ معاہدہ تھا جو نواز شریف نے حکومت کے ساتھ کیا تھا اورجس میں لکھا تھا کہ وہ اگلے دس سال تک سیاست میں حصہ نہیں لیں گے۔ بٹالوی صاحب نے رقعہ پڑھنے کے بعد پہلا سوال یہ کیا کہ ۔ ۔ ۔ ’’کیا آپ نے اس معاہدے پر دستخط کردئیے ہیں؟‘‘ نواز شریف نے کہا ۔ ۔ ۔ ’’دستخط تو کر دئیے ہیں‘‘ ۔ ۔ ۔ اس پر بٹالوی صاحب نے کہا ، ’’میاں صاحب ! آپ نے اپنے ڈیتھ وارنٹ پر دستخط کردئیے ہیں۔اب میں آپ کی کیا مدد کرسکتا ہوں؟‘‘۔ ۔ ۔ پھر انہوں نے کہا کہ۔ ۔ ۔’’اس معاہدے کو ضرور کسی اَن پڑھ آدمی نے تیار کیا ہے کیوں کہ اس میں اسپیلنگز سمیت گرامر کی بھی کئی غلطیاں ہیں۔‘‘بٹالوی صاحب تھوڑی دیر نواز شریف کے پاس بیٹھے رہے ، پھر انہوں نے حمزہ شہباز سے کہا۔ ۔ ۔ ’’مجھے اب لاہور واپس چھوڑ آؤ‘‘۔ ۔ ۔ ۔ ایک زمانے میں ’’شریف خاندان‘‘کے دست راست ممتاز سیاست دان چوہدری شجاعت حسین نے اپنی کتاب ’’سچ تو یہ ہے‘‘ کے صفحہ نمبر 171میں جو پورا سچ لکھا ہے ۔ ۔ ۔ اُسے پڑھ کر مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں شہباز شریف کا لال پیلے ہوتے یہ بیان پڑھ کر کہ ہم نے ’’این آر او‘‘ کبھی نہیں مانگا۔ ۔ ۔ ہنسی سے زیادہ افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے یہ حکمراں چاہے سابقہ ہوں یا موجودہ۔ ۔ ۔ عوام کی یادداشت سے کس طرح کھلواڑ کرتے ہیں۔این آر او کے حوالے سے سابق صدر آصف علی زرداری کے بارے میں گزشتہ کالم میں تفصیل سے لکھ چکا ہوں کہ موصوف کی جماعت باقاعدہ تحریری معاہدے کے باوجود اس بات سے صاف انکاری ہیں کہ اُن کی جیالی جماعت نے سابق صدر مشرف سے کوئی این آر او کیا۔ ۔ ۔ جس کے سبب نہ صرف دسمبر 2007میں واپسی ہوئی بلکہ اسی ملک کے سب سے بڑے عہدۂ جلیلہ پر بھی بیٹھے۔بد قسمتی سے ہماری مین اسٹریم جماعتوں کے یہ اصلی تے وڈے لیڈر عوام کو بے وقوف سمجھنے اور بنانے میں جس طرح تین دہائی سے کامیاب رہے ہیں ۔ ۔ ۔ اُس میں اُن کا تواتر سے اس ڈھٹائی سے ڈٹے رہنا کوئی تعجب کی کوئی بات نہیں۔ ۔ ۔ ہمارے بڑے چھوٹے شریف برادران کے اس بیانیہ پر چلئے یقین کر لیتے ہیں کہ اس وقت تک اُن کا عمران خان کی حکومت سے کوئی این آر او نہیں ہوا ۔ ۔ ۔ مگر محترم میاں شہباز شریف سے بصد احترام عرض ہے کہ ’’این آر او‘‘ یعنی اسٹیبلشمنٹ سے بہ زبان اردو ’’معافی تلافی‘‘ کے حوالے سے ن لیگ کی قیادت کا ریکارڈ کوئی مثالی نہیں رہاہے۔ ۔ ۔ 10دسمبر 2000کو جو این آر او ۔ ۔ ۔ یعنی جو معافی کا معاہدہ ہوا ۔ ۔ ۔ وہ شریفوں کی سیاست میںکوئی پہلا نہیں تھا ۔ ۔ ۔ اس کے لئے پھر میں ق لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کی کتاب کا ہی مستند حوالہ دے رہاہوں کہ اس کتاب کی اشاعت کے چھ ماہ بعد بھی ’’شریفوں ‘‘ نے اس کی تردید نہیں کی ورنہ ۔ ۔ ۔ کروڑوں روپے کے ہتک ِ عزت کا دعویٰ کرنے میں بھی ہمارے چھوٹے ، بڑے شریفوں کی بڑی شہرت ہے ۔چوہدری شجاعت حسین اپنی کتاب کے صفحہ نمبر 84پر لکھتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ’’ہم دونوں گروپوں کی مشترکہ میٹنگ نواز شریف کے والد محترم میاں محمد شریف کے دفتر واقع ایمپریس روڈ پر ہوئی، جس میں نواز شریف ، شہباز شریف ،بریگیڈیئر قیوم ، پرویز الٰہی اور میں شریک تھے۔ طے پایا کہ نواز شریف، وزارت کے مشترکہ امیدوار ہوں گے، جب کہ اسپیکر اور صوبائی وزراء کا فیصلہ باہمی مشاورت سے ہوگا۔ یہ سارے فیصلے ہوگئے تو میاں شہباز شریف جلدی سے اٹھے اور کہا۔ ’’ اگرچہ سب کچھ طے ہو گیا ہے ، لیکن پھر بھی آپ کی تسلی کے لئے قرآن مجید لے کر آتا ہوںتاکہ ضمانت رہے کہ ہماری طرف سے کوئی وعدہ خلافی نہ ہوگی ۔ ‘‘ اس پر پرویز الٰہی اور میں نے کہا ۔ ’’دیکھیں، سیاست میں نہ ہمارے بزرگ قرآن کو بیچ میں لائے تھے ، نہ ہم نے کبھی اس کی جسارت کی ہے ۔ ‘‘ میں نے کہا ۔ ’’ پرویز الٰہی صرف ایک ووٹ کی برتری سے چیئر مین ضلع کونسل منتخب ہوکرآئے ہیں۔گجرات میں ہمارے مخالفوں نے ہمیں ہرانے کے لئے اپنے ارکان سے قرآن پر حلف لیے ، مگر ہم نے اپنے کسی ساتھی سے قرآن پر حلف نہیں لیا۔ ‘‘ یہ کہہ کر ہم نے شہباز شریف کو قرآن مجید لانے سے منع کردیا۔ اگلے روز گورنر جیلانی نے ہم سے پوچھا کہ میٹنگ کیسی رہی۔ہم نے سارا احوال سنادیا، بلکہ شہباز شریف کے قرآن مجید ضمانت کے طور پر لانے کے بارے میں بھی بتا دیا۔جنرل جیلانی نے کہا، اس معاملے میں، میں اپنی ضمانت دیتا ہوںاور ویسے بھی زبان ہی اصل ضمانت ہوتی ہے۔ پھر انہوں نے کہا ، اگلی میٹنگ تین چار روز بعد ہوگی ،تب تک آپ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے نام تجویز کرلیں۔‘‘ چوہدری شجاعت حسین نے شریف خاندان سے معاہدہ کرنے اور پھر اُس کی پاسداری نہ کرنے کے اتنے واقعات لکھے ہیں کہ خواہش ہو رہی ہے کہ ۔ ۔ ۔ بغیرکسی قطع و برید کے ’’لفظ بہ لفظ‘‘ نقل کر دوں۔ ۔ ۔ مگر ایک تو تنگی ٔ کالم کا خیال پھر یہ بھی خیال آیا کہ ایک ایسے وقت میں جبکہ ’’شریف خاندان‘‘ ابتلاء میں ہے۔اس طرح کے کچوکے لگانا ۔ ۔ ۔ اس لئے بھی مناسب نہیں کہ کہیں خان صاحب کی حکومت کے کھاتے میں نہ ڈال دیا جاؤں ۔مگر پہلے بھی جب اس طرح کی تہمت لگتی ہے تو فیض صاحب کے اس شعر کا سہارا لیتا ہوں۔ اس عشق نہ اُس عشق پر لازم ہے مگر دل ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغِ ندامت