وطنِ عزیز کے ہنگامی اور ہنگامہ خیز وزیرِ اعظم جناب شہباز شریف سے میرے تفاعل یا تعارف کو رُبع صدی ہونے کو آئی ہے۔ یہ مسلم لیگ نون کے بھاری مینڈیٹ والے دورِ حکومت کی بات ہے جب شہباز شریف صحیح معنوں میں شہباز شریف ہوا کرتا تھا اور تعلیمی اصلاحات اس کی ترجیحِ اول قرار پائی تھی۔ امتحانوں سے بُوٹی مافیا کا خاتمہ، پوزیشنیں لینے والے طلبہ و طالبات کی عزت افزائی، گھوسٹ سکولوں کی نشان دہی وغیرہ اسی زمانے کی یادیں ہیں۔ اسی دَور میں ایک نیک کام یہ کیا گیا کہ دیہات میں چھوٹے سکولوں کے سربراہان کو براہِ راست پچاس پچاس ہزار روپے فنڈز دینے کا مفید سلسلہ شروع کیا تاکہ وہ اپنی مقامی ضروریات کے مطابق چٹائی، بینچ، بلیک بورڈ، چار دیواری، شجر کاری، فرنیچر، تعمیر و مرمت جیسے کام اپنی مرضی سے کروا سکیں۔ اس سلسلے میں انھیں مکروہ دفتری نظام کی دریوزہ گری نہ کرنی پڑے۔یہ اس زمانے کے حساب سے بڑی معقول رقم تھی۔ لیکن ہمارے محکمہ تعلیم کے چھوٹے بڑے افسران بھی کوئی کچی گولیاں نہیں کھیلے۔ انھوں نے تمام ہیڈز کو حکم نامہ جاری کیا کہ فلاں دکان سے سامان کا ایک تھیلا اٹھاؤ اور بندے کے پُتروں کی طرح ’پچاس ہزار وصول پائے‘ کے فارم پہ دستخط کر دو۔ ایسے ہی کچھ پرفارمے اور پرفارمنس میرے علم میں آئی تو مَیں نے ’’ طریقِ کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی‘‘ کے عنوان سے کالم لکھا۔ جس دن کالم چھپا ، اسی دن دوپہر کو وزیرِ اعلیٰ سیکرٹیریٹ سے فون آ یا کہ آج سی ایم صاحب کی میٹنگ میں آپ کا کالم خوب زیرِ بحث رہا، آپ اس سلسلے میں ہمیں اور سیکرٹری ایجوکیشن کو کچھ مزید گائیڈ کریں۔ اس وقت کے سیکرٹری سکول جناب ظفر محمود کے دوستانہ بلکہ دعوتانہ فون بھی آتے رہے۔ میرے لیے کسی مقتدر یا افسر سے ملنا ایک مشکل عمل ہوتا ہے۔ اس لیے مَیں نے انھیں چند ضروری کاغذات اور معلومات فراہم کر دیں، جس پر سرعت آمیز محکمانہ کارروائی ہوئی۔ اس کے بعد بارہ اکتوبر1999ء آ گیا۔ قیامِ جدہ کے دوران ای میل پہ بھی ان سے ہیلو ہائی رہی۔ اس وقت ان کی ایک ہی خواہش ہوتی کہ ہماری وطن واپسی کی دعا کریں۔ پھر وطن واپسی بھی ہو گئی۔ اقتدار کی دیوی دوبارہ مہربان ہوئی۔ ایک سیشن زرداری صاحب کے ساتھ جیسے تیسے ہنڈانا پڑا۔ اس کے بعد مکمل اقتدار ملا تو دونوں بڑے بھائیوں (نواز، زرداری) کی اولاد کے ٹھاٹ دیکھ کے خون، جنون میں بدلا۔ چنانچہ جہاں ریکارڈ بنتے تھے، وہاں ریکارڈ جلنے لگے۔ نہ صرف ریکارڈ بلکہ سب ایک دوسرے سے جلنے لگے۔ سڑکوں پہ گھسیٹنے، پیٹ پھاڑنے کی باتیں ہونے لگیں۔ ایک دوسرے پر مقدمات کی دوڑ لگی۔ نئی اننگز کھیلنے کے لیے نئی نسل کے جوکر، نئے جوگر پہن کے میدان میں آ گئے۔ خزانہ گراؤنڈ میں ایان علی، پاپڑ والا، مقصود چپڑاسی، پناما، رمضان شوگر، ایون فیلڈ، میٹرو، اورنج لائن، کی صورت گھمسان کا رَن پڑا۔ یہاں تک کہ ریفری نے پورے کھیل کو فاؤل قرار دے دیا۔اس کے بعد کے واقعات تازہ ہیں۔ نئی حکومت، نئے سیاپے، نئے اتحاد، منحرف اراکین، سندھ ہاؤس، انکل سام کا نیا خط، امریکی سفیر کے بھائی چارے، عدمِ اعتماد، عدالتِ نیم شبی، عہدوں کی جمع تفریق، راجا ریاض بطور اپوزیشن لیڈر، پنجاب کی فلمی صورتِ حال، بالآخر وزیرِ اعلیٰ مع وزیرِ اعظم کی کرسی کا حصول! یعنی موت کے کنویں میں موٹر سائیکل چلانے جیسی ذمہ داریاں۔ جو کام سگے بھائی نے نہ کیا، برادرانِ یوسف نے کر دیا۔ جس طرح کی حکمرانی باپ بیٹے کو میسر آئی ہے، سمجھ نہیں آ رہی،انھیں مبارک باد دیں یا ہمدردی کا خط لکھیں۔ سب جانتے ہیں کہ یہ رول نبھانا مداری کے بکرے کو چاروں پاؤں سمیت ایک پائے پہ کھڑا کرنے جیسا کھیل ہے۔ یہ اقتدار نہیں اِک دار ہے۔ یہ وزارتِ عظمیٰ نہیں، شرارتِ عظمیٰ ہے۔آٹھ نو پارٹیوں نے ملی بھگت کر کے آپ جناب کو تخت کی بجائے تختے کی جانب دھکیل دیاہے۔ ذرا ان کے کلکاریاں مارتے حریفوں پہ نظر تو کریں، کچھ بیرونِ ملک ہنی مون منا رہے ہیں اور کچھ اندرونِ ملک، منی مُون! محترم میاں صاحب! یہ ساری تلخ و ترش تمہید باندھنے کا مطلب یہ کہ لوگ گمان رکھتے ہیں آپ میں ڈلیور کرنے کی بے پناہ صلاحیت ہے۔ اب عمر کی بھی یہ صورت ہے کہ زیادہ گزر گئی، تھوڑی باقی ہے۔ ’’علمِ ہجوم‘‘ کہہ رہا ہے کہ ایسا نادر موقع بھی دوبارہ ملنے والا نہیں! قومی ترانے کے خالق نے کہا تھا: یہ عجب مرحلۂ عمر ہے یا رب کہ مجھے ہر بری بات ، بری بات نظر آتی ہے پھر یہ بھی سنتے ہیں کہ جلد یا بدیر ایک حشر کا میدان لگنا ہے، جہاں دس بیس لاکھ کے مجمعے کو دو چار سو کہہ کے پیسے کھرے کرنے والے صحافیوں یا گل چھرے اڑاتی اولاد کا داخلہ سختی سے منع ہے۔ ابھی آپ سے ماڈل ٹاؤن نہیں سنبھالا جا رہا تھا کہ آپ نے پھر سے رانا ثنائیاں اور گلو بٹیاں شروع کر دیں۔ وہ بھی اس سوشل میڈیا کے دور میں، جب لوگ ایک ایک بات پورے ثبوت کے ساتھ سو سو بار منھ پہ مارتے ہیں۔ اب تو وہ نسل جوان ہو گئی ہے جو پوچھ رہی ہے:یہ آئی ایم ایف کیا بلا ہے؟ جو ہر بار عام آدمی کی ضرورت کی اشیامہنگی کرنے کی تلقین کرتی ہے۔ یہ بلاول ہاؤسوں، سرے محلوں، جاتی اُمروں، ذاتی ایئر لائنوں،وڈیروں کے لاتعداد مربعوں کو نیلام کرنے اور فضول کاموں پہ اربوں روپے اڑانے سے منع کرنے کا مشورہ کیوں نہیں دیتی؟ میاں صاحب اتنا تو نہایت سہولت کے ساتھ ہو سکتا تھا کہ آپ حمزہ کو سرکاری افسروں کی طرح صبح سات بجے طلب کر کے حکم جاری کرتے کہ پورے ملک میں مرغی ڈیڑھ سے دو سو روپے کلو فروخت ہوگی۔ یہ گھر کی پیداوار ہے، اس میں ’نو پرافٹ، نو لاس‘ پہ بھی سال دو سال گزار لیے جاتے تو عام آدمی کو بہت اچھا پیغام جاتا۔ اسی طرح چینی اور آٹے کی نازک رگیں بھی آپ اچھی طرح جانتے ہیں، تھوڑا سا دبا کے دیکھیں بلکہ کچھ عرصہ دبا کے ہی رکھیں، جہاں جہاں سے چیخیں برآمد ہوں، کورے کاغذ پہ نوٹ کرتے جائیں۔ آپ کو جان چکنا چاہیے کہ اب لانگ بُوٹ پہننے، مائیک توڑنے، گانے گانے، کپڑے بیچنے جیسے فیشن پرانے ہو چکے۔ کپڑے تو اس بچے ابوبکر نے نہیں بیچے جس کی دستخط والی قمیض کا بارہ کروڑ لگ گیا ہے، اور جس کی بھونڈی نقل میںمریم، حمزہ، بلاول، حتیٰ کہ مولانا سراج و فضل بھی ڈالر کمپنی کا نیا پَین خرید لائے۔ لوگوں کی توجہ کھینچنی ہے تو پورے ملک میںاُردو کے فوری نفاذ، یکساں نظامِ تعلیم اور ٹیوشن،کلینک کلچر کے خاتمے کا اعلان کریں۔ کسی وقت اچانک ساٹھ فیصد مطلوب کابینہ کو نَیب کے حوالے کر دیں، آپ چاہیں تو زرداری کو سڑکوں پہ گھسیٹنے کا وعدہ بھی پوراہو سکتا ہے۔ پچیس تاریخ کو جو کچھ ہوا، اس پہ قوم سے باقاعدہ معافی مانگیں، ٹوٹی گاڑیوں کا معاوضہ دیں بلکہ متاثرہ خواتین کے گھر جائیں اور شاعرِ مشرق کی بہو کے گھر کی بے حرمتی پر مستعفی نہ سہی شرمندہ ہونا تو بنتا ہے۔ یہ سب کچھ ایک دن میں ہو سکتا ہے، بقول ماسٹر الطاف: ڈر نہ بِیبا کُش نئیں ہُندا ہر اِک بندہ بُش نئیں ہُندا ایتھے سب کُج ہُندا پیا اے کیہڑا کہندا اے کُش نئیں ہُندا