یہ پہلا موقع ہے جب اقتدار سے نکالے جانے والا موج میں ہے اور اقتدار میں آنے والے پریشان ۔ اس اقتدار کی بس خستہ ہے۔ مسافر زیادہ ہیں اور سیٹیں کم اور ہر کوئی اگلی سیٹوں پر بیٹھنا چاہتا ہے۔صدارت کا منصب ایک ہے اور دو طلبگار ہیں اور پہلے براجمان کو اتارنا بھی ایک مشکل کام۔ مولانا فضل الرحمان اور جناب آصف علی زرداری صدارت کے دو امیدوار ہیں۔ سپیکر پر پیپلز پارٹی کے جناب راجہ اشرف بلا مقابلہ منتخب ہوچکے ہیں۔ ڈپٹی سپیکر کی سیٹ پر جمیعت علمائے اسلام کے زاہد اکرم درانی کا انتخاب ہوگا۔چاروں صوبوں کے گورنر کا تقرر بھی شہباز شریف کا امتحان ہے۔ پیپلز پارٹی سب صوبوں میں اپنے گورنر چاہتی ہے۔ ادھر بلوچستان میں مولانا فضل الرحمان اور اختر مینگل گروپ اپنے گورنر کا مطالبہ کررہے ہیں۔ صوبہ سندھ میں ایم کیو ایم کا گورنر لگے گا۔کے پی کے میں اے این پی بھی گورنر شپ کی امیدوار ہے۔ اس وقت تک کابینہ کے اراکین حلف اٹھا چکے ہیں۔ اس وفاقی کا بینہ سے حلف پاکستان سے صدر جناب عارف علوی نہیں لیا بلکہ سینیٹ کے چیرمین لیاہے۔حلف اٹھانے والوں میں ن لیگ کے 14، پیپلز پارٹی کے 9، جے یو آئی کے 4، ایم کیو ایم کے 2 ارکان کے علاوہ ق لیگ اور جمہوری وطن پارٹی کے ارکان بھی شامل ہیں۔ وزارت خارجہ کا قلمدان جناب بلاول بھٹو کے پاس ہوگا۔ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ ، پٹرولیم خاقان عباسی اور مریم اورنگزیب وزیر اطلاعات ہونگی۔ شہباز شریف کے سامنے اس وقت سب سے مشکل کام اس کثیر جہتی اتحاد کو ساتھ لیکر چلنا ہے۔ محسن داوڑ اور علی وزیر بھی اس اتحاد کا حصہ ہیں جو ابتدا سے ہی مقتدر حلقوں کے ساتھ تعلقات کو خراب کرنے کے چکر میں ہیں۔ شہباز شریف کا دوسرا چیلنج ان انتخابی اصلاحات کو لانا ہے جو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے تبدیل کئی ہیں۔ اس وقت الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ایسے قوانین ہیں جن کی موجودگی میں اگلہ الیکشن شہباز شریف اور انکے اتحادیوں کے لئے مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔ شہباز شریف کے سامنے تیسرا چیلنج ملکی اکانومی کو ٹھیک کرنا ہے۔ تیل ، بجلی کی قیمتوں کو کنٹرول کرنا ہے۔ آئی ایم ایف کو اس بات پر راضی کرنا کہ بجلی اور تیل کی قیمت میں مزید اضافہ نہ ہو ایک مشکل امر ہے۔مہنگائی کا ایک طوفان آنے والہ ہے، آنے والے ایک دو سال میں۔ اس وقت دودھ اور گوشت والے جانور کی قیمت میں گزشتہ دو سال میں 50 فی صد سے زائد اضافہ ہوچکا ہے۔ لاہور میں اس وقت بھینس کا دودھ 150 روپے میں ہے۔اگلے 18 ماہ میں یہ 200 سے بڑھ جائے گا۔اور بھینس جس کی قیمت تین لاکھ ہے پانچ لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ اب اس وقت دودھ اور گوشت غریب آدمی کی دسترس سے دور ہے اور آنے والے وقت میں یہ درمیانے طبقے کی پہنچ سے بھی آگے جا چکا ہوگا۔ اس وقت گندم کی قیمت 2200 ہے جو اس سردیوں میں 2600 سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ 2023ء کی موسم سرما میں گندم کی قیمت 3000 کے لگ بھگ اور دودھ 200 روپے لیٹر اور گوشت 1200 روپے فی کلو کے قریب ہوگا۔ سرسوں کی قیمت دو سال میں 2500 سے 5500 تک پہنچ چکی ہے۔ گھی اب 500 روپے فی کلو کے قریب ہے۔ اگر یہ حال رہا تو یہ بھی 700 روپے کے قریب ہوگا۔ فصلوں کی پیدوار آنے والے دنوں میں بہت متاثر ہو سکتی ہے اگر کھاد کی فراہمی کا یہی حال رہا۔اب تصور کریں ان حالات میں اگلے الیکشن ہونگے اور ان سب جماعتوں کو انتخابی اتحاد میں یکجا رکھنا شہباز شریف، آصف زرداری اور مولانا کیلئے ایک مشکل کام ہوگا۔ پاکستان مسلم لیگ ن اب حکومت سنبھالتے وہی غلطیاں کر رہی ہے جو پاکستان تحریک انصاف نے کیں۔ اب پاکستان مسلم لیگ ن توشہ خانہ کے حوالے سے عمران خان کو بددیانت ثابت کرنے میں زور لگائے گی۔ توشہ خانہ کے معاملات کروڑوں کے ہیں۔ دوسری طرف عمران خان شریف خاندان کے اربوں روپے کے سکینڈل کو اچھالے گا۔ سوچنے کی بات ہے جیت کس کی ہوگی۔ عمران حکومت کی بدانتظامی کو ٹارگٹ بنانا چاہئے۔ شہباز شریف اپنا پرانا ترقی کا فارمولہ لیکر آرہے ہیں اب ان کو ادارے بنانے چاہئیں تاکہ ترقی کسی فرد واحد پر انحصار نہ کرے۔ نواز شریف کی آمد بھی شہباز شریف کا امتحان ہوگا۔ ان حالات میں مریم نواز پر میڈیا کا فوکس زیادہ ہوگا۔ پنجاب کے معاملات بھی شہباز شریف کے لئے پریشان کن ہیں۔ حمزہ شہباز اتنے بڑے صوبے کے معاملات کو کس طرح سے چلاتے ہیں جہاں پر پرویز الہی جیسا جہاندیدہ منتظم اور سیاستدان انکے سامنے موجود ہے۔ عمران خان کے جلسے ایک الگ ایشو ہیں۔ لاہور کا جلسہ بہت اہم ہے۔ لاہور چالیس سال سے پاکستان مسلم لیگ نواز کا قلعہ ہے۔اب تک یہاں کوئی بھی شریف خاندان کے مقابل واضح برتری حاصل نہیںکرسکا۔ اب دیکھنا ہے عمران خان کتنی بڑی تعداد میں عوام کو لاہور کے جلسہ میں لاتے ہیں۔ اگر تعداد دو تین لاکھ سے زائد ہوتی ہے تو یہ شریفوں کے لئے آنے والے وقت میں مسئلہ ہوگا۔ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو بہت سے مقدمات کا سامنا ہے۔ امید ہے یہ تمام مقدمات جلد ختم ہو جائیں گے کیونکہ ان حالات میں کوئی بھی تحقیقاتی ادارہ انکے خلاف ثبوت پیش نہیں کرسکے گا۔ آنے والے دنوں میں پنجاب اسمبلی سے پاکستان تحریک انصاف کے استعفے آسکتے ہیں۔ عدلیہ اور عمران خان کے درمیان کشیدگی مزید بڑھ سکتی ہے۔ اس وقت عمران خان نے اپنا بیانیہ بہت اچھے طریقے سے پیش کیا ہے۔عوام کی ایک کثیر تعداد انکے خودمختاری کے نعرہ کی گرفت میں آرہی ہے۔ کے پی کے میں ہونے والہ الیکشن اس بات کا ثبوت ہے کہ عمران خان کا بیانیہ بک رہا ہے لوگوں نے اس امیدوار کو ووٹ دیا ہے جس سے حلف اٹھانا ہے اور استعفی دے دینا ہے۔کے پی کے اب بھی عمران خاں کا مضبوط قلعہ ہے۔