مین ہٹن کے ٹرمپ ٹاورز میں واقع ڈونلڈ ٹرمپ کے لگژری پینٹ ہائوس میں ٹائلٹ چوبیس قراط کے سونے کا بنا ہوا ہے۔یعنی اس شخص کو حوائج ضروریہ سے فراغت کے لئے بھی سونے سے بنی اشیاء درکار ہیں۔شاید وائٹ ہائوس میں بھی انہوں نے سونے کا ٹائلٹ بنوالیا ہوگا۔ویسے بھی یہ لوگ جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو عوام کے خادموں جیسا رویہ ان کا نہیں ہوتا بلکہ خود کو وہ شہنشاہ سمجھتے ہیں۔خود کو یہ لوگ یوں غلطیوں سے مبرا سمجھتے ہیں کہ کوئی بھی ان کی رائے یا روئیے سے اختلاف یا اس پہ اعتراض کی جرأت نہیں کر سکتا ۔ذرا سوچئے کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ روسی ایجنٹ ثابت ہوگئے جیسا کہ کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ ہیں، خاص طور پر ہیل سنکی میں جس طرح وہ پیوٹن سے پینگیں بڑھا رہے تھے اس کے بعد توکئی لوگوں کو ان پہ شبہ ہو گیا ہے، تو پھر کیا ہو گا؟ انہیں یقینا جیل میں پھینک دیا جائے گا۔ہو سکتا ہے تب حاجت ضروریہ سے فراغت انہیںکئی دنوں تک نصیب نہ ہو کیونکہ انہیں اپنا سونے کا ٹائلٹ یاد آتا رہے گا۔وہ تکلیف سے پاگل ہو کر بس چیختے چلاتے رہیں گے اور انہیں ان کی اس ابتر حالت سے نکالنے کے لئے شاید پھر دوائیوں کا استعمال کرنا پڑے۔چلیں،کچھ ذکر ہوجائے اسیرِ اڈیالہ میاں نواز شریف کا! میاں صاحب کے اطوار بھی شاہانہ رہے ہیں۔تین بار وزارتِ عظمیٰ پہ متمکن رہنے کی وجہ سے وہ خود کو بہت ہی بر تر سمجھتے ہیں۔اگر ہم پیچھے مڑ کر ان کی غلط کاریوں کو گننا شروع کریں تو ان کے بارے میں پوری ایک کتاب تیار ہو سکتی ہے۔تاہم اکثر پاکستانی اور بعض طاقت ور میڈیا ہائوسز کو بھی گویا بھولنے کی بیماری ہے اور اسی لئے شاید میاں صاحب کی غلطیوں اور غلط کاریوں کو یاد کرنا انہیں منظور نہیں ہوتا ۔ صرف یہی دیکھ لیجئے کہ وہ کون تھا جس نے لفافہ صحافت متعارف کرائی؟ اس سوال کا جواب ہے ’’نواز شریف اور ان کے اس وقت کے وزیر اطلاعات‘‘ ! سپریم کورٹ پہ حملہ کس نے کیا تھا؟ میاں صاحب کے غنڈوں نے! یہ لوگ چیف جسٹس کو نشانہ بنا نا چاہ رہے تھے کیونکہ انہیں میاں صاحب کے خلاف چیف جسٹس کے فیصلے منظور نہیں تھے۔ اس حملے کے دوران چیف جسٹس صاحب کو چھپ کر جان بچانا پڑی تھی۔ اس معاملے میںکسی سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوئی، نہ وزیر اعظم سے اور نہ ہی ان کے ساتھ سازش کاروں سے!اس میں کوئی شک نہیں کہ اس حوالے سے ہم سب نسیان کا شکار رہے ہیں بلکہ مستقلاً اسی بیماری میں مبتلا ہیں! ہمیں ایک دوست سے انگلستان کے آن لائن جریدے ڈیلی میل کی ایک خبر موصول ہوئی ہے جس میں میاں صاحب اور ان کے اہل خانہ کو "Pen thouse Pirates"کہا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سابق پاکستانی وزیرا عظم انتہائی دولت مند ہیں ۔ انہوں نے اپنے بیٹوں سمیت ایک خطیر رقم لندن کی قیمتی جائیدادوں میں لگائی ہوئی ہے۔ جیل جانے سے قبل کا عرصہ نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز نے ایون فیلڈز کے اپنے مکان میں گزارا جو پارک لین میں واقع ہے اور وہاں سے ہائیڈ پارک کے شاندار نظارے بھی نظر آتے ہیں۔اس مکان کی تصاویر دیکھ کر انسان اندازہ کر سکتا ہے کہ میاں صاحب اور ان کی اولاد وہاں کس قدر عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتے رہے ہیں۔اب جبکہ وہ وطن واپس آکر اپنی صاحبزادی مریم سمیت اڈیالہ جیل میں قید ہیں، توانہیں یقینا کافی تکلیف ہو رہی ہو گی۔ باقاعدہ بستر کی جگہ صرف ایک گدا، ایئر کنڈیشنر کی بجائے صرف ایک پنکھا اور وسیع و عریض و شاندار غسل خانوں کی بجائے گندے اور لتھڑے ہوئے باتھ رومزکو دیکھ کر میاں صاحب کے سکون و آرام میں کافی خلل پڑ رہا ہوگا۔ میاں صاحب کے بڑے صاحبزادے حسین نواز اس وقت ایون فیلڈ والے مکان میں مقیم ہیں۔ انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ میرے والد کو جیل میں بستر فراہم نہیں کیا گیا اور غسل خانہ بھی نہایت گندا تھا جسے شاید مدتوں تک صاف نہیںکیا گیا ۔اس ملک میں عوامی نمائندوں کو عزت و احترام دینے کی کوئی روایت ہے ہی نہیں لیکن یہ چیزیں تو بنیادی ضرورتوں میں داخل ہیں اور ان کا روکا جاناتشدد کے برابر ہے۔پینسٹھ کی جنگ کے ہیرو، ستارہ جرأت پانے والے ہمارے ماہر و معروف پائلٹ سجاد حید ر نے عوام کے سامنے چندسوالا ت رکھے ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں کہ جب پی آئی اے کے طیارے میاں نواز شریف کے لئے کھانا لانے کے لئے استعمال ہوتے تھے تو کیا کسی نے کبھی آوازاٹھائی؟وہ لوگوں سے پوچھتے ہیں کیا آپ نے اس وقت آوا ز اٹھائی تھی جب پی آئی اے کا ایک طیارہ رات بھر ترکی میں صرف اس لئے رکارہا کہ میاں صاحب کو وہاں کے ایک ریستوران کے کھانے کی یاد ستا رہی تھی؟ کیا آپ نے اس وقت آواز اٹھائی تھی جب میاں صاحب پی آئی اے کے ایک چارٹرڈ طیارے میں علاج کی غرض سے لندن گئے اور پھر ایک مہینے تک یعنی جب تک میاںصاحب کا علاج ہو رہا تھا وہ طیارہ وہیں پہ کھڑا رہا۔ جب میاں صاحب بڑی بڑی کرپشن میں ملوث پائے گئے تو کیا کسی نے آواز اٹھائی تھی؟سجاد حیدر صاحب نے میاں صاحب کے تینوں ادوار کے دوران کی گئی ان کی غلط کاریوں کی ایک فہرست بھی بنائی ہے۔انہوں نے مندرجہ ذیل سوالات عوام کے سامنے رکھے ہیں: کیا آپ نے اس وقت آواز اٹھائی تھی جب میاں صاحب نے آئین میں ختم نبوت سے متعلقہ دفعات میں تبدیلی کی کوشش کی؟ ماڈل ٹائون میں قتل کئے گئے چودہ افراد کے بارے میں کسی نے ان سے پوچھا؟ جب وہ پاک فوج اور سپریم کورٹ کے خلاف مسلسل زہر اگل رہے تھے تو کیا آپ نے ان سے کوئی سوال کیا؟جب وہ تمام قومی و بین الاقوامی فورموں پر امریکی صدر اوبامہ کے سامنے تحریری نوٹس پڑھ کر سناتے رہے تو اس بارے میں کبھی کسی نے ان سے کچھ پوچھا؟ یہ کس قدر شرم کی بات تھی! جب ان کی شوگر ملوں سے را کے ایجنٹ پکڑے گئے تو کیا ان سے کوئی پوچھ گچھ ہوئی؟کیا کسی نے کبھی ان سے پوچھا کہ ان کے بچے سولہ سترہ سال کی عمر میں کیسے ارب پتی بن گئے؟دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں جب انہوں نے ایک سو اڑتالیس لوٹوں کو پارٹی ٹکٹ دئیے تو کیا کسی نے اس بارے میں ان سے کچھ پوچھنے کی زحمت کی تھی؟ کیا کبھی کسی نے میاں نواز شریف سے یہ پوچھا ہے کہ انہوں نے کیوں محمد خان جونیجو کی پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہوئے اس وقت کے فوجی آمر جنرل ضیاء کے ساتھ گٹھ جوڑ بنایا؟کیا ان سے کسی نے پوچھا ہے کہ انہو ں نے کیوں بے نظیر بھٹو کو ہروانے کے لئے آئی ایس آئی کے اشاروں پہ عمل کیا؟ کیوں انہوں نے حسین حقانی کے ذریعے بے نظیر بھٹو کی کردار کشی کی پوری ایک مہم شروع کی تھی؟ کیوں وہ اپنی جماعت کے لوگوں کو ایک فوجی آمر کے رحم و کرم پہ چھوڑ کر خود اسی کے ساتھ ایک ڈیل کر کے ملک سے فرار ہو ئے؟کیا کسی نے ان سے پوچھا کہ وہ پی آئی اے کو کیوں نہیں چلا پائے جو کئی ایک دیگر غیر ملکی ایئر لائنز کے اجراء میں مددگار رہی ہے، اور کیوں شاہد خاقان عباسی کی ائیر لائن پھول پھل رہی ہے؟ ان کی فہرست میں مزید چیزیں بھی ہیں لیکن ہم اب ان کے اختتامی الفاظ کی طرف آتے ہیں۔ اختتامیئے میں انہوں نے پڑھنے والوں سے درخواست کی ہے کہ وہ دوسرے لوگوں میں چھوٹی چھوٹی غلطیاں ڈھونڈنے سے پہلے ان سوالات کا جواب سوچیں۔ میاں صاحب نے اپنی ماضی کی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھا۔ اس میں سب سے زیادہ خطرناک غلطی ان کی یہ رہی ہے کہ انہوں نے متوسط سطح کے لوگوں کو مقتدر حیثیت دی۔انہوں نے اقرباء پروری اور دوست نوازی کو ہمیشہ فوقیت دی۔اپنی انہی حرکتوں اور کرپشن کی انہیں بھاری قیمت بھی چکانی پڑی ہے، صرف ایک بار نہیں بلکہ تین بار!اب جبکہ وہ جیل میں قید تنہائی میں زندگی گزار رہے ہیں، انہیں خود ہی ان سوالوں کے بارے میں سوچ کر ان کا جواب دے دینا چاہئے۔ ویسے بھی اب ان کے پاس وقت کی بہتات ہے!