دو سال پہلے میری گردن کے چار مہرے خراب ہوگئے۔ تقریبا دو ماہ کے مسلسل علاج کے بعد بہتری آنے لگی لیکن اسی دوران دائیں بازو کے شانے کی ہڈی میں درد نکل آیا جو آہستہ آہستہ کندھا جام کا باعث بنا۔ یقین کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ اگر میری فزیوتھراپسٹ شروع میں بدلتی ہوئی اس کیفیت کو بھانپ لیتی تو شاید میں ایک انہتائی تکلیف دہ بیماری سے بچ جاتی۔مہروں کی بیماری کا باعث ان کی قدرتی ساخت میں تبدیلی بنتی ہے۔ جیسے کہ مہروں میں پائی جانے والی ڈسک کا باہر کی طرف نکلنا یا مہرے کا سکڑ جانا وغیرہ۔ اس سے گردن سے بازووں میں جانے والی رگیں متاثر ہوتی ہیںاور شدید درد پیدا ہوتا ہے۔ اس بیماری کے تین چار علاج ہیں۔ سرجری،فزیوتھراپی، سٹیرائیڈ کے انجیکشن اور درد دور کرنے والی ادویات۔ سب سے محفوظ طریقہ علاج فزیوتھراپی ہے۔ باقی علاجوں کے منفی اثرات مریض کی زندگی مزید دوبھر کر دیتے ہیں۔ ہر ہسپتال، چاہے بڑا ہو یا چھوٹا فزیوتھراپی کا شعبہ رکھتا ہے۔ اور ہر ہسپتال اس شعبے کی بدولت لاکھوں روپے ماہانہ کماتاہے۔ لاہور کے چپے چپے میں فزیوتھراپی کے کلینک ملتے ہیں۔ ہر سال کئی ہزار لڑکے لڑکیاں مختلف میڈیکل کالجوں سے پانچ سال کی تعلیم کے بعد فزیوتھراپی میں مہارت کی ڈگری لے کر میدان میں آتے ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک جہاں مرغن غذا کھانے کا رواج ہو اور ورزش کا رجحان کم، وہاں اس شعبے کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ خواتین ،خاص طور پر ہاوس وائف، مصروفیات یا سستی کے باعث ورزش کی طرف دھیان ہی نہیں دے پاتیں۔ اسی طرح زچگی اور قدرتی جسمانی تبدیلیاں عورتوں کی ہڈیوں کو وقت سے پہلے کمزور کر دیتی ہیں۔ اسی طرح مردوں کا بھی چالیس کے بعد کہیں پیٹ نکلا ہوتا ہے تو کہیں مکمل موٹاپا ،جس سے پھر ٹانگوں اور گھٹنوں کے درد کی شکایت پیدا ہوتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ چاہے گھٹنوں اور مہروں کا آپریشن ہوا ہو، سٹرائیڈ کے ٹیکے لگے ہوں یا تکیلف رفع کرنیوالی ادویات لی جارہی ہوں فزیوتھراپی پھر بھی کروانا پڑتی ہے۔ یہ ورزش ہی کی سائنٹیفک قسم ہے۔ پنجاب میں جتنے بھی ہسپتال اور علاج گاہیں ہیں ،جن میں متبادل علاج کے مراکز جیسے کہ حکمت اور ہومیوپیتھک بھی شامل ہیں، ان کا پنجاب ہیلتھ کئیر کمیشن کے ساتھ رجسٹر ہونا ضروری ہے۔ یہ ادارہ علاج گاہوں کو صحت کی فراہمی کے کم سے کم معیار کے اصولوں پر عملدرآمد کرنے پر پاپند کرتا ہے تاکہ مریضوں کو درست طریقہ علاج سے صحت یاب کیا جائے۔ اسی لیے کمیشن کا ایک مقصد عطایت کا خاتمہ بھی ہے۔ معیار کی بہتری ان طریقہ ہائے علاج کے خاتمے کا باعث بنتی ہے جو یا تو غیر پیشہ ور لوگ فراہم کر تے ہیں یا وہ ڈاکٹر جو صحت کے اصولوں سے پہلو تہی برتتے ہیں۔ جیسا کہ ایک ہی سرنج سے کئی مریضوں کو ٹیکہ لگانا وغیرہ۔ لیکن فزیوتھراپی کا شعبہ کمیشن کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا اسی لیے ان سینٹرز کی رجسٹریشن نہیں ہوتی۔ دوسرے لفظوں میں فزیوتھراپی فراہم کرنے والے طبیب جس طرح چاہیں علاج کرنے کی کھلی چھٹی رکھتے ہیں۔ کمیشن کے عہدے داروں کے مطابق چونکہ فزیوتھراپی کی اپنی کوئی کونسل نہیں، جیسے کہ نرسوں کی پاکستان نرسنگ کونسل اور ڈاکٹروں کی پاکستان میڈیکل کمیشن ہے، اس لیے اس شعبے کی کارکردگی کو جانچنے، اسکے معیار کا تعین کرنے اور درست علاج کی فراہمی کا تجزیہ کرنے کے اصول بنانے مشکل ہیں۔ اس سرپرست ادارے کی غیر موجودگی کا مطلب ہے کہ اس پیشے کا کوئی تنظیمی ڈھانچہ نہیں اور نہ ہی اس کے قوائد و ضوابط وضع ہیں۔ ہر سال ہزاروں لوگ تھراپسٹ بنتے ہوں اور علاج گاہیں روزانہ لاکھوں روپے کما رہی ہوں لیکن اس شعبیکا کوئیوارث نہ ہونا قابل تشویش ہے۔ ایک فزیوتھراپسٹ Neuro Amino Frequency Therapy کا استعمال کرتی ہے جس میں درد کی جگہ پر گول شکل کا پیچ لگایا جاتا ہے۔ ایک پیچ 1,000 روپے میں پڑتا ہے اور ایک مریض کو بعض اوقات بیس یا اس سے زائد پیچ لگائے جاتے ہیں جو صرف تین دن تک موثر ہوتے ہیں۔ یہ عمل بار بار اسی مریض پر مہینے میں کئی بار دہرایا بھی جاتا ہے کیونکہ پیچ درد کی گولی کی طرح وقتی علاج ہے۔ یہاں تک تو بات مانی جا سکتی ہے کہ اس سے درد کم کرنے کا علاج کیا جارہا ہے۔ اس عمل سے میں خود بھی گزری ہوں۔ لیکن یہ ہی فزیوتھراپسٹ ان پیچیز کو کورونا کے علاج اور لڑکا پیدا کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کا تعین کون کرے گا کہ درد کی صورت میں کتنے پچیز لگنے چاہیے؟ اسی طرح اس کا تعین کون کرے گا کہ آیا کورونا اور نر حمل کے لیے ان پیچیز کا استعمال عالمی سطح پر کیا جارہا ہے؟اگر نہیں تو کیا یہ عمل عطایت کے زمرے میں نہیں آتا ؟ پھ پیچ کی قیمت کے جائز ہونے کا تعین کون کرے گا؟ ان سب باتوں کا جواب ہمیں نہیں مل سکتا کیونکہ اس شعبے کی کارکردگی اور افادیت کو جانچنے کا نہ تو ہمارے پاس کوئی معیار ہے اور نہ ہی کسی ادارے کے پاس اختیار۔ اسی طرح لاہور کے ایک بہت بڑے ہسپتال میں آسٹیو پیتھی جو کہ مالشی طریقہ علاج ہے کو کسی اور زاویے سے استعمال کیا جارہا ہے۔ ڈاکٹر مریض کے جسم کے چند خاص حصوں پر کچھ منٹوں کے لیے دباو ڈالتے ہیں۔ جس کا مقصد جسم کے مختلف اعضا میں پیدا ہونے والے عدم توازن کو ختم کرنا ہے۔ ایک سیشن کے تقریبا 4,000 سے5,000 روپے لیے جاتے ہیں۔ ہمیں نہیں پتا کہ آسٹیو پیتھی میں اس طرح علاج کرنے کی گنجائش ہے کہ نہیں؟ کیا واقعی اس علاج سے جسم کے اعضا کے درمیان توازن قائم کیا جاسکتا ہے؟ ان تمام سوالوں کا جواب تلاش کرنا تو وزارت صحت پنجاب، پنجاب اسمبلی کی کمیٹی برائے صحت اور پنجاب ہیلتھ کئیر کمیشن کا ہے۔ان تمام اداروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ کوئی بھی علاج کرنے کا طریقہ کار انسپیکشن اور جانچ پڑتال کے بغیر عمل میں نہ لایا جائے۔ اس ضمن میں پنجاب ہیلتھ کئیر کمیشن کی بحثیت ریگولیٹری اتھارٹی ذمہ داری زیادہ بنتی ہے۔ اتنے بڑے شعبے کو بے یار و مدد گار چھوڑنا مریضوں کو بھیڑیوں کے سامنے پھینکنے کے مترادف ہے۔