چودھری نثار اور متعدد دیگر ارباب قدسی صفت کی طرح جناب مصطفی کمال بھی ایک ہی صف کے محمود و ایاز میں شامل ہیں جو آج کل اس فریاد کا نقش بنے ہوئے ہیں کہ ع تیرے نی قراراں مینوں پٹیا دس میں کی پیار وچوں کھٹیا (تیرے وعدوں نے برباد کردیا، بتائو، پیار کی اس بازی سے مجھے کیا ملا)۔ یہ تو ریت رہی ہے ہمارے ہاں کی کہ وعدہ کئی سے، نبھایا ایک سے ہی کرتے ہیں۔ مصطفی کمال نے چند برس بہت دھوم دھڑکے سے ایک لانڈری کھولی تھی جو ایک بار تو خوب چلی او رجب بہت سے دھل دھلا کر حب الوطنی کے گریجوایٹ ہو گئے تو آنجناب کی افادیت ختم ہو گئی لیکن کمال کے ساتھ کمال یہ ہوا کہ انہیں پتہ ہی نہیں چلا کہ اب ان کا شمار صرف شدہ اشیائے صرف میں ہو گیا ہے۔ آخر تک ان سے وعدے وعید کی تجدید ہوتی رہی۔ چند دن پہلے ہی، یعنی الیکشن سے شاید ایک رات پہلے کی بات ہے جب انہوں نے کہا کہ ہم ایک آدھ کے سوا کراچی حیدرآباد کی ساری سیٹیں جیت رہے ہیں۔ اب انہیں معلوم ہوا کہ قرار و وعدہ وہ پکا تھا جس کی اطلاع سال ڈیڑھ پہلے تحریک انصاف کے واڈا صاحب نے پریس کو دی تھی۔ انہوں نے فرمایا، ہم سے وعدہ کیا گیا ہے کہ سال کے آخر تک کراچی ہمارے حوالے کردیا جائے گا۔ کمال صاحب نے بھی یہ ویڈیو دیکھی ہو گی لیکن پھر بھی اپنے ہی گمان میں رہے۔ انہیں چاہیے، وہ یہ ویڈیو پھر دیکھ لیں۔ یوٹیوب پر بدستور موجود ہے۔ جس سال کے آخر کا وعدہ تھا، وہ 2017ء کا تھا۔ اب کمال صاحب برہم ہیں اور ایک چینل پر دل کی بھڑاس نکالی ہے۔ وزیراعظم کے اس فرمان پر کہ جو حلقے کھولنا چاہتے ہیں، ہم انہیں کھول دیں گے، فرمایا کہ اور کو چھوڑو، واڈا اور شہبازکا اور عامر لیاقت کا حلقہ ہی کھلوا کر دیکھ لو، دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔ کچھ انکشافات برآمد ہونے والے اسلحہ کے ذخیروں کے بارے میں بھی فرمائے۔ ویسے خان صاحب نے دریا دلی کرنی ہے تو دوبارہ گنتی کی درخواستیں قبول فرمالیں لیکن وہ ایسا کیوں کریں گے، ڈھیر ساری نشستیں کیوں گنوائیں گے۔ جہاں تک حلقے کھلونے والی بات ہے تو اس کا باب بند ہو چکا۔ انتخابات شفاف ترین تھے۔ صفحہ ہستی پر ایسی شفافیت کبھی دیکھی نہ سنی، پورا پاکستان ہی نہا گیا۔ حلقے کھلنے کا امکان اول تو تھا نہیں اور اگر، بالفرض محال تھا بھی تو دوبارہ گنتی کے آٹھ دس واقعات کے بعد کالعدم ہوگیا۔ پتہ نہیں کیا سوچ کر ارباب اختیار نے چند حلقوں کی گنتی دوبارہ کروادی اور پھر ہوا یہ کہ جو جتنے ووٹوں سے ہارے تھے، اتنے ہی ووٹوں سے جیت گئے۔ فتنوں کا دروازہ ہی کھل گیا اور یہ تو معلوم ہی ہے کہ فتنہ قتل سے بھی بڑھ کر بلا ہے۔ سو اس باب کو بند کرنا پڑا اور دوبارہ گنتی کی جتنی بھی درخواستیں پائپ لائن میں تھیں، سب مسترد کر دی گئیں۔ ارباب شفافیت نے ملک کو فتنے سے بچا لیا، شکریہ واجب ہے۔ ٭٭٭٭٭ جہاں تک واڈا صاحب اور لیاقت صاحب کی جیت کا معاملہ ہے تو تحریک انصاف کو ملک بھر کی طرح کراچی میں بھی اوپر والے نے چھپڑ پھاڑ کردیا۔ ایک خضر صورت بزرگ نے فرمایا ہے کہ تحریک انصاف نے دراصل کراچی میں محنت ہی نہیں کی، اس لیے 21 میں سے صرف 14 سیٹیں ملیں۔ محنت کرتے تو کیا ہوتا، 21 میں سے شاید 25 مل جاتیں۔ تحریک انصاف والوں کے لیے قدرت چھپڑ نہ پھاڑتی تو کیا ہوتا؟ ایک سیٹ تو بہرحال مل ہی جانی تھی۔ سنا ہے 14 سیٹوں پر کامیابی کی خبر سن کر ایک بار تو بنی گالہ میں بھی سناٹا چھا گیا کہ اتنی تو ہم نے مانگی بھی نہیں تھیں۔ تحریک انصاف قسمت کی دھنی ہے۔ پہلی بار ایسا نہیں ہوا ہے کہ جو شے مانگی نہیں، وہ بھی مل گئی، اقامہ والی لاٹری یاد ہوگی۔ بہرحال خدا کا شکر ہے کہ باب الفتن بند کردیا گیا اور اب ملک لال قلعے کے فاتح حافظ سعید کے فرمان کے مطابق ’’ریاست مدینہ‘‘ میں داخل ہورہا ہے۔ کہتے ہیں، وہ دعا جو بار بار کسی نے کی تھی کہ خدا ملک کو عادل حکمران عطا فرمائے، وہ بھی قبول ہوئی۔ ایک اشرافی نے گزشتہ روز اپنے کالم میں خان کی فتح کو ’’فتح مبین‘‘ قرار دے ڈالا، دیکھئے، اب کیا دعویٰ آتا ہے۔ ’’ریاست مدینہ‘‘ سے یاد آیا، زیک گولڈ سمتھ نے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا ہے اور قوم کو مبارکباد دی ہے۔ ٭٭٭٭٭ ’’وزیراعظم‘‘ نے فرمایا ہے، بھارت سے اچھے تعلقات چاہتا ہوں، وہ ایک قدم آگے بڑھے، میں دو قدم آگے بڑھوں گا، بھارت میں میرے چاہنے والے بے شمار ہیں۔ تیری آواز مکے اور مدینے۔ اب ’’مودی کے یار‘‘ والے خطاب کا مستقبل کیا ہوگا’ مزید فرمایا، افغانستان کے ساتھ کھلی سرحدیں رکھنے کا حامی ہوں۔ کھلی سرحدیں اور افغانستان کے ساتھ؟ ٭٭٭٭٭ شفافیت کے خلاف مسلم لیگ کوئی تحریک چلانے کے قابل ہے نہ اس کا ایسا کوئی ارادہ ہے۔ تاہم اشرافیہ کے دیرینہ قصیدہ نگار، خضر صورت بزرگ نے اپنا تجزیہ پیش کر دیا ہے اور کہا ہے کہ تحریک کامیاب نہیں ہوسکتی۔ دلیل یہ دی ہے کہ تحریک تو عمران خان کی بھی کامیاب نہیں ہو سکی تھی ۔ جی یہی لکھا ہے۔ یہ بات کوئی اور کہتا تو مودی کا یار کہلاتا۔ مگر بات، فتح مبین کے فاتح کے قلمکار نے کی ہے اس لیے برحق ہے۔ کس کیفیت میں یہ اعترافی انکشاف فرمایا، ارباب کیف ہی بتا سکتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ ایک اور صاحب نے مشورہ دیا ہے کہ بے پایاں شفافیت کے خلاف مسلم لیگ قانونی راستہ اختیار کرے، شنوائی ہوگی۔ یہ صاحب شاید اس دور کے غار کہف سے طویل نیند کے بعد برآمد ہوئے ہیں۔ سال ڈیڑھ سے باب شنوائی مسلم لیگ کے لیے بند ہونے کی اطلاع غالباً اسی لیے ان تک نہیں پہنچی۔ شنوائی کے لیے جائے گی تو کیا پائے گی؟ نوازشریف کے لیے نااہلی کا ایک اور فتویٰ سمیٹ لائے گی۔ گزشتہ شام ایاز صادق ایسی ہی شنوائی کے لیے الیکشن کمشنر کے پاس گئے، وہ پچھلے دروازے سے ارباب رضا کی رضا سمیٹتے نکل چکے تھے۔ الیکشن میں جو بھی غیر معمولی ہوا ہے، وہ ایسے ہی نہیں ہو گیا ہے۔