شہروں کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ آدمی کا دل، کسی میں لگتا ہے اور کسی میں نہیں۔ اپنا شہر، کسے اچھا نہیں لگتا؟ اپنے شہر کو "عالَم میں انتخاب" کہنے والے شاعر نے، یہ بھی کہا تھا ع دلی کے نہ تھے کوچے، اوراق ِمصور تھے شہر تباہ ہوتا ہے، شاعر بھی خانہ خراب ہو کر، لکھنئو پہنچتا ہے۔ پر یہ نیا شہر، اپنی تمام تر رعنائیوں کے باوجود، اسے ذرا نہیں بھاتا۔ شاعر پْکار اْٹھتا ہے ع خرابہ دلی کا دِہ چند، بہتر لکھنئو سے تھا کسی زمانے میں، پورے ہندوستان کے بے سہارے اور بے آسرے ادیبوں اور شاعروں کی دست گیری، حیدر آباد دکن کیا کرتا تھا۔ اس کی مدح یوں کی گئی ہے۔ ع دکن سا نہیں ٹھار سنسار میں ہمارے، آپ کے، سب کے انشا جی، ہیں تو مشرقی پنجاب کے، لیکن کراچی پہنچ کر، پکے کراچوی بن جاتے ہیں اور اس شہر کی بابت کہتے ہیں۔ ع مری حیرتوں کا روما، مری حسرتوں کی دلی مہاجر، منیر نیازی بھی تھے۔ مشرقی پنجاب سے آئے اور اپنے گائوں کو، کبھی بھول نہیں پائے۔ مگر لاہور کی جاذبیت بھی، کہوا ہی دیتی ہے ع لاہور ِبے مثال! ترے بام و در کی خیر! یہ نسبت اور تعلق، ہر زبان میں بیان کیا گیا ہے۔ رْودکی نے، بْخارا کی آبادی اور درازی ِعْمر کی دعا کی ہے ع ای بْخارا! شاد باش و دیر زی! شعر و ادب کی دنیا میں، یہ فخر، صرف شیراز کو حاصل ہے کہ فارسی کے سب سے بڑے شاعر سعدی اور سب سے بہترین غزل گو حافظ، دونوں یہاں کے تھے۔ سعدی، فخریہ کہتے ہیں ع کہ شہرہا ہمہ بازند و شہر ِما شہباز (دوسرے شہر، باز ہیں تو شیراز شاہ باز!(اصفہان کو نصف ِجہان کہا جاتا ہے۔ بقول ِحافظ ِشیراز ع ولی شیراز ِما، از اصفہان بہہ (لیکن ہمارا شیراز، اصفہان سے بھی افضل ہے!( بعض معاملات میں، ان شہروں کی اولیت بجا، سارا ناز و فخر سر آنکھوں پر۔ لیکن زمین کے ہر خطے پر، برتری اس کی ہے جو ع دنیا کے بتکدوں میں، پہلا ہے گھر خْدا کا اور اس کے بعد، وہ شہر، جو اقبال کے بھی دل میں بسا رہا اور جس کے بارے میں فرما گئے ہیں ع خاک ِیثرِب، از دو عالم، خوش تر است مکہ اور مدینہ کی فضیلت کے بعد، بزرگی اس شہر کی تسلیم کرنی چاہیے، جو چھوٹا سا ٹکڑا مشرقی یروشلم کا ہے۔ یہ مقام، شہر ِقدیم سے موسوم ہے اور رقبہ اس کا، فقط ایک مربع میل ہے۔ گویا پندرہ بیس منٹ میں، ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچ جائیے۔ یہ اَور بات ہے کہ یہاں گھنٹوں سیر کرنے پر بھی، نہ جی بھرے اور نہ قدم ہی تھکیں۔ بلکہ ع ہر قدم پر ہو فزوں، لذت ِسرگرمی ِسعی اس مختصر سے شہر کو بھی، چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مسلم، یہودی، عیسائی اور آرمینی کوارٹرز۔ آرمینی اس علاقے کو چھوڑ کر، کبھی کے سدھار چکے۔ عیسائی، یہودیوں کے زور اور زبر دستی کے باوجود، اب تک، کچھ نہ کچھ ٹِکے ہوئے ہیں۔ ہاں! مسلمان البتہ پورے عزم کے ساتھ یہاں قائم ہیں۔ یہاں آمد، دو سال بعد ہوئی تھی۔ یہودیوں کی شرارتیں اور ترت پھرت، ان دو برسوں میں، ظاہر ہے کہ اَور بڑھ گئی ہے۔ لیکن، مسلمانوں کے قدم بھی، جمے ہوئے ہیں۔ ان چاروں علاقوں میں، آج بھی سب سے زیادہ رونق دار علاقہ، مسلمانوں کا ہے۔ بازار گاہکوں سے پَٹے ہوئے ہیں۔ یہاں زیادہ تر دکانیں، گِریوں، حلووں اور لوزات کی ہیں۔ یورپی اور امریکن خریدار، ان حلویات پر، ٹْوٹے پڑتے ہیں۔ دْکان دار ان کی نظر پہچانتے ہیں۔ ہاتھ کے ہاتھ، انہیں چکھوتیاں پیش کرتے ہیں۔ خریدار ٹھنگیر کرتے جاتے ہیں، سامان بندھواتے جاتے ہیں۔ اس کے بعد نمبر، یادگاری تحائف کا ہے۔ سِکے، تصاویر، چابیوں کے چھَلّے اور دست کاری کے نمونے وغیرہ، سستی قیمت پربک رہے ہیں۔ انہی دکانوں میں، آپ کو سونے کے پانی چڑھی ہوئی چیزیں بھی مِل جاتی ہیں۔ پچھلی دفعہ، خود میں نے، بیت المقدس کی طلائی، ایک ایسی منقش دست کاری تصویر خریدی تھی، جس کی لوح پر، سورہ اسرا کی پہلی آیت کا ٹْکڑا نقش ہے۔ ترجمہ۔ "پاک ہے وہ، جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد ِحرام سے مسجد ِاقصٰی تک"۔ غیر مسلم، انگریزی میں یا اشاروں سے، مول تول کر رہے ہیں۔ بھائو تائو، اس وقت تک ہوتا رہتا ہے، جب تک دونوں پارٹیاں، یکسْو نہ ہو جائیں۔ گاہک خوش ہے کہ چیز سستی مِل گئی۔ دکان دار مطمئن ہے کہ جتنا نفع سوچا تھا، اس سے کم نہیں ہوا۔ عربی، ہماری مذہبی زبان ہے۔ اسی زبان میں ہم سے خطاب، خْدا نے کیا ہے۔ اس کا سیکھنا، ہم پر لازم ہونا چاہیے۔ فارسی کی بابت، مثل مشہور ہے"ہاتھ کنگن کو آرسی کیا، اور پڑھے لکھے کو فارسی کیا"! فارسی اور اردو، یوں بھی، بڑی اور چھوٹی، بہنیں ہیں۔ مگر عربی کا معاملہ ٹیڑھا ہے۔ اس میں گاڑی چلتی بھی ہے تو بقول ِانیس ع گہ تھمی، گاہ بڑھی، گاہ رْکی، گاہ چلی اپنی اس معذوری پر، جی بہت کْڑھا۔ تہیہ کر لیا کہ عربی زبان کی، اب باقاعدہ تحصیل کی جائے۔ یہ غیرت اس لیے بھی آئی کہ پْختہ عْمر کو پہنچے، مغربی ملکوں میں پلے بڑھے یہودی، یہاں عبرانی بولتے نظر آتے ہیں۔ مسلمانوں کی تاریخ کے نشان، شہر ِقدیم میں، جگہ جگہ ثبت ہیں۔ مثلا عیسائیوں کے کوارٹر میں، ان کا سب سے متبرک گرجا، ہولی چرچ آف سیپلکر واقع ہے۔ عیسائیوں میں مشہور ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کو سْولی یہیں دی گئی۔ اس سے مسلمانوں کی نسبت کی وجہ یہ ہے کہ یہاں فاروق ِاعظم ؓ تشریف لائے تھے۔ وہ مسجد، چرچ سے چند قدم کے فاصلے پر ہے، جو تاریخ ِعالم کے سب سے بہترین اور کامیاب حْکمران، عْمرؓ کے نام سے منسوب ہے۔ فتح ِبیت المقدس کے بعد، امیر المومنین جب یہاں تشریف لائے تو ان کے حْسن ِسلوک سے، چرچ کا پادری بھی بے حد متاثر ہوا۔ ملاقات کے دوران میں، نماز کا وقت ہوا اور آپ ؓ اْٹھنے لگے۔ پادری نے دعوت دی کہ یہ شرف، اس چرچ کو عطا ہو! آپؓنے فرمایا کہ نماز اگر میں، یہاں پڑھوں گا تو ممکن ہے کہ میرے بعد آنے والے مسلمان، چرچ پر بھی حق جتانے لگیں۔ آپؓ نے نماز، چرچ سے باہر نکل کر، ادا کی۔ بعد میں، اسی مقام پر، صلاح الدین ایوبی نے مسجد ِعْمر تعمیر کرائی۔ چھوٹی سی اس مسجد کو دیکھنے، عیسائی بھی آتے ہیں۔