اسلام آباد(سپیشل رپورٹر) سینٹ قائمہ کمیٹی برائے شماریات کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر جہانزیب جمالی دینی کی زیر صدارت ہوا ۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں وزارت شماریات اور اس کے ماتحت اداروں کے کام کے طریقہ کار ،کارکردگی ، بجٹ ، ملازمین کی تعداد ، ماتحت اداروں کو درپیش مسائل کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔ قائمہ کمیٹی برائے شماریات نے سفارش کی ہے کہ شماریات کو وزارت خزانہ سے الگ کر کے خود مختار ادارہ بنایا جائے کیونکہ وزارت خزانہ کے دبائو کی وجہ سے اسٹیٹکس ڈویژن کی معلومات قابل بھروسہ نہیں ہو تیں، سینیٹرز شیری رحمان اوررخسانہ زبیری نے کہا کہ انتہائی اہم وزارت ہے مگر اصل اعدادوشمار کے حوالے سے پیچھے ہیں ، کسی بھی ملک کیلئے ڈیٹا لائف لائن ہوتی ہے اس کو بین الاقوامی معیار کا ہونا چاہیے ۔ سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ وزارت شماریات اور سٹیٹ بنک پاکستان کے اعدادوشمار میں کافی فرق ہوتا ہے ، اصل حقائق سامنے آنے چاہیں جس پر کمیٹی کو بتایاگیا کہ سٹیٹ بنک حاصل ہونے والی آمدن کے حوالے سے اعدادوشمار جاری کرتا ہے جبکہ وزارت اشیاء اور مصنوعات کے حوالے سے اعدادو شمار مرتب کرتی ہے ۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ وزارت پسماندہ علاقوں میں غربت کی شرح ، خوراک کی کمی ، سمال انڈسٹریز ، غربت کی سطح ، لائف اسٹاک، پانی وبجلی کی کمی کے حوالے سے زیادہ توجہ مرکوز کرے ۔انہوں نے کہا کہ چھوٹے صوبوں سے شکایات ہیں کہ لوگ جعلی ڈومیسائل بنوا کر چھوٹے صوبوں میں سرکاری نوکریوں میں حق مار لیتے ہیں ۔ ڈومیسائل کی تصدیق کرانی چاہیے ۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ مردم شماری کے حوالے سے پورے ملک کو 168943 بلاکس میں تقسیم کیا گیا ہے اور ایک بلاک 200 سے 250 گھروں پر مشتمل ہوتا ہے اس کا سروے کوئی بھی کر سکتا ہے ۔ شہری بلاکس کو ڈیجیٹائز کر دیا گیا ہے جبکہ دیہی علاقوں کو اگلے مرحلے میں کیا جائے گا۔ مردم شماری کے نتائج کے حوالے سے مشترکہ مفادات کی کونسل نے فیصلہ کیا ہے کہ 24 ویں آئینی ترمیم کی وجہ سے نئی حکومت اعلان کرے گی اور 5 فیصد بلاکس کے مردم شماری کا فیصلہ بھی نئی حکومت نے کرنا ہے ۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ مختلف اقسام کے 38 سروے کرائے جا رہے ہیں انرجی کا سروے آخری مراحل میں ہے ۔ اراکین کمیٹی نے ادارے کو آزاد خود مختار بنانے پر بھی زور دیا ۔ سینٹ کمیٹی سفارش