لکھنے بیٹھا تو کئی موضوع ذہن میں تھے۔ ابھی بیٹھا سوچ ہی رہا تھا کہ کس پر لکھا جائے کہ اس دوران کشمیرکے ایک ڈاکٹرکے بیٹے کی شہادت واقع ہوئی ۔جنوبی کشمیرکے مردم خیزپلوامہ ضلع ہسپتال میں تعینات ڈاکٹر عبد الغنی خان دن بھرزخمیوں کا علاج کرنے کے بعد اپنے کوارٹر میں لوٹے ہی تھے کہ انہیں فورا ہسپتال واپس آنے کیلئے کہا گیا ۔ جب وہ ہسپتال پہنچے تو انہیں خبر دی گئی کہ قابض بھارتی فوج کے فائرنگ سے ان کے 15سالہ بیٹے فیضان احمد کی بھی شہادت واقع ہوئی ہے۔ گزشتہ جمعہ کو جنوبی کشمیرکے ضلع پلوامہ کے تھمنہ گائوں میں قابض بھارتی فوجی اہلکاروں کی فائرنگ سے کئی افراد زخمی ہوگئے جن میں فیضان بھی شامل تھا۔فیضان کو خون میں لت پت حالت میں مقامی میڈیکل سینٹر راجپورہ کے ہسپتال میں داخل کرایا گیا ، لیکن حالت نازک ہونے کی وجہ سے ڈاکٹروں نے انہیں ضلعی ہسپتال منتقل کردیا ۔ ضلعی ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر رشید پارہ کاکہناہے کہ راجپورہ ہسپتال کے ڈاکٹروں نے فیضان کی شناخت کرنے کے بعد ہمیں بتایا ۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ ضلع ہسپتال تک پہنچنے تک شاید ہی وہ زندہ بچ پائے ، ہم نے پوری کوشش کی ، لیکن بدقسمی سے یہ بچہ راستے میں ہی دم توڑگیاتھا۔ فیضان اسی ہسپتال میں پیدا ہوا تھا اور یہیں کے کیمپس میں اس کا بچپن گزرا تھا ۔جب یہ پتاچلاکہ یہ ڈاکٹرعبدالغنی خان کے فرزندہیں جودن بھرزخمیوں کاعلاج کرنے کے بعد ابھی ابھی گھرچلے گئے ہیں۔ توڈاکٹرپارہ اور ہسپتال کے اسٹاف نے ڈاکٹرخان کو ہسپتال بلانے کا فیصلہ کیا۔وہ کہتے ہیں کہ ہم نے خان کو اس کے بیٹے کے بارے میں بتائے بغیر ہی بلایا اور جب اس کی لاش کو کفن میں لپیٹا جارہا تھا ، تب تک اسے ایک کمرے کے اندر ہی رکھا۔ جب خان پورے اسٹاف سے گھرے ہوئے تھے ، تب انہیں بیٹے کی موت کے بارے میں بتایا گیا کہ آپ کا بیٹا اب اس دنیا میں نہیں۔ وہ وارڈ میں بیٹے کو دیکھنے گئے تو ان پرغم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ان کے صبر کا دامن ٹوٹ گیا ۔ سب کی آنکھوں سے آنسورواں تھے۔ ڈاکٹر عبدالغنی کہتے ہیںکہ تقریباً چار بجے ہسپتال واپس آنے کے لیے فون آیا۔اس وقت انھیں یہ علم نہیں تھا کہ انکے لخت جگر کو بھی قابض بھارتی فوجی اہلکاروں نے گولی ماری ہے،وہ شہادت کاجام پی چکاہے اور ہسپتال میں ان کے اپنے بیٹے کی لاش رکھی پڑی ہے ۔قابض بھارتی فوج نے مظاہرین پر پیلٹ گن اور بندوق سے فائرنگ کی جس میں کئی مظاہرین زخمی ہو گئے۔ڈاکٹرعبدالغنی کاکہناتھاہسپتال کے میرے ساتھی مجھے دلاسہ دینے لگے۔ جب میں نے پوچھا کہ کیا ہوا تو انھوں نے بتایا کہ آپ کا بیٹا اب اس دنیا میں نہیں رہا۔ بیٹے کی لاش دیکھ کر میں ٹوٹ گیا، لیکن ضبط تو کرنا پڑتا ہے۔ڈاکٹر غنی نے اپنے بیٹے کی لاش کو سفید چادر میں لپیٹ دیا اور گھر کے لیے روانہ ہو گئے۔ وہ کہتے ہیںکہ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اپنے ہی ہسپتال میں اپنے ہی بیٹے کی لاش دیکھوں گا۔ میرے بیٹے کے دل میں گولی ماری گئی ہے۔ یہ ٹارگٹ کلنگ ہے۔ اس کی شہادت جائے وقوعہ پر ہی ہو گئی تھی۔ دن بھر کے واقعات کو یاد کرتے ہوئے ڈاکٹر غنی کہتے ہیںکہ میں نے صبح بیٹے سے پوچھا تھا کہ سکول جا ناہے یا نہیں تو اس نے کہا تھا کہ آج جمعہ ہے، آج نصف دن کی چھٹی رہے گی اس لیے میں نہیں جائوں گا۔ بارش ہو رہی تھی اورمیں ہسپتال اپنی ڈیوٹی پرچلاگیا۔ یہ میری اپنے بیٹے سے آخری بات چیت تھی۔ڈاکٹرعبدالغنی کہتے ہیں کہ انھیں اندیشہ تھا کہ آج جمعہ ہے اور نمازجمعہ کے بعدکشمیرکے طول وعرض میں بھارت مخالف مظاہرے ہوتے ہیں اورعین ممکن ہے کہ آج فیضان بھی بھارت مخالف مظاہروں میں شامل ہو جائے۔ وہ کہتے ہیںکہ اسی سوچ کے ساتھ میرا دل اندر سے بے چین تھا۔ دن بھر یہی انتظار تھا کہ گھر جائوں اور اپنے بیٹے اور خاندان کے ساتھ کھانا کھائوں۔لیکن علاقے میں بھارتی قابض فوج نے مظاہرین پرفائرنگ کردی تھی اس وجہ سے زخمیوں کی ایک بڑی تعداد ہسپتال لائی گئی اورمیں انکے علاج ومعالجے میں مصروف تھا۔ 15 سالہ نوجوان جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ رہا تھا۔ ڈاکٹر غنی کا کہنا ہے کہ حالیہ مہینوں میں وہ کشمیر کے مسئلے پر بہت سنجیدہ رہنے لگا تھا۔ عمر کے ساتھ اس میں سیاسی اور سماجی شعور پیدا ہو رہا تھا۔کشمیرمیں بھارتی فوج کی جاری بربریت میں اضافے پر وہ دانت پیس رہاتھا۔ گزشتہ چھ ماہ سے کشمیر کی آزادی کے مسئلے سے لگائو محسوس کر رہا تھا۔ وہ ریاستی دہشت گردی اورتشدد کے بارے میں متفکر رہتا تھا۔ڈاکٹر عبدالغنی کہتے ہیں کہ وہ بھارتی قابض فوج کی ظالمانہ اورسفاکانہ کارروائیوں پر اپنی رائے رکھتا تھا اور سوال کرتا تھا کہ کشمیر میں عام اور معصوم لوگوں پر گولیاں کیوں چلائی جاتی ہیں، جن کے ہاتھ میں بندوق نہیں ہوتی انھیں بھی گولی مار دی جاتی ہے اور کوئی اس مسئلے پر بات بھی نہیں کرتا۔ طب کا پیشہ انتہائی قابل احترام ہونے کے ساتھ ساتھ انسانیت دوست بھی سمجھاجاتاہے۔ایم بی بی ایس کی ڈگری رکھنے والامسیحاہی نہیں ہوتا، بلکہ خدمت خلق پرمامورہوتاہے ۔ اس سے بڑھ کر خدمتِ خلق کیاہوسکتی ہے۔1970ء میں جب ڈاکٹر جمعہ پاکستان میں واحد نیورو سرجن تھے تو ایک دن ڈاکٹر صاحب کا بیٹا عصمت موٹر سائیکل حادثے میں شدید زخمی ہوگیا۔ اسے فوری طور پر جناح ہسپتال کراچی لایا گیا۔جہاں اس کے والد ڈاکٹر جمعہ آپریشن تھیٹر میں ایک عام مریض کا آپریشن کر رہے تھے۔ ڈاکٹر جمعہ کو آپریشن تھیٹر میں ان کے بیٹے کی حالت کے بارے میں بتایا گیا۔ ڈاکٹر نے آپریشن تھیٹر میں پڑے مریض کو دیکھا تو ان کے ضمیر نے اسے موت کے منہ میں چھوڑ کر اپنے بیٹے کو دیکھنا گوارا نہ کیا لہذا انہوں نے آپریشن جاری رکھا۔ آپریشن کامیابی سے ختم ہوا تو انہیں معلوم ہوا کہ ان کا عزیز بیٹا عصمت انتقال کر چکا ہے! زیر علاج عام مریض کی زندگی بچانے کے لیے ڈاکٹرجمعہ نے اپنے بیٹے کی قربانی دے دی اسی طرح کی قربانی ڈاکٹر عبدالغنی نے بھی دی۔