لکھنے کو بہت کچھ ہے۔ دگرگوں معاشی حالت،سیاسی تماشے ،اشرافیہ کی بے حسی اور رعایا کی بے بسی۔۔۔ یہ سب اپنی جگہ لیکن آج کا دن شاہینوں کی جھپٹ کے نام ،ہماری ساری بدحالی،بے بسی اپنی جگہ لیکن جارح دشمن کے گال پر بھاری ہتھیلی کا نشان چھوڑ جانے کی خوشی منانے کا حق تو ہے ناں ’آپریشن بندر‘‘ سے پہلے بندر کی سرشت کا ذکر کرنا چاہوں گا۔بندر کی فطرت میں شرارت ہے وہ نچلا نہیں بیٹھتا اسے بٹھانا پڑتا ہے اور یہ کام چھڑی کرتی ہے۔ اب تو ڈگڈگی بجاتے، بندر کو لئے گلی محلوں میں تماشے دکھانے والے مداری کم ہوگئے ہیں کبھی یہ گرمیوں کی دوپہروں میں گلی محلوں میں ڈگڈگی کی ڈگ ڈگ کرتے تو بچوں کے لئے گھروں میں رکنا مشکل ہوجاتا۔ مائیں چیختی رہ جاتیں اور یہ دروازہ کھول کر بندر کے کرتب دیکھنے جا پہنچتے۔ جہاں بند رکبھی سسرال میں بیٹھنے کے انداز بتاتا کبھی ناراض ہو کر ہاتھ پیچھے باندھ کر چل پڑتا اور کبھی بکرے کی پشت پر چھلانگ لگا کر ’’گھوڑسواری ‘‘ کرتا،ناسمجھ بچے سمجھتے کہ ان سارے تماشوں میںسارا کمال مداری کی ڈگڈگی کا ہے لیکن بھیگتی مسوں کے بعدجب ناسمجھی اور معصومیت کا قبضہ کم ہوتاہے توسمجھ آجاتی ہے کہ سارا کمال مداری کی چھڑی کا ہے۔ بندر چھڑی کی زبان بخوبی سمجھتا ہے اوراسی کے اشاروں پر چلتا ہے ۔آج ہی کے دن اقبال کے شاہینوں نے ’’آپریشن بندر‘‘ کے ڈائریکٹروں کو چھڑی کی زبان میں سمجھادیا تھا کہ مہاشے جی !اپنی حد میں رہئے گا ورنہ دھوتی چھوڑ کر بھاگنا ہو گا ۔ 283قبل مسیح میں پیدا ہونے والا فلاسفر وشنو گپت عرف چانکیاہندو نیتاؤں کا معلم اعظم ہے۔ وہ اسے گرو مانتے ہیں۔ جواہر لعل نہرو تو ایسے چیلے تھے کہ انہوںنے اپنے زمانے میں غیر ملکی سفارتکاروں کے لئے مخصوص علاقے کو چانکیا پوری کا نام دے ڈالا ۔اسی چانکیاکی خارجہ پالیسی کا مرکزی نکتہ طاقت کی ہوس اور پڑوسی ممالک کو فتح کرنے کا جذبہ قائم رکھنا ہے۔ وہ کہتا ہے: ہمسایہ ریاستوں کو دشمن سمجھواور موقع ملتے ہی وار کردو،بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی نے چانکیا کی چالیں اپنا تے ہوئے آس پاس کی ریاستوں کو دبارکھا ہے بس اک پاکستان ہے جو طاقت کی زبان میں جواب دینے کا حوصلہ اور قوت رکھتا ہے سو یہ پڑوسی کسی طور نئی دہلی کو منظور نہیںجس سے نمٹنے کے لئے بھارت اپنا دفاعی بجٹ بڑھانے کے لئے تیار رہتا ہے۔پھر 2019کے الیکشن بھی سر پر تھے مودی نے ’’چوکیدار‘‘ کا ٹائٹل اپناتے ہوئے الیکشن میں دیش بھگت کارڈ پھینکا اور26فروری 2019کی علی الصبح ساڑھے تین بجے انڈین ائیر فورس کے 12طیارے پاکستان کی طرف روانہ کر دیئے ، ان طیاروں نے آزاد جموں کشمیر، فاضلکاسیکٹر،سرکریک اور رحیم یار خان کے علاقوں میں سرحد عبور کرنے کی کوشش کی لیکن پاکستان ائیر فورس کے شاہین کب آنکھ جھپکتے ہیں ، وہ ان طیاروں کی طرف جھپٹے اور یہ بدحواس ہو کر ایسے بھاگے کہ صرف چار طیارے ہی پاکستانی حدود میں اپنابم پھینکنے کی جسارت کرسکے جن میں سے ہدف پر ایک بھی نہیں تھا باقی آٹھ طیارے جیسے آئے تھے ویسے نکل گئے ۔ دشمن کی جانب سے اس کارروائی کو ’’آپریشن بندر‘‘ کا نام دیا گیا۔بھارتی میڈیا نے ڈھول بجانا شروع کر دیا ،بھارتی پائلٹوں کی آرتیاں اتاری جانے لگیں ،مندروں میں گھنٹے بجائے جانے لگے بھارتی میڈیا نے وہ شور مچایا کہ کا ن پڑی آواز سنائی نہ دے ، اس جارحیت کے بعد بھارتی افواج کوہائی الرٹ کر دیا گیا کہ جواب متوقع تھاچھبیس فروری کا سارا دن بھارتی طیارے اپنی سرحدوں پر ایندھن پھونکتے رہے ۔سوشل میڈیا پر بھارتی اپنی اس کامیابی کے شادیانے بجاتے نہ تھک رہے تھے اور پاکستانی خاموش تھے۔ ایک اداسی اور یاسیت سی پھیلی ہوئی تھی۔ سچ یہی ہے کہ ہمیںبھارت سے کسی بھی میدان میں دبنا قبول نہیںخواہ وہ کھیل کا میدان ہو یا جنگ کا ۔ مجھ سمیت ہر پاکستانی منتظر تھا کہ پاکستان کیا ردعمل دیتا ہے پاکستان کے روشن خیالوں کا ایک مخصوص طبقہ ویسے ہی یاسیت او ر ناامیدی کے لئے بڑازرخیز ہے سو انہوںنے اپنے لچ تلنا شروع کر دیئے۔ یہ سلسلہ ستائیس فروری کی صبح اس وقت تک جاری رہا جب تک پاکستان ائیر فورس کے شاہینوں نے مقبوضہ کشمیر کے پونچھ سیکٹر کے بریگیڈ ہیڈکوارٹر ،راجوڑی اورنوشہرہ سیکٹر کے نارائن سپورٹ ڈپوپر پہنچ کر انہیں نشانے پرنہ لیا۔ پاکستان نے سرپرائز دیا اورچھ بم گراکر طبیعت صاف کردی ،کامیاب کارروائی کے بعد پاکستانی شاہینوں کی انڈین ائیر فورس کے ہوا بازو ں سے مڈبھیڑ ہوئی نتیجہ دو طیاروں کے زمین پر جلتے بلتے ملبے کی صورت میںملا ، انڈین ائیر فورس کا ہوا باز ابھینندن ورتھمان ہمارے ہاتھ لگا جس کو پلائی گئی فنٹاسٹک چائے نے دنیا میں شہرت حاصل کی، آج اسی سرشاری کا دن ہے ۔ ہم یہ کئی بار ثابت کرچکے ہیں کہ پاکستان کی مسلح افواج کسی بھی بیرونی خطرے سے کبھی غافل نہیں رہیں، نئی دہلی کی طرف سے بھارتی ٹینک آئیں یاجدید لڑاکا طیارے ،ہم سامنا کرنے سے کبھی نہیں گھبرائے،ہم میں اور سرحد پار میں فرق جذبے اور حوصلے کا ہے ،یادش بخیر اسلام آباد میں 65ء کی جنگ کے ہیرو ائیر کموڈور سجاد حیدر سے ملاقات ہوئی۔ نوے برس سے زائد عمر کے سجاد حیدر جیتے جاگتے لیجنڈ ہیں۔ بات سے بات نکلی توبتانے لگے : 65ء کی جنگ میںمشن پرروانگی تھی۔ ایک طرح سے یہ فدائی کارروائی تھی۔ میں اپنے اسکواڈرن کو لیڈ کر رہا تھا۔ ہماری وردیاں پسینے سے تر بتر تھیں اور ان سے بو آنے لگی تھی۔ میں نے کچھ سوچ کر پانی کی بالٹی منگوائی اور اس میں خوشبو کی پوری بوتل انڈیل دی ، اس خوشبو دار پانی میں تولیہ بھگو کر اپنا جسم صاف کرنے لگا وردی پرپھیرنے لگا کہ شہید تو ہونا ہی ہے مرنے کے بعد اٹھ کر سرکار دوعالم ﷺ کے سامنے پیش ہوں گے کم از کم جسم سے بو تو نہ آئے ،ہمارے اسی جذبے سے دشمن کوکل بھی خطرہ تھا اور آج بھی ہے۔ اسی لئے وہ ہمیں اندر سے مارنا ،الجھائے رکھنا چاہتا ہے ۔ہمیں باہر سے زیادہ اندر سے خطرہ ہے اور ہم اس سے کتنے ہوشیار ہیں اس کا جواب مجھ سے بہتر آپ جانتے ہیں !