علامہ اقبال نے اقوام عالم کے سامنے ’’طہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا‘ شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے ،کی خواہش یا تجویز رکھی تھی تو سرمایہ داری نظام کو مداری قرار دیتے ہوئے یہ اعلان بھی کر دیا تھا کہ ’’گران خواب چینی سنبھلنے لگے‘‘ علامہ اقبال کی بات لگ بھگ ایک صدی بعد 15سے 16ستمبر 2022ء کو ازبکستان کے شہر سمر قند میں منعقد ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں اس وقت سچ ہوتی محسوس ہوئی جب چین اور روس نے ببانگ دہل کہا کہ ’’دنیا اب یونی پولر نہیں رہی‘‘۔ دنیا کی استحصال زدہ اقوام واحد سپر پاور کے ورلڈ آرڈر کے متبادل نظام کی خواہشمند ہیں۔شنگھائی تعاون تنظیم تمام ممالک کو مشترکہ ترقی کے لئے باہمی تعاون کی پیشکش کر رہی ہے۔ امریکہ مالیاتی نظام کو کس حد تک جکڑے ہوئے ہیں اور دنیا کے ترقی پذیر ممالک بشمول امریکی اتحادیوں کے کس طرح متاثر ہو رہے ہیں اس کا احوال چین کے اخبار گلوبل ٹائمز کے ادارے میں بیان کیا گیا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ امریکی فیڈرل ریزرو بنک نے امریکی ڈالر کو مضبوط کرنے کے لئے سود کی شرح میں 75بیسس اضافہ کی جو تجویز رکھی ہے، اس سے ترقی پذیر ممالک کی کرنسی کی قدر 10فیصد تک گر جائے گی۔ اخبار لکھتا ہے کہ’’ فیڈ‘‘ کے اس فیصلے سے قبل ہی سری لنکا اور ارجنٹائن کی کرنسی کی ویلیو 20 فیصد کم ہو چکی ہے۔گلوبل ٹائمز کے مطابق امریکہ کی عالمی بالادستی نے ڈالر کو تیز دھار بلیڈ میں بدل دیا ہے، امریکہ جب چاہتا ہے کساد بازاری پیدا کرکے عالمی معیشت رگ کو ڈالر کے بلیڈ سے کاٹ دیتا ہے۔ امریکی ڈالر کی ’’بیماری کی کڑوی گولی‘‘ دنیا کو نگلنی پڑتی ہے۔ اخبار نے سابق امریکی سیکرٹری خزانہ جان کونالے کے اس بیان کا حوالہ دیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ’’ ڈالر ہماری کرنسی ہے مگر یہ دنیا کا مسئلہ ہے‘‘۔ امریکہ نے 1997ء اور 2008ء میں عالمی مالیاتی بحران پیدا کر کے اسی امریکی ڈالر کے پتھر سے عالمی معیشت کا شکار کیا۔موجودہ بحران میں دنیا کے غریب ممالک تو درکنار امریکہ کے اتحادی برطانیہ کی کرنسی کی قدر 20 سال کی نچلی ترین سطح پر آ چکی ہے۔ دنیا کے 36 ممالک اس بحران کی زد میں ہیں۔شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں رکن ممالک بالخصوص اور ترقی پذیر ممالک کو بالعموم منصفانہ معاشی نظام میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی ہے۔ روس اور چین عالمی تجارت میں امریکی ڈالر کی بالادستی کا توڑ متبادل ادائیگیوں کے اپنے نظام کی صورت میں پہلے ہی پیش کر چکے ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے دو اہم ممالک روس اور چین کی طرف سے پیش کیا جانے والا متبادل نظام امریکہ کی بالادستی کے لئے کس قدر خطرناک ہو سکتا ہے، اس کا اندازہ اس سے بھی ہو جاتا ہے کہ اس اقدام کی پاداش میں امریکہ روس کو یوکرین جنگ میں گھسیٹنے کے بعد چین کو تائیوان پر حملہ کرنے پر اکسا کر رہا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے اعلامیہ کے بعد عالمی مبصرین کی دنیا کے مستقبل کے بارے میں پیش گوئیاں عروج پر ہیں۔ امریکہ کے اتحادی اور پراپیگنڈہ مشین جہان روس اور چین کو عالمی نظام کے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار دے رہے ہیں وہاں امریکی استحصال کے مارے دنیا بدلنے کی امید باندھے بیٹھے ہیں۔ مستقبل کے متعلق بحث ایسے ایسے زاویوں سے ہو رہی ہیںکہ ایک ناقد نے اجلاس کے بعد جاری ہونے والی ایک تصویر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس بحث میں نہ جائیں کہ نتیجہ کیا ہو گا؟ اجلاس میں دائرے میں لگی کرسیوں کے درمیان جو میز پھولوں سے سجی ہے اس پر غور کریں جس کو نہایت غور فکر کے بعد تابوت کی شکل کا بنایا گیا ہے۔جو اس بات کا اشارہ ہے کہ اگر استحصال زدہ ممالک ہمت کریں تو جس سرمایہ داری نظام کے تابوت پرآج پھول سجے ہیں کل اس کی تدفین بھی ہو سکتی ہے۔ یہ بات محض روس اور چین کے بغض میں نہیں کہی جا رہی بلکہ زمینی حقائق سے ثابت بھی کیا جا رہا ہے اس وقت شنگھائی تعاون تنظیم میں بظاہر تو صرف آٹھ ممالک شامل ہیں مگر ان ممالک میں دنیا کے 40 فیصد لوگ بستے ہیں۔ دنیا کے کل جی ڈی پی میں ایس سی او رکن ممالک کاحصہ 30 فیصد ہے تو یہ ممالک یورپ اور ایشیا کے 60 فیصد رقبے پر پھیلے ہیں۔ 2022ء کے اجلاس میں ایران نے ایس سی او میں مستقل رکنیت کی درخواست دے دی ہے مبصر ممالک ترکی، سعودی، عرب اور قطر کی تنظیم میں دلچسپی کو رکنیت کے لئے کارروائی کا آغاز کہا جا رہا ہے۔ ایران، سعودی عرب، قطر ،دبئی اور ترکی اگر تنظیم کے رکن بن جاتے ہیں تو عالمی جی ڈی پی کا پچاس فیصد سے زائد حصہ تنظیم کے رکن ممالک کے پاس ہو گا۔ ایسا ہوتا ہے توعالمی تجارت پر امریکی اجارہ داری کمزور ہو گی یہ اس لئے ممکن ہے کہ اس کا آغاز امریکی پابندیوں کے باوجود بھارت کے روس سے سستا تیل اورکھاد خریدنے سے ہو چکا ہے۔ ایران اور ترکی عالمی پابندیوں کو پہلے ہی نظر انداز کر رہے ہیں۔ ترکی کے تین بنک روسی کرنسی میں کاروبار کر رہے ہیں۔ امریکی اجارہ داری کو ریت کی دیوار کی طرح زمین بوس ہوتا دیکھ کر پاکستان اور سری لنکا ایسی امریکی محکوم معیشتوں کے بھی روس سے تجارت پر غورکی باتیں اور کوششیں ہو رہی ہیں۔ روس اور چین نے اگلے مرحلے میں افریقی ممالک کو تنظیم میں شامل کرنے کا عندیہ دیا ہے اگر یہ کوشش کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر نہ صرف 2022ء کے اجلاس میں رکھا تابوت نما میز واقعی امریکی بالادستی کا تابوت ثابت ہو گا بلکہ دنیا علامہ اقبال کے اس خواب کی تعبیر بھی دیکھے گی: پانی بھی مسخرّ ہے، ہوا بھی ہے مسخرّ کیا ہو جو نگاہ فلک پِیر بدل جائے دیکھا ہے ملوکیّت افرنگ نے جو خواب ممکن ہے کہ اس خواب کی تعبیر بدل جائے طہران ہو گر عالمِ مشرق کا جینوا شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے!