مذہب کے نام پرانتہا پسندی جیسے ہندوستان کی قدیم مٹی میں گندھ سی گئی ہے۔چندر گپت نے موریہ سلطنت کی بنیاد رکھی تو اس کے پوتے اشوکا نے راجدھانی کو بنگال کے ساحلوں سے لے کر دورِ حاضر کے افغانستان تک پھیلا دیا۔اس عظیم ہندوستانی سلطنت کے قیام کے لئے اشوکا نے بے شمار جنگیں لڑیں۔ اپنی 16 مائوں کے بطن سے جنم لینے والے ایک سو کے لگ بھگ بھائیوں کو قتل کیا۔ کلنگا کی جنگ میں انسانی خون کچھ اس قدر بہا کہ عظیم بادشاہ کا دل ٹوٹ گیا۔ بادشاہ نے قتل و غارت سے دل برداشتہ ہو کربدھ مذہب اختیار کر لیا۔ بدھ مذہب سرکاری دھرم بنا تو ہندو مت کے برے دن آگئے ۔ دن پھرے تو ہندو ئوں کواقتدار واپس مل گیا۔اب اُن کی باری تھی۔اہنسا کے پجاری دھرموں کے ماننے والوں نے اپنی اپنی بار سندھو دریا کا پانی انسانی خون سے لال کر دیا۔صدیوںپہلے رشیوں نے اسی دریا کے کنارے بیٹھ کر امن و آشتی پر مبنی قدیم وید لکھے تھے ۔ ظہورِ اسلام کے بعد اسلامی لشکر نے ہندوستان کی سرزمین پر قدم رکھا تو ملتان تک پہنچ کر واپسی کی راہ لی۔ اگلے دو ڈھائی سوسال کسی مزید مہم جوئی کا تذکرہ نہیں ملتا۔ تاہم صوفیا ء کی ہندوستان آمد کا سلسلہ جاری رہا۔ خدا کے ان بندوں نے رنگ و نسل اور عقائد سے بالاہو کر ذات پات کے ظالمانہ نظام میں جکڑے انسانوں میں محبت اور انسانیت کا پیغام پھیلانا شروع کر دیا۔جوق در جوق نچلی ذات کے ہندو اسلام قبول کرتے چلے گئے۔ تہہ در تہہ ذات پات پر استوار ظالمانہ نظام کے شکنجے سے آزادی کا یہی ایک راستہ تھا۔ دوسری طرف شمال مغربی دروں سے حملہ آور اترنا شروع ہو گئے۔ وسط ایشیائی لشکر بار بار کابل اور سندھ دریا کے پار اترتے، لاہور کو روندتے، دلّی تک پہنچتے رہے۔ لاہور اور دلّی بار بار اجڑے۔کچھ مندر بھی اجاڑے گئے۔ سلطان علائولدین خلجی نے ہندوئوں کے مقدس شہر بنارس کا نام محمود آباد رکھ دیا ۔ایک دن بھی جسے قبولِ عام نصیب نہ ہوا ۔ سلاطین کے بعد مغلوں کا دور آیا۔ ہندوستان کی قدیم دھرتی پر مسلمان بامِ عروج کو پہنچے۔جا بجا مسجدیں تعمیر ہوچکی تھیں۔ انتہا پسندوںکو کئی ایک کی بنیادوں کے نیچے آج بھی قدیم مندروں کا سراغ ملتا ہے۔ پندرھویں صدی میں سکھ مذہب نے جنم لیا۔بابا گرو نانک نے جس فکر کی بنیاد رکھی،وہ ہندومت کی کوکھ سے پھوٹا مگر تعلیمات کے لحاظ سے دینِ اسلام کے زیادہ قریب تھا۔ بابا نانک ایک عرصہ سرزمینِ حجاز میں مقیم رہے جس طرح مسلمان صوفیوں کے آستانوں پر ہندو اور مسلمان حاضری دیتے اور فیض پاتے تھے، بابا نانک کے آستانے پر بھی خلقِ خدا آتی اور ایک خدا سے لَو لگانے، نفس پر قابو پانے اورباہم محبت کا درس پاتی۔ مغل دورِ عروج میں ہندوستان پر اپنا حق جتانے والی قوم صدیوں پر محیط دورِ غلامی سے گزر تی رہی۔ سکھوں اور مغلوں کے درمیان بھی مخاصمت بڑھتی چلی گئی۔جہانگیر بادشاہ کے دور میں پہلی بار پنجاب میں سکھوں کے خلاف باقاعدہ فوجی کارروائی کی گئی ۔ اورنگزیب کے زمانے میں ہندوستان میں اسلامی سلطنت کے قیام کی کوششوں کا آغاز ہوا۔ سکھوں کے دسویں گورو گوبند نے پہلی بار سکھ عسکری جتھوں کو منظم کیا ۔کرپانوں سے لیس خالصہ گروہ وجود میں آیا۔گورو کے خود اپنے چار بیٹے مغلوں سے جنگ میں کام آئے۔ بندا بیراگی نے بغاوت کا علم بلند کیا۔مغلوں کے ’مظالم ‘ کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرنے والے بندا بیراگی اور اس کی بیوی نے اپنے محکوم علاقے میں غیر سکھ اقوام پر مظالم کی حدیں اس طرح پار کیں کہ ان کے محل کو ’ظلم گھر‘ کہا جانے لگا۔ رنجیت سنگھ کی حکومت قائم ہوئی تو مسجدوں کو اصطبلوں اور بارود خانوں میں بد ل دیا۔ مغل مقبروں، باغیچوں، مسجدوں اور یادگاروں سے قیمتی پتھر اکھاڑ کر امرتسر بھیج دیئے گئے۔ انیسویں صدی میں جب مغل شہزادوں کی آنکھوں میں لال انگارہ گرم سلاخیں پھیری جا رہی تھیں توصدیوں محکومی میں بسر کرنے والی قوم نے کمپنی بہادر کی حاکمیت قبول کرلی۔مسلمان جب اپنی عظمتِ رفتہ کے سنہرے دن یاد کرتے ماضی میں جی رہے تھے تو ہندوئوں نے مغربی تعلیم کے حصول کے لئے کلکتہ میں کالج کے قیام کا مطالبہ کر دیا۔ سرزمینِ حجاز سے اٹھنے والی بادِ صر صر کے جھونکوں کے دوش پراسلاف کے مذہب کی طرف لوٹنے کا پیغام ہندوستانی دلوں کو گرما رہا تھا تو مقامی علماء نے بھی احیائے دین کا عزم لے کر ایک عظیم دینی درسگاہ کے قیام کا فیصلہ کیا۔ دوسری طرف ہندو نیتائوں نے شدھی کی تحریک کاآغاز کیاکہ جس کا مقصد ’زبردستی‘ مسلمان بنائے گئے ہندوئوں کو دھرم میں واپس لانا تھا۔ بیسویں صدی کے آغاز میںصدیوں کی غلامی میں بسر کرنے کے بعد ہندو بنیاد پرستی باقاعدہ تنظیم کی صورت اختیار کرگئی۔ یہ تنظیم مہا بھارت کا احیاء چاہتی تھی۔ سیکولر کانگرس کے سامنے مگرانتہا پسند آر ایس ایس کی دال نہ گل سکی۔دوسری طرف برِصغیر کی عظیم دینی درسگاہ کے بطن سے جہاں کئی تحریکوں نے جنم لیا تو وہیں بیسویں صدی کے وسط میں اقامتِ دین کی نئی تشریح اور ’پولیٹکل اسلام‘ کی اصطلاح سامنے آئی۔اسّی کی دہائی میں ہمارے ہاںاسی خاص فکر کوعالمی طاقتوںکی آشیر باد کے ساتھ فوجی حکومت کی سرپرستی میسر ہوئی تھی۔ ہمارے ملک کا توقیام ہی مذہب کے نام پر ہوا تھا۔ ہندوستان نے مگر کئی عشروں تک سیکولرازم اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا نقاب اوڑھے رکھا۔سال 2009 ء کے بعد یہ نقاب اتر چکا ہے۔آر ایس ایس کی کوکھ سے جنم لینے والی بی جے پی آج گاندھی کے بھارت کی سب سے بڑی اور مقبول جماعت ہے۔ مودی کی پشت پر بھارت کے ارب پتی خاندان کھڑے ہیں۔ بھارتی سینا کے جرنیل پروفیشنل سپاہیوں سے بڑھ کر بی جے پی کے ترجمان بن چکے ہیں۔ہندوستانی میڈیا جنونیوں کی مکمل گرفت میں ہے۔ کروڑوں بھارتی سوشل میڈیا پر مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف زہر اگلتے ہیں۔آج ہندوستانی درسگاہوں میں مسلمان عورتیں حجاب نہیں پہن سکتیں، مگر آر ایس ایس کے غنڈے زعفرانی چوغے پہنے دندناتے پھر سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی اگرچہ بہت کام ہونا باقی ہے، تاہم عشروں پر محیط قتل و غارت کے بعدپاکستانی معاشرے میں اب متشدد واقعات کے خلاف خاطر خواہ ردعمل آتا ہے۔مودی کے ہندوستان میںمگرسفاک رویوں کو سرکاری سرپرستی حاصل ہو چکی ہے۔ مودی کا ہندوستان بقول ارون دتی رائے Lynching Nation بن چکا ہے۔ برچھیوں، نیزوں اور تلواروں سے لیس جنونیوں کا ہجوم نہتے مسلمانوںپر چوک چوراہوں میںآئے روز حملہ آور ہوتا ہے ۔ اندوہناک مناظر پر مبنی ویڈیوز سرِ عام سوشل میڈیا پرزیرِ گردش رہتی ہیں۔درندوں کو قانون کی گرفت میں لانا تو دور کی بات ہے ،انتہا پسندحکمرانوں کے منہ سے مذمت کا ایک لفظ نہیں پھوٹتا۔ قدیم مذاہب کی حکمت ودانش صدیوں جس کی مٹی میں قطرہ قطرہ گندھتی رہی ہو، وہی سرزمین ایک بار پھر انتہا پسندی کی گرفت میں ہے۔اس بار اشوکا کے بدھ بھکشو نہیں، مغلوں کے ’جانشین‘ انتقام اور سفاکیت کا نشانہ ہیں۔