شبلی فراز ، عاصم باجوہ اور بشیر دیوانہ صادق آبادی کے عنوان کا مطلب مذکورہ شخصیات کا تقابلی جائزہ نہیں بلکہ یہ عرض کرنا ہے کہ گزشتہ روز جو واقعات ہوئے ان کے مطابق وزیر اعظم کی معاون خصوصی محترمہ فردوس عاشق اعوان کی چھٹی ہو گئی اور معروف شاعر احمد فراز کے صاحبزادے شبلی فراز وفاقی وزیر اطلاعات بنا دیئے گئے اور صادق آباد سے تعلق رکھنے والے جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کو وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات کا منصب ملا۔ جہاں خوشی وہاں غم، کے مصداق تیسری بات یہ ہوئی کہ صادق آباد سے تعلق رکھنے والے معروف سرائیکی شاعر و صحافی بشیر دیوانہ صادق آبادی فوت ہو گئے۔ بشیر دیوانہ دو سالوں سے علیل تھے، اپیلوں کے باوجود سرکاری خرچ پر علاج نہ ہو سکا اور نہ ہی ان کے کسی بیٹے کو ملازمت مل سکی۔ کچھ سال پہلے کی بات جنرل عاصم سلیم باجوہ کے بھائی ڈاکٹر طالوت سلیم باجوہ بلدیہ صادق آباد کے چیئرمین بنے تو بشیر دیوانہ نے سرائیکی اخبار جھوک میں ان کے بارے مضمون لکھا اور صادق آباد کی باجوہ فیملی کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ ان کا جماعت اسلامی سے پختہ تعلق ہے اپنی دھرتی اپنی مٹی اور اپنے وسیب سے محبت کرتے ہیں یقینا ان کے چیئرمین بننے سے صادق آباد شہر کو ترقی ملے گی، اب بشیر دیوانہ فوت ہو چکے ہیں ضروری ہے کہ باجوہ صاحب اور شبلی فراز صاحب ایک غریب شاعر کے بارے سوچیں اور لواحقین کی مالی مدد کے ساتھ ساتھ ان کے بیٹوں کو ملازمت بھی دیں گے بلا شبہ بشیر دیوانہ کی ملک و قوم کیلئے خدمات ہیں وہ غریب ضرور تھا مگر وفا شعار تھا، احمد فراز نے درست کہا ’’ڈھونڈ اُجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی‘‘ اسی بناء پر ہم امید کرتے ہیں کہ ایک غریب وفا شعار کو وفائوں کا صلہ، مرنے کے بعد سہی ملے گا ضرور۔ کچھ لوگوں کی پہچان اپنے علاقے کے حوالے سے ہوتی ہے مگر کچھ لوگ خود اپنے علاقے کیلئے پہچان کا درجہ رکھتے ہیں، ایسے ہی لوگوں میں ایک شخص کا نام بشیر دیوانہ ہے، وہ ادب اور صحافت کے شعبے سے وابستہ رہے۔ موصوف بہت اچھے لکھاری ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اچھے انسان بھی تھے، اپنے وطن وسیب کا بہت درد رکھتے تھے، سچی بات یہ ہے کہ بشیر دیوانہ صادق آبادی نے اپنی پوری زندگی غربت، بیروزگاری اور بیماری کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے گزار دی۔ یہ جدوجہد اس بناء پر بھی تھی کہ وہ ان تینوں مصائب کا خود شکار ہوئے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا ہم حکومت وقت سے بار بار اپیل کی کہ ان کا علاج سرکاری خرچ پر کرایا جائے مگر آج تک کسی نے کوئی توجہ نہیں دی، صادق آباد وڈیروں، مخدوموں اور چودھریوں کا شہر ہے، یہاں بڑے بڑے زمیندار، سرمایہ دار اور صنعتکار موجود ہیں، کوئی بھی اس طرف توجہ دینے کو تیار نہ ہوا، بیماری سے لڑتے لڑتے وہ زندگی کی بازی ہار گیا، آج کورونا کے خوف نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ پاکستان کی حکومت روزانہ کروڑوں اربوں خرچ کر رہی ہے، آج اگر اچھے ہسپتال ہوتے اور غریبوں کے علاج پر توجہ دی جاتی تو ہمیں اس قدر پریشان ہونے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ بشیر دیوانہ کا تعارف یہ ہے کہ 1965ء میں فقیر بخش ولیانی کے گھر پیدا ہوئے، مڈل تک تعلیم حاصل کی، 1980ء میں شاعری کا آغاز کیا، شاعری میں ان کے استاد مرحوم عبدالخالق مستانہ تھے، چھوٹی بڑی 12 کتابیں شائع ہوئیں جن میں سوچیں دا سفر، جشن میلاد، ماں دا پیار، چمکدے تارے، سوہنا ساوا روزہ، کسانیں دے گاون، شہادت بینظیر، میڈا عشق وی توں، سرائیکی ڈوہڑے، دعائے خورشید، بٹ کڑاک وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اُن کی بہت ساری کتابیں مرتب شدہ بھی ہیں۔ شاعری کے ساتھ ساتھ آپ صحافت سے بھی وابستہ رہے۔ اس موقع پر بشیر دیوانہ نے جو تقریر کی وہ نہایت اہمیت کی حامل ہے اُن کا کہنا تھا کہ میں بہت عرصہ سے علیل ہوں میں نے غربت اور تنگ دستی کے باوجود کسی کے سامنے ہاتھ نہیںپھیلایا ،ہمیشہ محنت اور مشقت سے کام لیااور ہوٹل پر بھی کام کیا۔ انہوں نے کہا علالت کے باوجو د میں اپنے شہر صادق آباد میں ایک دوا ساز کمپنی میں ملازمت کے لئے گیا تو میرا انٹرویو ہو گیا مگر کمپنی کے بڑے افسر نے مجھے یہ کہہ کر ملازمت دینے سے انکار کر دیا کہ تمہارا تعلق فلاں مسلک سے ہے حالانکہ میرا مسلک محبت ہے ۔ بشیر دیوانہ نے کہا کہ جب الیکشن آتا ہے تو رحیم یار خان کے مخدوم ،وڈیرے اور جاگیر دار مجھ سے ووٹ اور قلمی سپورٹ لیتے ہیں مگرآج وہ بھولے سے بھی مجھے یاد نہیں کرتے اور نہ پوچھتے ہیں کہ تم کس حال میں ہو ۔ بشیر دیوانہ نے کہا سرائیکی ہونا ہماراجرم ٹھہرایا گیا ہے مگر ہم پاکستانی توہیں کیا صوبہ مانگنا جرم ہے اگر یہ جرم ہے تو ہم کرتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنی اولاد اور وسیب کے ہر انسان کو یہ پیغام دیتا ہوں کہ وہ صوبہ بنوائے اس مقصد کے لئے اس میں ان کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے انہوں نے کہا صوبہ نہ بنوایا گیا تو پھر سب کی حالت ابتر ہو گی اور ہم مر رہے ہونگے ہمارے علاج کرانے والا بھی کوئی نہ ہوگا ۔ بشیر دیوانہ ایک درد مند انسان ہے ان کو وسیب میں ہونیوالی سماجی برائیوں کا احساس بھی ہے اور ادراک بھی، اصلاح معاشرہ کے حوالے سے ہمیشہ لکھتے رہتے۔ منشیات کے حوالے سے انہوں نے بہترین نظم لکھی جن کے چند اشعار یہ ہیں وطن دے بھراوو، زہر نہ کھاوو بچو آپ ، نسلاں نشے توں بچائو بشیر دیوانہ اپنی دھرتی اپنی مٹی اور وسیب سے محبت کرنے والا شاعر ہے، وہ اپنے وسیب، وسیب کی زبان و ثقافت کے بارے بھی بہت کچھ لکھتا ہے ،موصوف نے بچوں کے ادب پر بہت کام کیا، ایک وقت تو یہ بھی آیا کہ وہ کتابیں لیکر سکول چلا جاتا اور ہیڈ ماسٹر سے اجازت لیکر بچوں کو اصلاحی نظمیں پڑھ کر سنواتا، اس موقع پر بچوں کی نظموں پر مشتمل اُن کے پاس کتابیں بھی ہوتیں جو وہ بچوں کو فروخت کرتا۔ ایک لحاظ سے رزق حلال کیساتھ ساتھ وہ اصلاح معاشرہ کے بھی کام سر انجام دیتا۔ بشیر دیوانہ ایک روشن خیال شاعر اور دانشور، انہوں نے ہمیشہ طبقاتی جدوجہد کی اور جاگیردارنہ سماج میں رہتے ہوئے جاگیرداروں کے خلاف بغاوت کی، ان کی چند لائنیں دیکھئے اساں غیریں تے کیا ڈوہ ڈیووں ساکوں اپنے چاپڑ کپ ٹکرین