کوئی سیاسی دانشور کچھ بھی کہے ہم تو ان سب لوگوں کو ایک قوم سمجھتے ہیں جو دریائے سندھ کے کنارے بستے ہیں۔ برف کی وجہ سے سفید چوٹیوں والے چٹانوں سے لیکر گرم سمندر تک سارے لوگ ایک ہی کلچر کے دھاگے میں پروئے ہوئے ہیں۔ ویسے تو سندھ میں بھی یہ کہتے ہیں کہ بارہ کلومیٹر کے بعد زبانوں کا لہجہ بدل جاتا ہے ۔ مگر اہم بات یہ نہیں کہ کون کیسی زبان بولتا۔ اہم بات یہ زبان نہیں وہ مزاج ہے جس میں ثقافت کے سارے رنگ جھل مل کرتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ چترال سے لیکر روشنیوں سے چہچہاتے شہر کراچی تک ہم سب کا مزاج ایک ہے۔ اس مزاج میں بہت ساری باتیں مشترکہ ہیں۔ اس وقت میرا مقصد صرف ایک بات کی طرف توجہ دلانا ہے اور وہ بات ہے؛ میلہ! میں اس بات پر پختہ یقین رکھتا ہوں کہ وقت کے ساتھ ثقافت میں تبدیلی آتی ہے۔ کلچر کسی جامد حقیقت کا نام نہیں۔ یہ تو دریا کے پانی کی طرح ہوتا ہے۔ یہ بہتا رہتا ہے۔ اس کی روانی ہمیشہ جاری رہتی ہے۔ اس حوالے میں ہم ان سارے دانشوروں سے اتفاق کرتے ہیں جو ثقافت کو زندہ حقیقت سمجھتے ہیں مگر اس ضمن میں ہمیں یہ فلسطین کے عظیم دانشور ایڈورڈ سعید کی یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئیے کہ کلچر کے وہ پہلو بہت دیرپا ہوتے ہیں جن کی جڑیں ہمارے مزاج کی گہرائی میں موجود ہوتی ہیں۔ میلے ہمارے مزاج کا بہت اہم حصہ ہیں۔ آج بھی جب درویشوں کے مزاروں پر میلے لگتے ہیں تو لوگوں کا سیلاب امڈ آتا ہے۔ اس وقت تو سفر کی سہولیات اچھی ہیں مگر جب ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ہوتی تھیں تب بھی پورے پاکستان سے لوگ قلندر لال شہباز کے مزار پر اکٹھے ہوتے تھے اور دھمال ڈالتے تھے۔ حالانکہ قلندر شہباز کا عرس موسم گرما میں ہوتا ہے اور سیہون میں تو اس موسم میں ایسا لگتا ہے جیسے سورج دھرتی کے قریب آگیا ہو۔ مگر شدید ترین گرمی میں بھی عقیدت مند لال شہباز قلندر کے مزار پر حاضری دیتے ہیں۔درویشوں کے مزاروں پر حاضری دینے والی قوم کا رخ صرف سیہون کی طرف نہیں ہوتا۔ ان کے سماعتوں پر جس مزار پر بجتے ہوئے نقاروں کی آواز پڑتی ہے ان کے قدم اس طرف بڑھنے لگتے ہیں۔ جب لاہور میں داتا گنج بخش ؒکا عرس مبارک ہوتا ہے تو وہاں سارے عقیدت مند دعا ئیں مانگنے کے لیے آتے ہیں۔ صرف شاہ لطیف ؒاور سچل سرمستؒ کے درگاہوں پر لوگوں کے مستی والے مناظر نہیں ہوتے مگر بابا بلھے شاہ کی آخری آرام گاہ سے لیکر حضرت فرید شکرگنج ؒکے آنگن تک ہر جگہ عقیدت کے مناظر وہی ہیں۔ ہمیں تو کسی صوفی اور ولی اللہ کی درگاہ پر کسی سیاسی تضاد کا کوئی عکس نظر نہیں آیا۔ جس طرح سارے دریا سمندر میں اتر جاتے ہیں اس طرح سارے اختلافات ’’ہمہ اوست‘‘ کی مشکبو ہواؤں میں ختم ہوجاتے ہیں۔ نام نہاد ترقی پسند دانشور کہتے ہیں کہ درویشوں کے مزاروں پر میلے زراعتی دور کے کلچر کی نشانی ہے۔ وہ اس قسم کے تہواروں کا تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں جب فصلیں کاٹی جاتی ہیںاور دیہاتوں میں خوشحالی کا موسم آتا ہے تب درویشوں کے مزاروں پر چڑھاوے کی روایت نبھائی جاتی ہے۔ ان کا موقف یہ ہے کہ اس قسم کی سرگرمیاں زراعتی دور میں تو ہوتی ہیں مگر سرمایہ داری دور میں نہیں۔ کیوں کہ انسان کے خوف اور وہم کی جڑیں زرعی کلچر کی زمین میں پیوست ہوتی ہیں۔ جب زمانہ تبدیل ہوتا ہے تو انسان کا مزاج بھی بدل جاتا ہے۔ میں اپنے ترقی پسند دوستوں سے اس بات پر اختلاف رکھتا ہوں ۔ میرا موقف ہے کہ کچھ باتیں زرعی اور غیر زرعی سماجوں میں بانٹی جا سکتی ہیں مگر ہر بات کا ہم سائنسی تجزیہ نہیں کرسکتے۔ ہر بات کو خوردبین سے دیکھنا درست نہیں ہے۔ ان باتوں میں ایک بات ہمارے عوام کا مزاج بھی ہے۔ وہ مزاج وقت کی بہتی ہوئی لہروں سے متاثر ضرور ہوا ہے مگر اس میں ایک الگ قسم کی خوبی اور منفرد قسم کی خوشبو بھی ہے۔ ہمارا مزاج اگر ادوار کا قیدی ہوتا تو ہم وہ ہر ریت اور ہر رسم بھلا دیتے جو ماضی میں ہمارے مزاج کا حصہ تھی۔ہمارے مزاج میں میلوں پر جانا اور وہاں مسرت میں آکر ناچنا اور گانا شامل ہے۔ اس لیے پنجابی زبان میں یہ الفاظ کبھی کثرت سے بولے جاتے تھے کہ ’’شوقن میلے دے‘‘ مگر اب وقت نے ہماری زباں پر ضرب ضرور لگائی ہے لیکن ہمارا مزاج آج بھی وقت کی گردش سے آزاد ہے۔ اگر ہمارے مزاج میں میلوں سے محبت نہ ہوتی تو پھر میلے دیہاتوں تک محدود رہتے ۔ مگر جب بھی موسم انگڑائی لیتا ہے تب نہ صرف ان پڑھ افراد بلکہ لکھے پڑھے بابو ٹائپ لوگوں کے وجود میں میلے دیکھنے کی حسرت جاگ اٹھتی ہے۔ وہ اپنی مرضی کے میلے منعقد کرتے ہیں۔ ہم سب اندر سے اس کلچر کے دھاگے میں پروئے ہوئے پھول ہیں۔ سیاستدانوں نے ہمارے درمیاں اجنبیت اور تعصب کی دیواریں ضرور تعمیر کی ہیں مگر جب بھی ہم میلے میں جاتے ہیں تب میلے کا ماحول ہمارے دل پر جمی ہوئی نفرت کی میل کو رگڑ کر ختم کردیتا ہے۔ جب بابا بلھے شاہ کی کافی گونجتی ہے تب پنجابیوں کے ساتھ سندھی بھی رقص کرتے نظر آتے ہیں۔ ہم سب میلوں میں ملتے ہیں تو ہمیں اندر سے اپنائیت کی آواز آتی ہے۔ ا س لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ ہم کسی صوفی بزرگ کے مزار پر منعقد ہونے والے میلے میں جائیں۔ جب لاہور میں ’’فیض میلہ‘‘ کا اہتمام ہوتا ہے تب اس میں بھی وہی رنگ اور وہی خوشبو ہوتی ہے جو ہماری ثقافت کی پہچان ہے۔ فیض صاحب کے بارے میں ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے سیاسی اور نظریاتی تصورات کیسے تھے مگر جب وہ محبت کی بات کرتے ہیں تب کمیونزم اور اینٹی کمیونزم کی بحث ختم ہوجاتی ہے۔ محبت کے دھاگے میں ہم سب بندھے ہوتے ہیں۔ ہم جو جانتے ہیں کہ محبت کا دھاگہ بہت کچا ہوتا ہے۔فیض صاحب کی شاعری میں عالمی حالات کا عکس بھی ہے مگر فیض صرف اشتراکی شخص نہیں تھا۔ اس کو اپنی مٹی ؛ اپنی ثقافت اور اپنی زباں سے اگر محبت نہ ہوتی تو وہ ’’پنجابی نظماں‘‘ کیوں لکھتے؟ وہ کیوں لکھتے: ’’لمی رات سی درد فراق والی تیرے قول تے اساں وساہ کرکے کوڑا گھٹ کتی مٹھڑے یار میرے مٹھڑے یار میرے جانی یار میرے تیرے قول تے اساں وساہ کرکے جھانجراں وانگ ؛ زنجیراں چھنکائیاں نی‘‘ کیا اس درد کی صدا میں کسی فکر اور فلسفے کا کوئی متضاد پہلو موجود ہے؟ جس طرح پنجاب کے ترقی پسند ’’فیض میلہ‘‘ کا اہتمام کرتے ہیں اس طرح سندھ کے جدت پسند ’’ایاز میلہ‘‘ کا بندوبست کرتے ہیں۔ اس میلے میں صرف لیکچر نہیں ہوتے۔ اس میلے میں محبت کی باتیں ہوتی ہیں۔ اس میلے میں محبت کے نغمے گائے اور سنے جاتے ہیں۔ ہم کتنے بھی دور نکل جائیں مگر ہماری مٹی ہمارے وجود کے اندر ہمارے مزاج کو اپنی مٹھی میں جکڑ کر رکھتی ہے۔ ہم دیہاتوں سے نکل کر شہروں میں تو آئے ہیں مگر ہم وہ ’’میلہ کلچر‘‘ اپنے ساتھ لائے ہیں جو میلہ ہمیں موقع دیتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کو گلے لگائیں اور محبت پر لگ جانے والا زمانے کا زنگ ہٹائیں۔ ہم وہ قوم ہیں جو اپنے صدیوں پرانے کلچر سے جڑی ہوئی ہے۔وقت گذر رہا ہے‘ حالات تبدیل ہو رہے ہیں‘ مگر ہم آج بھی بحیثیت قوم میلوں کے شوق کو دل میں سجا کررکھتے ہیں۔