امریکی صدر جو بائیڈن کا 19 منٹ کا خطاب ایک نوحہ تھا جو امریکی حکمت عملی اور قسمت پر لکھا گیا ہو۔ خطاب کرتے ہوئے جو بائیڈن کے چہرے پر شکست اور پریشانی کے آثار نمایاں تھے۔چہرے پر لکھا تھا کہ کاش انہیں یہ تقریر نہ کرنی پڑی ہوتی۔ وہ اپنی صفایاں پیش کرتے ہوئے امریکی عوام کو تسلی دیتے رہے ۔ تسلیم کرتے رہے کہ یہ فیصلہ وہ نا چاہتے ہوئے مجبوری کی حالت میں کر رہے ہیں ۔ صاف نظر آتا تھا انہیں یہ فیصلہ امریکی مستقبل کے لیے صحیح ہونے کا یقین نہیں ہے ۔ ہارے ہوئے کم ظرف کی طرح وہ اپنی شکست کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالتے نظر آئے ۔بار بار کہتے رہے کہ وہ یہ فیصلہ امریکی عوام کے مفاد میں کر رہے ہیں مگر ان کی باڈی لینگوئج ان کے الفاظ سے مماثلت نہ رکھتی تھی۔ امریکی صدر جو بائیڈن کی تقریر تضادات کا مجموعہ تھی جو بات انہوں نے ابتداء میں کہی چند منٹ کے بعد اسی کی تردید کرتے دکھائی دیے ۔ شروع میں انہوںنے کہا کہ جب 20 سال پہلے ہم افغانستان گئے تو ہمارے اہداف واضح تھے اور وہ تھے القاعدہ اور اسامہ بن لادن کا خاتمہ۔ ہم نے یہ حاصل کر لیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا مشن افغانستان میں نیشن بلڈنگ اور پائیدار جمہوریت کا قیام تو تھا ہی نہیں، ہم تو کائونٹر ٹیرازم کے لیے گئے تھے۔ سوال یہ ہے کہ اگر امریکہ نے دس سال پہلے اسامہ بن لادن کو مار کے اپنے اہداف حاصل کر لیے تھے تو دس سال سے وہ وہاں کیا جھک مار رہے تھے؟اور اسامہ بن لادن کے خاتمے کے دس سال بعد تک افغانستان میں کون سے اہداف حاصل کیے گئے ۔مزید یہ کہ اسامہ بن لادن تو دنیا سے جا چکا اب انخلاء کے وقت اتنی بے چینی اور پریشانی کیوں ہے؟اور اگر امریکہ افغانستان میں اپنے اہداف حاصل کرکے دہشت گردی کا خاتمہ کر چکا تو اب تک وہاں امریکیوں کی جانیں کو ن لے رہا تھا،جنگ کس سے جاری تھی اور امریکی صدر نے کیوں کہا کہ میں مزید امریکی بیٹوں اور بیٹیوں کو وہاں جانیں قربان کرنے نہیں بھیج سکتا۔ لہذا امریکی صدر کے بیانات اور اقدامات میں واضح تضاد دکھائی دیتاہے۔ جو بائیڈن نے موجودہ صورتحال کا ملبہ ڈونلڈ ٹرمپ پر ڈالنے کی کوشش بھی کی اور کہا کہ امریکی انخلاء کا منصوبہ تو ٹرمپ نے بنایا، میرے پاس دو راستے تھے میں یہ ڈیل مکمل کرتا یا پھر امریکیوں کو اگلے بیس سال تک افغانستان میں مرنے کے لیے چھوڑ دیتا۔انہوں نے یہ بھی کہا چاہے ہم پانچ سال پہلے نکلتے یا پندرہ سال بعد، نتیجہ یہی ہوتا۔ گویا بائیڈن نے تسلیم کیا کہ وہ طالبان کے ساتھ جنگ جیت ہی نہیں سکتے تھے اور اپنے عمل سے یہ بھی تسلیم کیا کہ ٹرمپ کا فیصلہ درست تھا۔ جو بائیڈن نے اپنی شکست کا ملبہ افغان حکومت اور افغان فورسز پر ڈالنے کی بھی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ انہیں بالکل یقین نہیں تھا کہ افغان قیادت اتنی جلدی ہتھیار ڈال دے گی اور ملک چھوڑ کر بھاگ جائے گی۔ انہوں نے کہا ہم نے نیٹو فورسز سے زیادہ بڑی فورس افغانستان میں تیار کی انہیں تربیت دی اور جدید ہتھیار فراہم کیے اور اس کام پر ان کے ٹریلین آف ڈالرز خرچ ہوئے مگر یہ فورس ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔انہوں نے کہا ہم ایک ایسی جنگ تو لڑ ہی نہیں سکتے جو افغان فورسز خود نہیں لڑنا چاہتیں۔ گویا اس میدان میں بھی بائیڈن نے اپنی شکست تسلیم کر لی۔ چین اور روس کا ذکر امریکی صدرنے نہایت کم ظرفی کے ساتھ کیا۔ انہوں نے عوام کو یہ کہہ کر تسلی دینے کی کوشش کی کہ چین اور روس کی تو خواہش ہو گی کہ ہم اگلے بیس سا ل تک اپنا پیسہ افغانستان میں بہاکر ضائع کرتے رہیں اور اس سے انہیں فائدہ ہو لیکن ہم ایسا نہیں کر رہے ۔ گویا جو بائیڈن نے تسلی دی کہ وہ افغانستان سے نکل کر چین اور روس کے مفادات کو نقصان پہنچا رہے ہیں حالانکہ حقائق اس کے برعکس ہیں ۔ اپنی تقریر کے دوران جو بائیڈن نے ایک اور کم ظرفی دکھائی ۔ انہوں نے امریکیوں کے محفوظ انخلاء کو یقینی بنانے کی پاکستانی کوششوں کاشکریہ تو درکنار ذکر تک نہ کیا۔ انہوںنے یہ تک نہ کہا کہ ہم شاید اگلے دس سال تک محفوظ طریقے سے نکل نہ پاتے اگر پاکستان امن عمل کا حصہ نہ بنتا۔ امریکہ نے یہ تو نہ کہا لیکن کچھ بعید نہیں کہ کسی وقت اپنی شکست کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال دے۔ امریکہ جیسے کم ظرف سے کچھ بھی غیر متوقع نہیں۔ ہتھیار ڈالنے کے بعد کی گئی اپنی تقریر میں جو بائیڈن نے کہا کہ افغانستان میں جنگ کو لیڈ کرنے والا میں چوتھا صدر ہوں ، میں بھی اگر جنگ جاری رکھوں تو یہ جنگ پانچویں صدر کو منتقل ہو جائے گی اور ایسا کب تک چلتا رہے گا،اگر ایسا بیس سال بھی چلے تو نتائج یہی ہوں گے ۔ انہوں نے کہا میں اپنی قوم سے جھوٹ بول کے جنگ جاری رکھنا نہیں چاہتا۔ یعنی ایک ایسی جنگ جسے امریکہ جیت ہی نہیں رہا اسے جھوٹ بول کر جاری کیوں رکھا جائے ۔ انہوں نے کہا مجھے یقین ہے میرے فیصلے پربہت تنقید ہو گی لیکن یقین کیجئے یہ ہم سب کے مفاد میں ہے ۔ اپنی انیس منٹ کی تقریر کے آخر میں جو بائیڈن نے ایک ہلکی پھلکی سی دھمکی دے کر دل کو تسلی بھی دی ۔ انہوں نے کہا اگر انخلاء کے دوران ہم پر حملہ کیا گیا تو اس کا سخت ردعمل ظاہر کیا جائے گا۔ یہ ایسا ہی ہے کہ زمین پر لیٹا کوئی شخص مار کھا رہا ہو اور صلح نامہ کے بعد جاتے جاتے کہنے لگے کہ اب مجھے مارا تو بہت بُرا پیش آئوں گا۔ خیر یہ کہتے ہوئے امریکی صدر کی شکل دیکھنے والی تھی۔ ٭٭٭٭