کیا بھارتی آرمی چیف جنرل بپین راوت کو ان کے کسی بزرگ نے نہیں بتایا کہ پاکستان کیوں اور کیسے بنا تھا؟کیا مطالعہ پاکستان کی طرزپہ مطالعہ بھارت کا کوئی مضمون جنرل راوت کے دیس میں نہیں پڑھایا جاتا ؟کیا سول بالادستی کے چیمپئن اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعوے دار بھارت میں کسی نے اٹھ کر انہیں خبردار کرنے کی زحمت نہیں کی کہ شریمان جی آپ اپنی سیما پار کررہے ہیںذرا دھیرج رکھئے۔پاکستان میں فوج کے خلاف روزانہ کی بنیاد پہ صفحات کالے کرنے اور زہر اگلنے والے دانشوروں کی نظر سے، جنہیں سیکولر بھارت کی ہر ادا اس لئے بھاتی ہے کہ وہاں فوج سیاسی معاملات میں دخل نہیں دیتی، کیا جنرل صاحب کا یہ بیان نہیں گزرا جس میں انہوں نے پاکستان کو نہ صرف سیکولر ریاست بننے کا مشورہ دیا بلکہ پاکستان سے دوستی کی شرط ہی یہی بیان کی۔کیا یہ بیان ان کے اختیارات سے متجاوز نہیں تھا یا سول بالادستی کی دم پہ بوٹ رکھے۔ جنرل پبین راوت کا یہ مشورہ خود بھارت نواز دانشوروں کے دل کی آواز تھا اس لئے مزا ہی آگیا۔کیا ہی اچھا ہو اگرجنرل صاحب کے مشورے پہ اس طرف کے جنرل بھی کان دھریں اور امن کی سیکولر فاختہ منہ میں زیتون کی شاخ دبائے بے خوف وخطر امن کی آشا کا نغمہ الاپتی سری نگر کے جلتے چناروں سے لاہور کے مرغزاروں تک اڑتی پھرے لیکن کیا کیجئے چنار تو سلگ رہے ہیں اور سیکولر بھارت کو کرتار پور راہداری چونڈہ کا محاذ دکھائی دے رہی ہے۔ اب مشورہ ایک جنرل کا تھا تو جواب بھی جنرل کو ہی زیب تھا۔سو جنرل آصف غفور بجا طور پہ بولے کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور بھارت پہلے خود سیکولر ہولے،پھر بات کرے۔بات لیکن کیا کرنی ہے؟پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور رہے گا خواہ ایسا آئین پاکستان میں بھی نہ لکھا ہو۔ جمہوریہ بھارت اپنے آئین کی بنیاد میں اسی طرح سیکولر ہے جس طرح پاکستان اپنی بنیاد میں اسلامی ریاست ہے۔ بھارتی آئین کی بیالیسویں ترمیم اسے سیکولر ریاست بناتی ہے۔ حیرت انگیز طور پہ اس سیکولر ازم کی بنیاد بھی اسی طرح تاریخ میں ہے جس طرح پاکستان کی بنیاد اسلام میں ہے۔ بھارتی سیکولر آئین کی جڑیں اشوک اعظم کے اس فرمان سے پھوٹتی ہیں جو ہزاروں سال قبل ان پتھروں پہ کندہ تھے جو EDICT OF ASHOKA کہلاتے ہیں ۔ان ہی میں سے ایک ایڈکٹ آف اشوکا دوازدہم میں رقم ہے : کسی مذہب کو دوسرے مذہب پہ بغیر کسی معقول جواز کے نہ ہی پہ فوقیت حاصل ہے نہ ہی اسے تنقید کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے ۔ایسا سمجھا جاتا ہے کہ اشوک اعظم نے ہی مہان بھارت کو سیکولر بھارت بنایا تھا جس میں کسی شخص کو مذہبی امتیاز یا اس بنیاد پہ تخصیص کا نشانہ نہیںبنایا جاسکتا تھا ۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہندوستان میں اسلام کی آمد کے بعد یا مغلوں کی حکومت کے دوران بھی اس سیکولر تشخص کو کوئی نقصان نہ پہنچا بلکہ مغل جومسلمان تھے اپنے دور حکومت میں ہندووں کو اہم ترین عہدوں پہ فائز کرتے رہے۔ہندوئوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل رہی۔یہ ایک مسلمان حکمران اکبر اعظم کا ہی حوصلہ تھا کہ وہ مسلمانوں کی اکثریتی آبادی کی موجودگی میں دین الٰہی ایجاد کرے اور مختلف مذ اہب کا کاک ٹیل بنا کر جام لنڈھاتا رہے۔ یہ جرات کسی ہندو یا سکھ حکمران کے بس کی بات نہیں تھی۔ اگر مغل حکمران مسلمان ہونے کے باوجود مذہبی آزادی کی تعظیم نہ کرتے تو انہیں ہندووں کی نسل کشی سے کوئی روک سکتا نہ ہی متعصب جدید ہندو تاریخ نگار اورنگ زیب عالمگیر کا تذکرہ اس تخصیص زدہ نفرت کے ساتھ کرتے جو انہوں نے کسی دوسرے مسلمان حکمران کے لئے نہیں کیا کیونکہ اگر وہ بنیاد پرست مسلمان حکمران تھا اور ہندوئوں کے ساتھ تعصب رکھتا تھا جو کہ تاریخی طور پہ درست نہیں تو یہ ایک معمول کی بات ہوتی۔ عجیب بات ہے کہ اورنگزیب عالمگیر کی مذہبی شدت پسندی کے مقابلے میں کسی ہندو اشوک اعظم کو نہیں دارا شکوہ کو پیش کیا جاتا ہے جو سیکولروں کا ہیروہے صرف اس لئے کہ وہ کسی مذہب پہ یقین نہیں رکھتا تھا لیکن پیدا مسلمان ہی ہوا تھا۔یہ وہ مخصوص سیکولر ذہنیت ہے جو اسلام کے مقابلے میں کفر و الحاد کو نہیں بلکہ خود اسلام کا ایسا ورژن پیش کرتی ہے جو اسلام نہیں ہوتا ۔طب یونانی کے کسی معروف ادارے کے مشہور جوشاندے کی طرح جو مصروف اور ماڈرن لوگوں کے لئے ساشے میں بھی دستیاب ہو۔حسب ضرورت کھولو،گھولو اور پی جاو۔نہ تلخی نہ جھنجھٹ۔ بہرطورمجھے جنرل پیبن راوت کا شکریہ ادا کرنا ہے جنہوں نے میرا ایک بڑا مغالطہ دور کیا۔ میرا خیال تھا کہ مسئلہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان سب سے بڑی وجہ تنازع ہے۔ میرا خیال یہ بھی تھا کہ پانی کی درست تقسیم نہیں ہوئی اور بھارت ہر بار ہمارا پانی روک کر ہمیں بھوکا پیاسا مارنے کا حربہ آزماتا ہے اس لئے یہ ایک بڑی وجہ فساد ہوسکتی ہے۔ مجھے یہ بھی لگتا تھا کہ شاید بھارت کے خیال میں ہم اس کی سرحدوں میں دراندازی کرتے ہونگے، ممبئی حملوں میں ہمارا ہاتھ ہوگا یا ورکنگ باونڈری پہ ہم ہی اشتعال انگیزی پھیلاتے ہونگے اس لئے ہم سے دوستی ممکن نہیں۔ میں نے یہ بھی سوچ رکھا تھا کہ شاید ہم سکھوں کو اکسارہے ہیں اور خالصتان تحریک میں ہم نے کچھ ہاتھ بٹا رکھا ہے تو یہ وجہ فساد ہے گو بعد میں ہم نے کچھ فہرستیں وغیرہ دے رکھی ہوں اور ان کا پارلیمنٹ میں اعتراف بھی کیا ہو، اس لئے بھارت ہم سے کچھ ناراض ہو۔لیکن بھلا ہو جنرل پبین راوت کا کہ انہوں نے فساد کی اصل جڑ کی نشاندہی کردی اور بتایا کہ باقی سب تو فروعی معاملات ہیں جن میں اچھے ہندو نہیں الجھتے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ ہم اسلامی ملک ہیں۔ اب ہم ہندو تو کسی صورت نہیں ہوسکتے لیکن سیکولر ہونا تو ہمارے اختیار میں ہے تو کیوں نا ہم سیکولر ہوجائیں تو بھارت ہمیں دوستی کا شرف بخشے۔اب کوئی جنرل راوت کو یہ کیوں بتائے کہ ان کے سیکولر بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ کیا سلوک ہورہا ہے۔ اگر بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ بہترین سلوک بھی ہوتا اور بھارت صحیح معنوں میں سیکولر ملک بھی بن جاتا تو کیا تب ہم سیکولر ہوسکتے تھے؟کیا اتنے ہی سیکولر جتنا بھارت ہو گیا ہے جہاں حال ہی میں ہم جنس پرست شادیوں کو قانونی تحفظ حاصل ہوا ہے کیونکہ اکثریت ایسا ہی چاہتی تھی؟کیا جنرل راوت ہندو ہوتے ہوئے سیکولر ہوسکتے ہیں جہاںمذہبی طور پہ ہندو کو مسلم پہ ہی نہیں بلکہ برہمن کو باقی ہر ذات پہ الوہی فوقیت حاصل ہے۔کیا انہوں نے ڈاکٹر Roland Chia کامقالہ سیکولرازم کی غیرجانبداری کا مغالطہ پڑھ رکھا ہے جس میں وہ ثابت کرتے ہیں کہ سیکولرازم ایک اور طرح کے جارحانہ مذہب کے سوا کچھ نہیں جس کی بنیاد مذہبی مساوات نہیں مذہب کی معدومیت ہے؟ یقینا نہیں۔تو کیا اچھا نہ ہوگا کہ وہ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں پہ حملہ آور نہ ہوکر اپناکام زمینی سرحدوں تک محدود رکھیں؟