جماعت اسلامی کی تاریخی شکست کے حوالے سے میرے ترکش میں تلخ اور تلخ تر سوالوں کے جتنے تیر تھے وہ میں نے ایک ایک کر کے امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق پر آزمائے مگر منصورہ میں سوا گھنٹے کی ون ٹو ون ملاقات میں آخری لمحے تک وہ خندہ پیشانی سے ہر سوال کا جواب دیتے رہے۔ مختصر تمہید کے بعد میرا پہلا سوال تھا کہ آپ کو شاید پہلی بار اپنے گھر میں شکست ہوئی۔ کیا سونامی دیر بالا تک پہنچ گیا تھا؟ سینیٹر سراج الحق لمحے بھر کو سنبھلے اور پھر گویا ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب! سونامی تو وہاں تک نہیں پہنچا مگر بالائی مخلوق وہاں ضرور پہنچی تھی۔ انتخاب سے پہلے ہمیں کہیں سے خبر ملی تھی کہ مالا کنڈ ڈویژن کی قومی اسمبلی کی دس میں سے آٹھ سیٹیں ایک مخصوص جماعت کو ملیں گی آپ کے حصے میں دو سیٹیں آ سکتی ہیں بعد کی تقسیم کے مطابق ہمیں دو نہیں صرف چترال کی ایک سیٹ پر کامیابی حاصل ہوئی۔ دیر میں جماعت اسلامی کا وسیع تر کام ہے ہمارے بہت سے کونسلرز‘ تحصیل اور ضلع ناظمین ہیں تعلیمی میدان میں ہمارا وسیع تر نیٹ ورک ہے اور ہمیں بڑی نمایاں عوامی پذیرائی حاصل تھی پھر ہماری شکست کا کوئی جواز نہ تھا۔میں نے بلاتاخیر دوسرا اہم سوال داغ دیا جو آج کل جماعت اسلامی کے ہر حامی کی زبان پر ہے کہ جماعت کرپشن کے خلاف تحریک انصاف کی ہم قدم اور ہم آواز تھی اور جماعت نے پانچ برس تک خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی کی مخلوط حکومت میں ایک متحرک پارٹنر کی حیثیت سے کام بھی کیا اور کچھ اہم وزارتوں میں اپنا سکہ بھی منوایا اس پس منظر کے باوجود جماعت نے تحریک انصاف سے انتخابی اتحاد کیوں نہ کیا؟میں نے یہ بھی پوچھا کہ ملک کے اندر اور سمندر پار جماعتی حلقوں میں یہ خبر گردش کر رہی ہے کہ تحریک انصاف نے جماعت اسلامی کو قومی و صوبائی کل ملا کر 20سیٹوں کی آفر کی تھی مگر جماعت ھل من مزید کا تقاضا کرتی رہی اس خبر یا افواہ میں کتنی صداقت ہے؟ جناب سراج الحق نے اس کی بھر پور تردید کی اور کہا کہ یہ خبر سراسر جھوٹ ہے۔ اس میں کوئی سچائی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے سرے سے ہمیں سیٹوں کی کوئی پیشکش ہی نہیں کی تھی۔ پی ٹی آئی اور جماعت کے کچھ خیر خواہ دونوں جماعتوں کے انتخابی اتحاد کے حامی ضرور تھے مگر تحریک انصاف کی قیادت کی طرف سے ایسی کسی خواہش کا باضابطہ اظہار نہیں کیا گیا۔ تھوڑی دیر میں چائے آ گئی۔ جناب سراج الحق نے میرے سوالوں کی حدّت کو اپنے لہجے کی حلاوت سے کم کرتے ہوئے کہا! ڈاکٹر صاحب ہم نے اقبال کا کہا مانا اور خود کو بلند کرتے رہے میں چونکا تو سراج الحق صاحب مسکراتے ہوئے کہنے لگے۔ آپ نے بھی تو اپنے کالموں اور تجزیوں میں جماعت اسلامی کو ایم ایم اے کی تجدید کا مشورہ دیا تھا۔ میں نے عرض کیا کہ میں اعتراف کرتا ہوں کہ ایسا ہی تھا۔ مگر یہ مشورہ دیتے ہوئے میرے سامنے متحدہ مجلس عمل کی 2002ء کی اسمبلیوں میں سامنے آنے والی کارکردگی تھی اب 2018ء میں متحدہ مجلس عمل وہ پہلے والی کارکردگی کیوں نہ دکھا سکی؟ سینیٹر سراج الحق نے کہا اس کی کئی وجوہات تھیں۔ سب سے پہلی وجہ تو یہ تھی کہ 2002ء میں پاکستانی ووٹروں نے امریکہ کے افغانستان پر شدید حملوں کے ردّعمل کے طور پر ایم ایم اے کو ووٹ دیے۔ دوسرے اس وقت متحدہ مجلس عمل کی قیادت نے سارے ملک میں بھر پور انتخابی مہم چلائی تھی۔تیسرے جنرل پرویز مشرف کی امریکہ نواز پالیسیوں کے ردعمل کے طور پر بھی لوگوں نے ہمیں ووٹ دیے۔ اس وقت مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم کی قیادت میں بریلوی ووٹ یکجا اور ایم ایم اے کے لیے یکسو تھا۔ اسی طرح اہل حدیث اور شیعہ ووٹرز بھی متحدہ مجلس عمل کے لیے پرجوش تھے اور تقسیم در تقسیم کا شکار نہ تھے جبکہ اس بار یہ ووٹ کئی طرح کی جماعتوں اور گروہوں میں تقسیم ہو چکے تھے۔ اس مرحلے پر ایک ثانوی نیچرل سا سوال میرے لبوں تک آ پہنچا میں نے سوال کے مناسب الفاظ کا پیرہن منتخب کرنے میں چند لمحے صرف کئے اور پھر سینیٹر سراج الحق سے پوچھ لیا۔ جناب ایم ایم اے کے اندر بھی جماعت اسلامی کی کارکردگی مایوس کن رہی۔ اس کا کیا سبب تھا۔ امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام کا ووٹر مسلکی ہے وہ اپنے مسلک سے ادھر ادھر نہیں جاتا جبکہ جماعت اسلامی کا ووٹر نظریاتی ہے۔ یہ ووٹر ماضی میں بھی دوسری جماعتوں کے ساتھ اتحاد میں انہیں ووٹ دیتا رہا ہے۔ میں نے سوالوں کا رخ ماضی سے مستقبل کی طرف موڑتے ہوئے پوچھا کہ آپ صدارتی انتخاب میں متحدہ اپوزیشن کے امیدوار کو ووٹ دیں گے یا پھر تحریک انصاف کے امیدوار عارف علوی کو۔ سراج الحق صاحب کا جواب واضح اور دو ٹوک تھا۔اگر متحدہ اپوزیشن نے ایم ایم اے سے تعلق رکھنے والے کسی امیدوار پر اتفاق کر لیا تو پھر ہم اسے ووٹ دینے کے پابند ہوں گے البتہ اگر اس کا تعلق کسی اور سیاسی جماعت سے ہوا تو پھر ہم امیدواروں کا جائزہ لے کر آزادانہ فیصلہ کریں گے۔ عرض کیا کہ تحریک انصاف اسی ریاست مدینہ کو اپنا ہدف قرار دے رہی ہے جو جماعت اسلامی کی روز اول سے منزل رہی ہے۔ کیا آپ تحریک انصاف کی حمایت کریں گے یا اس کی مخالفت کریں گے؟ امیر جماعت کا جواب تھا کہ ہم ہر اچھے کام کی تائید کریں گے اور ہر غلط پر تنقید کریں گے۔ 26اگست 1941ء کا یوم تاسیس تھا۔ آج جماعت اسلامی کے قیام کو 77برس ہو چکے ہیں عین 26اگست کو منصورہ میں امیر جماعت اسلامی کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں ایک بہت ہی نازک سوال نوک زباں پر آ گیا۔ حضرت بلھے شاہ یاد آ گئے۔ ع منہ آئی گل نہ رھندی اے عرض کیا 1970ء سے لے کر آج 2018ء تک جماعت اسلامی کو کوئی فیصلہ کن انتخابی کامیابی کیوں حاصل نہیں ہوئی، کیا جماعت اسلامی کا جمہوری فلسفۂ انقلاب غلط ہے؟ جناب سراج الحق کے اندر چھپا ہوئے کرب اور درد ان کے چہرے سے عیاں تھا۔ کہنے لگے ڈاکٹر صاحب ! یہی سوال 1970ء کے انتخاب کے فوراً بعد دیر سے منتخب ہونے والے صوبائی اسمبلی کے رکن ڈاکٹر محمد یعقوب نے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی 5۔اے ذیلدار پارک کی عصری مجلس میں ان سے پوچھا کہ مولانا ! کیا ہم حق پر نہیں؟ مولانا نے فرمایا کیوں کیا ہوا؟ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ لوگوں نے ہمیں ووٹ کیوں نہیں دیے۔ مولانا اپنے ایک سچے کارکن اور لیڈر کی بات پر تا دیر مسکراتے رہے اور پھر فرمایا کہ بلا شبہ ہم حق پر ہیں اور ہمارا کام لوگوں تک دعوت حق پہنچانا ہے۔ وما علینا الاالبلاغ۔ آگے نتیجہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ 1970ء کے انتخاب سے قبل مغربی پاکستان میں اسلام اور کمیونزم ‘ سوشلزم کی نظریاتی آویزش میں لوگوں نے جماعت اسلامی کی کال پر لبیک کہا۔ شوکت اسلام کے جلوسوں میں عوامی سیلاب کو دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ اب لوگوں نے جماعت اسلامی کو منتخب کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ مگر جماعت کو صرف 4سیٹیں ملیں۔ اگرچہ ان 4ارکان نے اس اسمبلی میں تاریخی کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر نذیر احمد شہید نے راہ حق میں جام شہادت بھی نوش کیا۔ اس زمانے میں پرجوش نوجوان مولانا مودودی سے بار بار پوچھتے کہ کیا انتخاب کے علاوہ بھی اسلامی انقلاب کا کوئی راستہ ہے۔ مولانا کا دو ٹوک جواب ہوتا تھا نہیں نہیں صرف اور صرف انتخاب۔ جامع مسجد منصورہ کے میناروں سے اذان مغرب کی ملکوتی صدا بلند ہو رہی تھی۔ اس مقدس لمحے کو گواہ بناتے ہوئے میرا آخری سوال تھا کہ اب مستقبل کے لیے آپ کی منصوبہ بندی کیا ہے؟ امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ ہم نے دو کمیٹیاں بنا دی ہیں۔ ایک کمیٹی دعوتی و تنظیمی کام کا جائزہ لے گی اور اندرون ملک اور بیرون ملک سے آنے والی ہزاروں تجاویز کا بغور مطالعہ کرے گی اور جماعت کے حامیوں سے مزید رابطہ قائم کرے گی۔ دوسری کمیٹی تھنک ٹینک کی تشکیل کے لیے بنائی گئی ہے۔یہ کمیٹی جماعت کے اندر اور باہر سے مختلف شعبوں کے ماہرین پر مشتمل تھنک ٹینک بنائے گی جو اہم ملکی امور پر نہ صرف جماعت بلکہ ملک و قوم کی رہنمائی بھی کرے گا۔امیر جماعت اسلامی نے بڑے ولولہ انگیز لہجے میں کہا اب ہمارا واضح دو نکاتی پروگرام ہے۔ جماعت کی دعوت کو ایک نئے عزم اور ولولے کے ساتھ پاکستان کے ہر گلی کوچے تک پہنچائیں گے۔ میں خود ایک ایک ضلعے کا دورہ کروں گا اور ہم آئندہ بلدیاتی الیکشن بھر پور کامیابی کے لیے اپنے بل بوتے پر لڑیں گے۔