بنی یاس قبیلہ1833ء میں 800 افراد کے ساتھ مکتوم خاندان کی سربراہی میں خلیج کے دہانے پر آ کر آباد ہوا۔ایک چٹیل میدان،پینے کا پانی میسر نہ آب وہوا ساز گار۔آگ برساتا سورج،گرم لُو،تپتی زمین۔ساحل سمندر اور صحرا میں اونٹوں اور بکریوں پر ہی گزروبسر۔فرمانِ رسول ؐہے:مَن جَدَّوَجَدَ۔ جس نے محنت کی اس نے پھل پایا۔مکتوم خاندان نے جہد مسلسل سے جنگل میں منگل کا سماں پیدا کیا ۔ آج دنیا امارات کی ترقی کو دیکھ کر ششدر رہ جاتی ہے۔ علامہ مشرقی نے فرمایا تھا:دنیا کی کسی بھی قوم کا عروج، فرد ِواحد کے ذریعے ہوا ۔اکیلا آدمی اپنی سوچ کا پابندہوتا ہے،نتائج کا انتظار اسے مضطرب رکھتا ہے۔اس کا ہر عمل،منزل کی طرف ایک قدم ۔ترقی کا راز جہد مسلسل اور تکرارِ عمل میں پوشیدہ ہے۔ شیخ زید بن سلطان النہیان اور شیخ رشید بن سعید المکتوم نے 1940 میںعرب امارات کو ایک فیڈریشن بنانے کا خواب دیکھا تھا۔ 1970 میں جب دوبئی، ابوظہبی، شارجہ، عجمان، ام القوین، فجیرہ اور 1972 میں راس الخیمیہ، متحدہ عرب امارات بنانے کے لیے اکٹھے ہوئے تو ان کا یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوا۔شیخ زاید یو اے ای کے پہلے صدر تھے، ان کی سربراہی میں یو اے ای دنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ایک ملک بنا۔ 1948 میں پیدا ہونے والے شیخ خلیفہ متحدہ عرب امارات کے دوسرے صدر اور ابوظہبی کی امارات کے 16ویں حکمران تھے۔ وہ شیخ زید کے بڑے بیٹے تھے۔متحدہ عرب امارات کا صدر بننے کے بعد شیخ خلیفہ نے وفاقی حکومت اور ابوظہبی، دونوں کی تنظیم نو کی۔ ان کے دور حکومت میں متحدہ عرب امارات نے تیز رفتار ترقی کی، لوگوں کے لیے باوقار زندگی کو یقینی بنایا گیا۔ بڑے مروت والے، فیاض، سیر چشم و متواضع انسان تھے۔نیک نامی خوش انتظامی اور ہر دل عزیزی کے ساتھ سب کو مطمئن رکھنا، مقبولیت اور مغفوریت کے اتنے اسباب کم اکٹھے ہوتے ہیں۔مگر شیخ نے سب کو اتحاد کی لڑی میں پروئے رکھا۔توازن وا عتدال تو صرف انبیاء کا خاصہ ہے مگر آپ نے رسوم سے اجتناب ‘نمائشی تکلفات سے احتراز برتا۔ 1994 میں تیل کی دریافت کے بعد اس کی آمدنی کو دبئی کے بنیادی ڈھانچہ کی تعمیر پر صَرف کیا گیا۔اسی کے بعد امارات اپنے پائوں پر کھڑا ہوا۔آج ہمارے وزیر اعظم کشکول لیے وہاں گھنٹوں کھڑے رہتے ہیں ۔کاش! ہم نے بھی اپنے سرمائے کو ملک و قوم پر خرچ کیا ہوتا ۔تو در در سر جھکانے کی نوبت نہ آتی۔عظیم دانشور نے کہا تھا:رفعت وبلندی انہی کو ملتی جو اپنی جبلتوں اور آرزوئوں سے برسر جنگ رہتے اور ناکامیوں پر غور کرتے ہیں۔مکتوم خاندان نے اپنے ملک کو عظیم تر بنانے کا فیصلہ کیا تھا ۔وہ اس میں کامیاب ٹھہرے۔ لاہور کے ایک کونے میں دبئی سما سکتا ہے۔کراچی تو پورا ایک ملک۔ہمارے ہاں چار موسم،بہترین آب و ہوا، ساحل سمندر،گوادر دنیاکی اعلیٰ بندر گاہ، صحرا، سبزہ ، پہاڑ،ریگستان اور میدانوں سمیت سب کچھ موجود مگر مخلص قیادت کا فقدان۔ 1990ء میں دبئی نے صحتمند اور اعلیٰ سیروسیاحت کا بین الاقوامی مرکز بن کر، عملی طور پر سامنے آنے کا اصولی فیصلہ کیا۔ اس کے بعد سیروسیاحت کے لیے دنیا امڈ آئی۔دبئی مثالی شہر، جس کے قابل فخر ہوٹلوں، اعلیٰ معیاری صنعت، دنیا کی بہترین مہمان نوازی، کھیل اور تفریحات کا کوئی ثانی نہیں ۔ جمیرہ کے کنارے خوبصورت برج العرب ہوٹل اپنی مثال آپ۔ امارات ٹاور تجارتی اعتماد کا احساس دلاتی ہے۔ 350 میٹر بلند آفس ٹاور مشرق وسطی اور یورپ کی سب سے بلند عمارت ۔ برج الخلیفہ دنیا کی بلند ترین عمارت ۔ دبئی کرکٹ کے بین الاقوامی مقابلے منعقد کروانے میں پیش پیش۔ دبئی ڈیزرٹ کلاسک پروفیشنل گالف ایسوسی ایشن ٹور زمیں ایک اہم مقام کا حامل ۔ دبئی اوپن، ایک اے ٹی پی ٹورنامنٹ، دبئی ورلڈ کپ، دنیا کی مہنگی ترین گھڑدوڑ ہر سال ہزاروں شائقین کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔دبئی مشرق وسطی کا شاپنگ دار الخلافہ کہلاتا ہے۔ اتنے زیادہ شاپنگ مال اور بازاروں کی موجودگی میں مصنوعات کی ناقابل سبقت قیمت ڈھونڈنے کے لیے اس سے بہتر جگہ نہیں مل سکتی ۔ہوٹلوں میں خلق خدا کا اژدھام ۔یہ سب ایک بہتر اور مخلص قیادت کی نشانی ہے۔ آج دنیا امارات کی طرف کیوں دوڑتی ہے۔ برسوں پہلے بانی پاکستان قائد اعظم نے اس راز سے پردہ اٹھاتے فرمایا تھا : مملکت کا پہلا فریضہ امن و امان برقرار رکھنا ہے تاکہ مملکت کی جانب سے عوام کو ان کی زندگی املاک اور مذہبی تضادات کے تحفظ کی پوری پوری ضمانت حاصل ہو۔ پاکستانی بھی اپنے ملک کی بجائے وہاں اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں۔کیوں ؟وہاں عربی عجمی کالے گورے میں کوئی فرق نہیں ،قانون کی نظر میں سب برابر ۔دبئی کے قوانین سخت ضرور ہیں مگر سب کے لیے یکساں ہیں ،یہی امن و سکون کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ دبئی دنیا میں سیر و تفریح کے لحاظ سے بھی ایک مرکز ،اس کی حقیقی خوبصورتی کو 150 میٹر کی بلندی سے شیشے کے بنے فرش پرچہل قدمی کرتے دیکھا جا سکتا۔سفاری پارک میں رکھے ڈھائی ہزار سے زائد اقسام کے جانور۔ انوکھامعجزاتی پارک ، اس میں پھولوں سے بنائے گئے کئی چیزوں کے مجسمے ۔ گلوبل ولیچ کے چند ایکڑ رقبے میں آپ ساری دنیا دیکھ سکتے ہیں‘ پانی کی مصنوعی نہر، جس کا کشتی کے ذریعے سفر بھی ممکن ۔سمندری سیلز کے ساتھ ڈالفن کے شاندارکرتب ۔الفاہیدہ قلعے میں تعمیرکردہ میوزیم ۔سارق الحدید نامی آثار قدیمہ کا میوزیم ۔ پورے دن کی تھکن کو دورکرنے کیلیے دبئی میں سنیما تھراپی ۔ فاؤنٹین پول کے درمیان میں لگایا گیا گھومنے والا فوارہ ۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت دبئی دنیا کے 25 مہنگے ترین شہروں میں بھی شامل ہے۔ عربوں کے نزدیک زندگی کا معنی کھانا پینا، چلنا پھرنا، سونا جاگنا نہیں ،بلکہ صفات خاص کے ساتھ نام کو شہرتِ تام اور اسے بقائے دوام کا نام ہے۔یہی وجہ ہے کہ عرب بھر پور زندگی جیتے ہیں۔ دبئی کی تہذیب و ثقافت کی جڑیں اسلامی روایات سے جا کر ملتی ہیں ،جویہاں کے باشندوں کے طرز زندگی کا مظہر ہے۔ امارات ان غیر ملکیوں کا جو مذہب اسلام کے پابند نہیں، احترام کرتا ،انھیں خوش آمدید کہتا ہے۔ بیرونی تارکین وطن اپنے مذہبی فرائض کی ادائیگی کے سلسلے میں مکمل طور پر آزاد ہیں ۔ خوش اخلاقی اور مہمان نوازی دبئی کی لاتعداد خوبیوں میں سے ایک ہے۔ حاکمین وقت اپنی ثقافت کو قائم رکھنے میں بہت مستعد ہیں ۔اسی بنا پر بلا تفریق رنگ و نسل ہر کوئی وہاں آتا ہے۔ عظیم مفکر نے فرمایا تھا :قدرت نے فہم و فراست کی مستقل اجارہ داری کسی ایک قوم کو دے رکھی ہے نہ ہی اسلام میں کوئی ایسی بات ہے ۔جو فہم انسانی اور تہذیب عالمی کی راہ میں رکاوٹ بن جائے۔ ساحل کے خاموش کنارے جو صدیوں سے محض مہروں کے تماشائی تھے، اب ہر نوع کے انسانوں کی آمد پر چہک اٹھتے ہیں۔سمندر میں تیز رو بجرے اور دخانی کشتیاں گھومنے لگی ہیں۔جہاں صرف شام کے چند لمحوں کے لئے چراغ ٹمٹماتے تھے، اب وہاں قمقموں کے جال بچھ گئے۔ لاریب کتاب میں ارشادہے۔و ان لیس للانسان الاما سعیٰ۔ آدمی کے لئے اس کے سوا کچھ نہیں جس کی اس نے کوشش کی۔عجم بے چراغ ہوا توعربوں نے سمندر کا کنارا روشن کر دیا۔مختار مسعود نے کہا تھا: جب مسجدیں بے رونق، مدرسے بے چراغ ہو جائیں ۔جہاد کی جگہ جمہود، حق کی جگہ حکایت کو مل جائے ۔ملک کی بجائے مفاد اور ملت کے بجائے مصلحت عزیز ہو۔ مسلمانوں کو موت سے خوف آئے اور زندگی سے محبت ہو جائے تو صدیاں یو ں ہی گم ہو جاتی ہیں۔ ۔۔ہماری ابھی پون صدی گم ہوئی ،مستقبل سنوارا جا سکتا ہے ۔