شیخ فرید الدین عطاررحمۃاللہ علیہ 6شعبان 553ھ کو ایران کے مشہور شہر نیشاپور کے نواحی گائوں کدکن میں پیدا ہوئے ۔آپ کے والد ابراہیم اسحاق رحمۃاللہ علیہ اولیائے کرام سے محبت رکھنے والے صاحب دل درویش تھے ۔اور مشہور مجذوب قطب الدین حیدررحمۃاللہ علیہ کے مرید تھے ۔شیخ عطاررحمۃاللہ علیہ اپنے والد کے ساتھ علماء اور مشائخ کی مجلسوں میں حاضر ہوتے تھے اور ان لوگوں کی محبت ان کے دل میں گھر کر گئی تھی۔اس زمانے میں نیشاپور ایک بہت بڑا علمی مرکز تھا اور اس میں اعلیٰ درجے کے کئی مدارس قائم تھے ۔شیخ فرید نے ان درس گاہوں سے رائج علوم و فنون پر عبور حاصل کیا اور اپنے اجداد کی طرح طب اور دواسازی کے پیشے کو اپنایا۔یہ ان کا آبائی پیشہ تھا اور اسی کی مناسبت سے انھوں نے اپنا تخلص عطار رکھا۔یہ لفظ طبیب،دوا سازاور دوا فروش کے معنوں میں رائج تھا۔ خواجہ عطاررحمۃاللہ علیہ دنیاوی زندگی اور اس کے معاملات و مسائل کو بڑے احسن طریقے پر چلا رہے تھے کہ اچانک ان کی زندگی کا رخ بدل گیا اور دنیا کی رنگینیوں سے ان کا دل اچاٹ ہوگیا ۔اس کا سبب جو واقعہ بیان کیا جاتا ہے وہ کچھ یوں ہے کہ ایک دن شیخ عطاررحمۃاللہ علیہ اپنی دکان میں موجود تھے کہ ایک فقیر آیا اور دکان کی آرائش اور ساز وسامان کو دیر تک غور سے دیکھتا رہا۔خواجہ صاحب کو اس کا یہ انداز پسند نہ آیا ۔ناراض ہوکر اس سے کہا کہ وقت ضائع نہ کرو اور اپنا راستہ لو۔اس نے کہا تم میری فکر نہ کرو ،میرا چلے جانا مشکل نہیں ہے ۔لو میں تو چلا۔یہ کہہ کر وہ وہیں زمین پر لیٹ گیا ۔ خواجہ صاحب نے اٹھ کر دیکھا تو وہ وفات پا چکا تھا۔اس واقعہ نے شیخ عطار رحمۃاللہ علیہ کو اس قدر متاثر کیا کہ انھوں نے سب کچھ چھوڑ کر فقیرانہ زندگی اختیار کر لی اور عبادت و ریاضت میں مصروف ہوگئے ۔ تصوف اور صوفیاء سے دلچسپی کے ساتھ ساتھ وہ شعر و سخن کی خداداد صلا حیت بھی رکھتے تھے ۔انھوں نے ایران کے نامور شیخ طریقت حضرت شیخ ابو سعید ابو الخیررحمۃاللہ علیہ(357۔440ھ)کے سلسلے میں بیعت کی۔ان کا شجرہ چھ واسطوں سے شیخ ابو سعید رحمۃاللہ علیہ تک پہنچتا ہے ۔ شیخ فریدالدین عطاررحمۃاللہ علیہ جوانی ہی میں شعر و ادب میں ممتاز مقام حاصل کرگئے تھے اور اپنے ذوق و شوق اور واردات عشق کی بدولت صوفیاء کے حلقوں میں بھی شمع انجمن بن گئے ۔ خواجہ عطاررحمۃاللہ علیہ کے قتل کا واقعہ یوں ہے کہ جس زمانے میں چنگیز خان نے قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا تھا وہ نیشاپور میں تھے ۔جب نیشاپور پر حملہ ہوا تو ایک آدمی نے انھیں گرفتار کرکے قتل کرنے کی کوشش کی لیکن قریب ہی ایک اور آدمی موجود تھا جس نے ہزار روپے کے عوض انھیں خریدنا چاہا ۔اس پر خواجہ عطار رحمۃاللہ علیہ نے کہا کہ اتنی کم قیمت پر مجھے کبھی نہ بیچنا۔اسی دوران ایک اور آدمی آیا اور کہا کہ مجھے اسے گھاس کی ایک گٹھڑی کے عوض دے دو۔اس پر خواجہ نے گرفتارکرنے والے کو کہاکہ مجھے ضرور بیچ دو،میری قیمت اس سے بھی کہیں کم ہے ۔یہ سن کر اس آدمی کو غصہ آگیا ۔اور اس نے انھیں قتل کر ڈالا۔وہ ان کے اس عارفانہ نکتے کو نہ سمجھ سکا کہ انسان سے بڑھ کر کوئی چیز گراں نہیں اور نہ ہی اس سے بڑھ کر ارزاں ہے ۔ اس آدمی نے خواجہ رحمۃاللہ علیہ کو قتل تو کردیا مگر بعد میں جب اسے ان کی عظمت کا اندازہ ہوا تو توبہ کرکے ان کے مزار کا مجاور بن گیااور مرتے دم تک وہیں رہا۔ شیخ صاحب کی بہت سی تصانیف ہیں۔کئی کتابیں غلطی سے آپ کے نام سے مشہور ہو گئیں۔ان میں سے دیوان قصائد و غزلیات ، مختار نامہ، الٰہی نامہ یا خسرو نامہ،منطق الطیر یامقامات طیور،اسرارنامہ اور مصیبت نامہ مسلمہ طور پر آپ ہی کا نتیجہء فکر ہیں۔نثر میں آپ کی ایک یادگار تصنیف تذکرۃ الاولیاء ہے ۔اسے فارسی کے نثری عرفانی ا دب کا گل سر سبد کہنا بے جا نہ ہوگا۔فارسی کے علاوہ عربی میں بھی کوئی کتاب اس کی برابری نہیں کر سکتی۔اس کی نثر اتنی عمدہ اور اثر انگیز ہے کہ اس کا ہر صفحہ دنیا کی بہترین نثری نظموں میں شمار ہونے کے لائق ہے ۔ تذکرۃ اولالیاء فارسی نثر کی تاریخ میں تصوف اور صوفیہ کے بارے میں لکھی جانے والی تیسری ناقابل فراموش کتاب ہے ۔پہلی کتاب سید علی ہجویر ی ر حمۃاللہ علیہ کی کشف المحجوب ہے اور دوسری طبقات الصوفیہ کا فارسی ترجمہ جو خواجہ عبداللہ انصاری نے کیا تھا۔تذکرۃ لاولیا میں چھیانوے بزرگان دین کے مستند حالات ،مناقب اور اقوال و مواعظ دیے گئے ہیں۔ شیخ فریدالدین رحمۃاللہ علیہ کی شاعری کی طرح اس کتاب کی نثربھی سادہ ،رواں اور متاثر کن ہے ۔ان کی تحریروں میں تکلف اور تصنع نہیں ہے ۔ چھٹی صدی ہجری کے آخر یا ساتویں صدی ہجری کے شروع میں لکھا گیا۔ اس وقت سے لے کر اب تک اس کتاب کو بہت پذیرائی ملی دنیا کی کئی زبانوں میں اس کا ترجمہ اور تلخیص ہو چکی ہے ۔تذکرۃ الاولیا کو فارسی نثر کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔اس کی نثر فصیح فارسی کا بہترین نمونہ ہے ۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ اتنی ضخیم کتاب میں عربی الفاظ و تراکیب دس فی صد سے زیادہ نہیں ہیں۔اس لحاظ سے بھی یہ کتاب اپنی معاصر کتابوں سے بہت منفرد ہے ۔