شیخ ہجویر ؒ کا قول ہے : سارے ملک کا بگاڑ تین گروہوں کے بگڑنے پر ہے ۔حکمران جب بے علم ہوں ،عالم جب بے عمل ہوں اور فقراء جب بے توکل ہوں۔ شیخِ ہجویر علی بن عثمان ہجویری ؒ کے 979 عرس کی تقریبات کا دائرہ دس دن تک پھیل چکا۔سہہ روزہ کانفرنس عرس کا جزو لاینفک بن چکا،ہزار برس قبل شیخ ہجویر ؒ کو ان کے استاد نے غزنی سے لاہور روانہ ہونے کا حکم دیا۔ حیرت سے انہوں نے کہا: آپ کے ایک شاگردِ رشید اس علاقے میں قیام فرما ہیں۔ استاد نے اپنا حکم دہرایا توشاگردکے لیے سفر کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ علما کرام میں اساتذہ کا ادب اتم درجہ پایا جاتا ہے ،لیکن اگر شاگرد شیخ ہجویرؒ جیسا ہو تو پھر معاملہ ہی الگ۔آپ جب طویل سفر طے کر کے لاہور داخل ہوئے تو آپ ؒکے پیش رو کا جنازہ قبرستان کو روانہ ہو چکا تھا۔لاہور میں داخل ہو کر آپ ؒ نے برسوں علم ،محبت اوردین کی دولت بانٹی۔گرمی ،سردی خزاں اور بہار کے کتنے موسم بیت چکے لیکن درویش کے دسترخوان اور مکتب کا در کھلا ہے۔ بھوکوں کے لیے کھانا او ر آسودگی ۔علم کے متلاشیوںکے لیے شیخ ہجویر ؒکی کتاب کے اوراق۔’’کشف المحجوب ‘‘ میں غوطہ زن ہو نے کا لطف ہی الگ۔شیخ کی درگاہ پر اس کا باقاعدہ ایک حلقہ ہونا چاہیے ،جہاں اہل علم اس کا درس دیں تاکہ زائرین کی اصلاحی تربیت ہو۔ کشف المحجوب کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سید ہجویر تفسیر، حدیث ،فقہ، عربی زبان و ادب، منطق ،کلام، فلسفہ، تاریخ، تصوف اور دین و شریعت کے اسرارو رموز پر کتنی گہری نگاہ رکھتے تھے اور آپ کو ان علوم میں کتنی مہارت اور دسترس حاصل تھی۔چنانچہ اکثر آپؒ نے مختلف آراء کا تجزیہ کرکے محاکمہ فرمایا۔علم فقر، تصوف، خرقہ پوشی، ملامت، توبہ، محبت، نفس، معرفت، ایثار، روح، رضا، ایمان، صلوٰۃ و صوم، زکوٰۃو حج، مشاہدہ، فناء و بقاء ،مقام وحال ،محاضرہ و مکاشفہ پر آپ کی مباحثِ علمی آئینہ تابدار ہے۔ شیخ محمد اکرم ’’آب کوثر‘‘ میں لکھتے ہیں۔ یہ کتاب آپ نے اپنے رفیق ابو سعید ہجویریؒ کی خواہش پر لکھی ،جو آپ کے ساتھ غزنی چھوڑ کر لاہور آئے تھے۔ اس میں تصوف کے طریقے کی تحقیق، اہل تصوف کے مقامات کی کیفیت، ان کے اقوال اور صوفیانہ فرقوں کا بیان معاصر صوفیوں کے رموز و اشارات اور متعلقہ مباحث بیان کئے ہیں۔ اہل طریقت میں اس کتاب کو بڑا مرتبہ حاصل ہے۔ تاریخ مشائخ چشت کے مطابق کشف المحجوب نے ایک طرف تو تصوف سے متعلق عوام کی غلط فہمیوں کو دور کیا اور دوسری طرف اسکی ترقی کی راہیں کھول دیں۔کشف المحجوب تاریخی طور پر ایک مستند علمی دستاویز بھی ہے۔ اس کتاب میں جن رموز طریقت اور حقائق معرفت کو بیان کیا گیا ہے۔ اہل علم کہتے ہیں : ایک ہزار برس میں اپنے موضوع پراس سے بہتر کتاب کبھی نہ لکھی گئی۔ مستندمتن ۔ بہتر قلمی نسخے اور سینکڑوں ترجمے ۔مگر اہل علم کی پیاس ابھی بھی نہیں بوجھی ۔شیخ ہجویر ؒ مسجد کے خطیب مولانا مفتی محمد رمضان سیالوی نے ایم فل میں ’’کشف المحجوب اور رسالہ قشیریہ کا تقابلی جائزہ ‘‘ پر مکالہ لکھا ہے۔جو حقیقت میں ایک کتاب ہے ۔مفتی صاحب سے گزارش ہے کہ اسے کتابی شکل میں لا کر فیضِ عام کر دیں ۔آج کا طالب علم محنت نہیں کرتا ،اگر اسے کوئی لکھی لکھائی کتاب مل جائے تو اس کے لیے نور علی نور۔ شاعر مشرق علامہ اقبا لؒ داتا گنج بخش علی بن عثمان الہجویری ؒکے اسیر تھے ،آپ نے کہا: سیّد ہجویر مخدوم امم مرقد او پیر سنجر را حرم خاک پنجاب از دم او زندہ گشت صبح ما از مہر او تابندہ گشت (ہجویر کا سیّد اقوام عالم کا سردار ہے۔ عظیم صوفی پیر سنجر کے لیے اس کا مزار حرم مبارک کی مانند ہے۔ پنجاب کی خاک کو اس نے زندہ کر دیا۔ میری سحر اسی سورج سے تابندہ ہوئی) آج کے حکمران بھی اہل علم کی بڑی توقیر کرتے ہیں ۔گزرے زمانوں کے سلاطین اور اہل علم میں بھی فاصلہ زیادہ نہ تھا ۔ بلبن فرید الدین شکر گنج کی خدمت میں حاضر ہوا اور شہاب الدین غوری نے معین الدین چشتیؒ کی بارگاہ میں اپنا پیغام رساں بھیجا۔ محمود غزنوی شش و پنج سے نکلا تو شیخ ہجویرؒ کے طفیل۔ تین روزہ کانفرنس آج اختتام کو پہنچ جائے گی ۔جس کے بعدعرس شروع ہو گا۔کانفرنس میں اہل علم کا تشریف لانا ،مصروفیات کے دور میںبڑا مستحسن ہے ۔سہہ روزہ کانفرنس میں مقررین کے لیے جو موضوعات مقر ر کیے گئے ،ان سے حاضرین میں مزید دلچسپی پیدا ہوئی ہے ۔سید ہجویرؒ کا شخصی تعارف،تصوف،معاصر سماجی ونفسیاتی مسائل سمیت بہت اہم موضوعات شامل ہیں۔گو اس کانفرنس کی کامیابی کا دارو مدار ایک ٹیم ورک کا نتیجہ ہے ۔جس کی تربیت ڈائریکٹر جنرل مذہبی امور ڈاکٹر طاہر رضا بخاری نے کر رکھی ہے۔ڈپٹی ڈائریکٹر مذہبی امور آصف اعجاز ،اسسٹنٹ ڈائریکٹر حافظ جاوید شوکت ،کانفرنس کے کوارڈینیٹرطارق نجمی ،مشتاق احمد،ایڈمنسٹریٹر داتا دربار شاہد حمید ورک،منیجر داتا دربا شیخ جمیل ،طاہر مقصود، ناصر خالد ،محمد شاہد،پرویز حسن اور محمد اصغر سمیت ہر ایک بندے نے محنت ،لگن اور جوش جذبے کے ساتھ مہمانوں کو سہولیات پہنچانے میں ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ۔ جامعہ ہجویریہ کے طلبا جس محنت کے ساتھ اس پروگرام کو کامیاب بناتے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ جامعہ میں اس وقت سینکڑوں طلباء زیر تعلیم ہیں ،دورہ حدیث سے لیکرتخصص فی الفقہ کی تعلیم جاری ہے۔ جید اساتذہ جامعہ ہجویریہ میں پڑھاتے ہیں۔ عصری علوم کے علاوہ کمپیوٹر لیب، لینگوئج اور موبائل کے سوفٹ ویئر کی کلاسز شروع ہیں جس سے مہمان رسول دلجمعی سے استفادہ کر رہے ہیں۔ جامعہ ہجویریہ، یونیورسٹی آف پنجاب، جامعہ منہاج اور جی سی یونیورسٹی کے طلباء کے مابین مختلف موضوعات پر مباحثہ کروایا جاتاہے جبکہ جامعہ ہجویریہ کے طلباء کو مختلف تعلیمی و تفریحی دوروں پر بھی لے جایاجاتا ہے۔اس سے نہ صرف جامعہ کی تعلیمی قابلیت میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ علم کے پیاسے اس کی جانب لپکے چلے آتے ہیں ۔اس بے راہ وری کے دور میں ان بزرگوں کی تعلیمات سب کے لیے روشنی کا مینار ہیں۔