عثمان بزدار کی تین سالہ وزارت اعلیٰ میں پنجاب میں اکبر حسین درانی، یوسف نسیم کھوکھر، اعظم سلیمان اور جواد رفیق کے بعد ڈاکٹر کامران علی افضل پانچویں چیف سیکریٹری جبکہ کلیم امام، طاہر خان، امجد سلیمی، عارف نواز، شعیب دستگیر اور انعام غنی کے بعد سردار علی خان ساتویں آئی جی ہیں۔جبکہ کچھ ڈیپارٹمنٹس کے سیکرٹریز کومحض تین سے چارماہ کے قلیل عرصے میں تبدیل کردیا گیا۔آئے روز کی تبدیلوں کی باوجود یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ مارشل لاء کا دور ہو یا جمہوری حکومتوں کا بیوروکریسی خاص طور پر پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے افسران کے اختیارات لا محدود ہی رہتے ہیں اور بنیادی طور پر زمینی بادشاہ یہی ہوتے ہیں۔سی ایس ایس افسران کی ترقی کا سفر تو ہوا کی سپیڈ سے بھی زیادہ تیزی سے اپنی منازل طے کرتا ہے جبکہ پی ایم ایس افسران سمیت دیگر سرکاری ملازمین کی ترقی کے سامنے نہ صرف سوالیہ نشان موجود ہے بلکہ بڑا سا ’’فل سٹاپ‘‘ لگا دیا جاتا ہے۔جس کی وجہ سے آئے روز سی ایس ایس اور پی ایم ایس افسران کے درمیان تنائو کا ماحول دیکھنے کو ملتا ہے۔پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے افسران کو جیسے سرخاب کے پر لگے ہوتے ہیں کہ ساری اہم سیٹیوں پر صرف انہی کا استحقاق ہے۔چیف سیکرٹری اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری تو درکنار پی ایم ایس افسران کوایڈیشنل سیکرٹری سروسز اور ایڈمن کی سیٹ تک نہیں دی جاتی۔ سینئر سیٹ پر کسی جونیئر آفیسر کی تقرری غیر قانونی ہے۔لیکن اب یہ ٹرینڈ بنتا جارہا ہے کہ جونئیر آفیسر کو سینئر سیٹ پرتعینات کر کے مرضی کا کام لیا جاتا ہے۔1999میں صوبائی سروس کا امتحان پاس کرنے والے پی ایم ایس افسران آج بائیس سال بعد بھی گریڈ 18سے آگے نہیں جاسکے جبکہ 1999میں ہی سی ایس ایس کرنے والے ناصرف گریڈ 20میں ترقی حاصل کرچکے ہیں بلکہ کلیدی پوسٹوں پر بھی براجمان ہیں۔ عامر جان پرنسپل سیکرٹری ٹو چیف منسٹر کی اہم ترین سیٹ پر ہیں، احمد جاوید قاضی سیکرٹری ہیلتھ اسی طرح صوبائی دارلحکومت لاہور کے کمشنرکیپٹن عثمان اورانٹی کرپشن پنجاب کے سربراہ ڈی آئی جی گوہر نفیس بھی اسی بیج سے ہیں۔ان کی تعیناتی پر کوئی اعتراض نہیں اور نہ ہی ان افسران کی قابلیت اور لیاقت پر کوئی شبہ۔لیکن اس کے مقابل اسی سال صوبائی سروس کا امتحان پاس کرنے والے دودرجن کے قریب افسران میں سے صرف نوید شہزاد مرزا،سیف انور جپہ اور رائو پرویز کو ہی ڈپٹی کمشنر شپ مل سکی ۔پی ایم ایس 4کے افسران 2سال سے اور پی ایم ایس 5گذشتہ ایک سال سے پرموشن ٹریننگ کے باوجود ترقی سے مرحوم گریڈ 17میں کام کرنے پر مجبور ہیں جبکہ پی ایم ایس 5کا آدھا بیج اور پی ایم ایس 6والے ٹریننگ کی راہ تک رہے ہیں۔پی ایم ایس افسران کاپروموشن بورڈکرانے اورڈی ٹی ایل سیٹیں بحال کرنے کامطالبہ بالکل جائز ہے۔ سی ایس ایس افسران کی صوبائی روٹیشن پالیسی پر بھی عمل نہیں کیا جارہا سنئیر افسران خاص طور پر خواتین دہائیوں سے پنجاب چھوڑنے کو تیار نہیں۔پنجاب کو سونے کی چڑیا سمجھنے والے سی ایس ایس افسران کی ساری لاقانونیت کا مرکز پنجاب ہی ہے ۔دوسروں صوبوں میں پنجاب کی نسبت صوبائی افسران کو نہ صرف ترقی کے یکساں مواقع موجود ہیں بلکہ اہم پوسٹوں پر بھی تعینات ہیں۔ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروسز کی طرح پی ایس پی افسران نے محکمہ پولیس میں اپنی اجارہ اداری قائم کر رکھی ہے اور صوبائی پولیس افسران کا استحصال کررہے ہیں۔ اے ایس آئی،سب انسپکٹر،انسپکٹر اورڈی ایس پیز رینک کے افسران کو دس سے بارہ سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود اگلے گریڈ میں ترقی نہیں مل پاتی۔ریٹائرمنٹ کا وقت آن پہنچتا ہے لیکن اے ایس آئی اور سب انسپکٹر بھرتی ہونے والوں کی اکژیت انسپکٹر اور ڈی ایس پی سے آگے نہیں جاپاتے ۔ رینکر زپولیس افسران میں سے اگر دوچار پرموٹ ہو بھی جائیں تو انکو ساری زندگی اچھی پوسٹنگ نہیں ملتی۔پی ایس پی آفیسر ایس پی گریڈ 18کے باوجود گریڈ انیس کی سیٹ پر بطور ڈی پی او براجمان ہوتے ہیں جبکہ رینکر ایس ایس پی گریڈ 19میں ہو کر بھی اس سیٹ کیلئے اہل نہیں سمجھا جاتا۔کچھ افسران خدا کی زمین پر خدائی فوجدار بنے بیٹھے ہیں۔طبع نازک پر ذرا سی بات کیا ناگوار گزری فوری طور معطل ، ظلم کی انتہا دیکھئے معمولی سی وجہ اور حکم عدولی پرچھوٹے افسران کی دو دو سال کی سروس ضبط کرلی جاتی ہے۔عیدین و دیگر تہواروں پر بھی چھٹی نہ ملنے،میرٹ کے باوجود ترقی نہ ملنے کے غم میں پریشان حال چھوٹے پولیس ملازمین پر سروس ضبطی کا فیصلہ کسی آفت سے کم نہیں ہوتا۔ناحق سروس ضبط ہونے کے غم میں سینکڑوںافرادپولیس ڈیپارٹمنٹ کو خیرباد کہ چکے ہیں ۔ اگرچہ حاکمیت پسند اوراختیارات سے تجاوز کرنے والے مذکورہ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس اور پی ایس پی افسران کی تعداد بہت کم ہے لیکن اس اقلیت نے فرض شناس اکثریت کا امیج بھی دائو پر لگا دیا ہے۔سی ایس پی افسران کی ایک طویل فہرست ہے جو نہ صرف فرش شناسی اور دیانتداری سے اپنی ڈیوٹی سر انجام دیتے ہیں بلکہ اتوار ،عیدین اور دیگرتعطیلات میں بھی انتظامی ذمہ داریاں نبھاتے نظر آتے ہیںاور عام افراد کی خوشی غمی میں بھی شرکت کرتے ہیں ۔ سینٹرل سپرئیر سرسز کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ مختلف صوبوں کے افسران دوسرے صوبوں میں جاتے ہیں وہاں کے رہن سہن اور کلچر کے باعث عصبیت کا خاتمہ ہوتا ہے اور قومی یکجہتی کو فروغ ملتا ہے۔یہ افسران پاکستان کی اکائی کا کردار ادا کرہے ہیں ۔وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو چاہئے کہ جس طرح انہوں نے ایک پسماندہ علاقے سے عثمان بزدار کو پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کاوزیر اعلیٰ بنا کر سیاسی مافیا کو نامراد کیا ،اسی طرح پنجاب کی صوبائی بیوروکریسی میں آئے روز اکھاڑ بچھاڑ کی بجائے بنیادی مسئلے کو سمجھا جائے ،انصاف کا ترازواس بات کا متقاضی ہے کہ سب کو ترقی کے مساوی مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ اداروں کے درمیاں کھینچا تانی اور اقتدار کی جنگ کا خاتمہ ہو اور سب ملکر وطن عزیز پاکستان کی خدمت کر سکیں۔