معاشی میدان میں تبدیلی سرکار کی محیر العقول کامیابیوں نے ایک دنیا کی عقول کو متحیر کر کے رکھ دیا ہے۔ ایک ایسی ہی کامیابی کا ذکر سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ تبدیلی سرکار بجلی کے میدان میں ہر روز کئی کروڑ روپے کا گردشی قرضہ بڑھا رہی ہے۔ درآنحالیکہ اس نے بجلی اور گیس‘ دونوں کے نرخ بڑھا دیے ہیں۔ منطق کہتی ہے کہ بجلی اور گیس کی زائد بلوں کی وصولی کے بعد یومیہ گردشی قرضہ کم ہونا چاہیے تھا۔( نواز دور میں گردشی قرضہ 480ارب روپے یکمشت کرنے کے بعد صفر ہو گیا تھا۔ لیکن ان کے چار سالہ دور اقتدار میں مزید 500ارب روپے کا گردشی قرضہ بڑھا تھا)۔ انہوں نے مزید بتایا کہ تبدیلی سرکار نے چھ سات مہینے کے اندر ہی قومی قرضے میںکئی فیصد اضافہ کر دیا ہے۔ ابھی پہلے سال کا آدھا ہوا ہے۔ گویا ایسے ہی نو آدھے اور ہیں۔ سال پورا ہونے پر یہ اضافہ کئی فیصد ہو جائے گا اور پانچ سال بعد 120فیصد بڑھ جائے گا۔ یعنی بارہ فیصد میں ایک صفر کا اضافہ‘ دائیں طرف۔ قرضے کی کہانی بھی پرلطف ہے۔ کل سے بعض ٹی وی چینل سوال اٹھا رہے ہیں کہ نواز حکومت دس ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر چھوڑ کر گئی تھی۔( سٹیٹ بنک کی 24اگست2018ء کی رپورٹ کے مطابق 8ارب 20لاکھ ڈالرز زرمبادلہ کے ذخائر تھے)۔تبدیلی سرکار نے پانچ ارب ڈالر قرضہ مزید لیا۔ یہ بنے 13ارب ڈالر اور ذخائر میں باقی ہیں محض آٹھ ارب ڈالر۔ سابق حکومت لوٹ مار کرتی تھی‘ پھر بھی 70ارب ڈالر ترقیاتی کاموں پر خرچ کئے۔ تبدیلی سرکار نے 70پیسے کا ترقیاتی کام بھی نہیں کیا۔ لوٹ مار سے بچ رہنے والی یہ 70ارب ڈالر کی رقم کہاں گئی۔ کس کھاتے میں ڈیپازٹ ہوئی؟ کون بتائے گا؟ کیسے پتہ چلے گا؟ ویسے حکومت کرنٹ اکائونٹ خسارے میں کمی لانے کے لئے جو کوششیں کر رہی ہے انہیں غیر سنجیدہ نہیں کہا جا سکتا۔ ایسی ہی ایک کوشش کئی ماہ پہلے’’پاکستان بنائو بانڈ‘‘ کا اجرا تھا۔ اس سنجیدہ کوشش کے نتائج لیکن بدستور محیر العقول ہیں یعنی ابھی تک کوئی ’’رسپانس‘‘ نہیں ملا۔ یہ رسپانس کیوں نہیں ملا؟ کون بتائے گا؟ کیسے پتہ چلے گا۔ ڈیم بنائو مہم تو تبدیلی سرکار نے برسر اقتدار آنے سے پہلے ہی کر دی تھی۔ اس کے ایک ’’ممتاز رہنما‘‘ لندن وغیرہ بھی گئے تھے اور اپنی جماعت کے پلیٹ فارم سے فنڈ ریزنگ کرتے رہے لیکن ’’ریزنگ‘‘ کا کچھ پتہ نہیں چل سکا۔ بعدازاں اس رہنما نے بتایا کہ مقصد فنڈز ریزنگ نہیں تھا۔ آگاہی کی ریزنگ تھا۔ ایسا کیوں کیا’ کون بتائے گا‘ کیسے پتہ چلے گا۔ ایک اور سنجیدہ کوشش البتہ جلد ہی ہونے والی ہے۔ سرکار نے بتایا ہے کہ موجودہ ایف بی آر نکما اور ناکارہ ہے۔ اس کی جگہ نیا ایف بی آر بنائیں گے۔ موجودہ ایف بی آر کے نالائق ہونے کا پتہ سات ماہ بعد چلا۔ مزید سات ماہ بعد نئے بنائے جانے والا ایف بی آر بھی نکما اور نالائق نکلا تو؟ کیا پھر تیسراایف بی آر بنایا جائے گا یا پہلے والے کو پھر بحال کیا جائے گا۔ کون بتائے گا‘ کیسے پتہ چلے گا۔؟ ٭٭٭٭٭ اطلاع چھپی ہے کہ بجلی کے نرخ اس مہینے ڈیڑھ روپیہ اور کچھ دنوں بعد ساڑھے تین روپے فی یونٹ بڑھانے کا فیصلہ ہو گیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 25فیصد اضافہ متوقع ہے۔ فی الحال عوام کا حال یہ ہے کہ 15فیصد مہنگی بجلی اور 45فیصد مہنگی گیس اور دیگر بہت سی مدات میں مختلف شرح کی مہنگائی(بشمول دوائوں کی قیمتوں میں سو فیصداضافہ) کے بعد جو لوگ تین وقت کھاتے تھے۔ اب دو وقت کھانے لگے ہیں۔پھٹے کپڑوں کو پیوند لگانے کا ’’فیشن‘‘ بھی بحال ہو گیا۔ کئی افراد کا مجھے علم ہے۔ وہ آدھا راستہ ویگن پر طے کرتے ہیں‘ آدھا پیدل جانے لگے ہیں جو صدقہ دیتے تھے اب خود اس کے منتظر رہتے ہیں۔ کہاں سے نکالیں گے‘ کیسے نکالیں گے؟ کون بتائے گا۔ کیسے پتہ چلے گا؟ ٭٭٭٭٭ وزیر اعظم نے اپنی جماعت کے ارکان اسمبلی کو کروڑوں روپے فی کس کے ترقیاتی فنڈ جاری کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ موصوف کل تک ان ترقیاتی فنڈز کو کرپشن کہا کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ کرپشن کا آغاز انہی فنڈز سے ہوتا ہے۔ ہم آئیں گے تو ان پر پابندی لگا دیں گے۔ کبھی کسی کو یہ فنڈ نہیں دیں گے۔ ناقدین نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا خان صاحب نے بھی کرپشن کی شروعات والے فنڈز کا اجرا کر کے شروعات کرپشن مہم تو نہیں چلا دی۔ عرض ہے کہ جس طرح جراثیم اور بیکٹیریا بھی اچھے اور برے ہوتے ہیں یعنی ایک وہ جو انسانی صحت کے لئے اچھے‘ دوسرے مضر ہوتے ہیں‘ اسی طرح کرپشن بھی دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک کرپشن’’کرپٹ‘‘ ہوتی ہے۔ یہ اصول یاد رہنا چاہیے۔ ہر شے دو قسم کی ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ تجاوزات بھی۔ برے تجاوزات گرا دیے جاتے ہیں۔ اچھے تجاوزات جیسے کہ بنی گالہ وغیرہ کے‘ انہیں ریگولرائز کرا دیا جاتا ہے‘ پھر وہ صادق و امین تجاوزات ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح سے جعلی چیزیں جعلی کاغذات جعلی ڈگریاں بھی دو قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک دھوکے بازی والی جعلی‘ دوسری صادق و امین قسم کی جعلی۔