جناب اظہار الحق حیران ہیں کہ عمران خان نے مفتی قوی کو اپنا مذہبی مشیر کیسے بنا لیا۔ عالی جاہ جس جماعت میں ابرارالحق امور خارجہ کا سیکرٹری بن سکتا ہے وہاں مفتی قوی مذہبی امور کا مشیر بن جائے تو حیرت کیسی؟ پہلی فرصت میں انہیں اُٹھا کر باہر پھینک دیجیے ، سپنوں کی کرچیاں گھر میں پڑی رہیں تو تکلیف دیتی ہیں۔ اظہار الحق صاحب کا حکم ہے میں ان روشن ستاروں کی فہرست شائع کر دوں جو الیکشن جیت کر نئے پاکستان کو منور فرمانے پر تلے بیٹھے ہیں۔کس کس کا ذکر کروں صاحب ، یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ ’’ لاکھوں ہی آفتاب ہیں اور بے شمار چاند‘‘۔داستان ہوشرباکالم کی تنگنائے میں کیسے سمٹ سکتی ہے کہ من کا برہما ہر مطلع پر غزل کہنے کو مچلتا ہے۔ حکم مگر اظہار صاحب کا ہے۔تعمیل کے سوا چارہ ہی کیا ہے۔ تو آئیے پنجاب سے شروع کرتے ہیں۔ این اے 55 سے پنجاب شروع ہو جاتا ہے۔ یہ اٹک ہے۔اٹک میں قومی اسمبلی کی 2 نشستیں ہیں ۔ این اے 55 اور 56۔تحریک انصاف نے دونوں نشستوں پر طاہر صادق کو ٹکٹ جاری کر رکھا ہے۔ میجر صاحب مسلم لیگ ق کے ستون تصور ہوتے تھے اور ضلع ناظم تھے۔ نومبر 2017 ء میں وہ تحریک انصاف میں شامل ہوئے اور اتنے ناگزیر ہو گئے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی سے انوائرمنٹل سائنسز میں ماسٹرز اور میک گل یونیورسٹی سے ایم بی اے فنانس کی ڈگری رکھنے والے ورلڈ بنک اور اقوام متحدہ کے ساتھ کام کا تجربہ رکھنے کے ساتھ ساتھ شیخ آفتاب سے صرف تین ہزار ووٹوں سے شکست کھانے والے امین اسلم کو فراموش کر دیا گیا اور دونوں ٹکٹ طاہر صادق کی جھولی میں ڈال دئیے گئے۔ چکوال میں بھی قومی اسمبلی کی دو نشستیں ہیں۔این اے 64 پر تحریک انصاف کے امیدوار ذوالفقار دلہا ہیں۔یہ 2013ء میں ن لیگ کے ٹکٹ پر ایم پی بنے۔حالیہ انتخابات میں ن لیگ نے انہیں پی پی 23 کا ٹکٹ دیا۔ یہ ن لیگ کے امیدوار تھے۔ شہر میں ان کے بینرز لگ چکے تھے راتوں رات تبدیئی آئی‘ انہوں نے ن لیگ کا ٹکٹ واپس کیا اوریہ تحریک انصاف میں شامل ہو گئے۔ اب یہ تحریک انصاف کے امیدوار ہیں۔این اے 65 پر چودھری پر ویز الہی کے لیے تحریک انصاف نے اپنا کوئی امیدوار ہی نہیں دیا۔ یاد آیا عمران خان نے مجھے خود بتایا کہ میں مشرف کے ساتھ کیسے چل سکتا تھا جب کہ اس نے چودھریوں کو ساتھ ملا لیا۔میں کرپٹ لوگوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتا۔تب ساتھ نہیں بیٹھ سکتے تھے۔اب ان کے احترام میں بیٹھ چکے ہیں۔ آگے چلیے ، یہ جہلم ہے۔ جہلم میں بھی قومی اسمبلی کی دو نشستیں ہیں۔ این اے 66 اور این اے 67۔ این اے 66 پر فرخ الطاف صاحب کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔ فرخ الطاف صاحب کا تعلق اس سے پہلے ق لیگ سے تھا۔یہ دو دفعہ مشرف دور میں ضلع ناظم بنے۔یہاں سے گزشتہ انتخابات میں پی ٹی آئی کے امیدوار چودھری ثقلین تھے ۔وہ ایم پی اے رہ چکے ہیں مگر انہیں نظر انداز کر کے فواد چودھری کے رشتہ دار کو ٹکٹ دیا گیا ۔این اے 67 سے فواد چودھری امیدوار ہیں ۔ مشرف کی اے پی ایم ایل میں بھی رہ چکے اور یوسف رضا گیلانی کے مشیر بھی تھے۔ضلع کی دونوں نشستیں چچا بھتیجے کو پیش کی گئیں سو کی گئیں‘ تماشا یہ ہوا کہ نیچے صوبائی اسمبلی کی اکلوتی نشست پی پی 27 پر بھی یہی امیدوار ہیں۔ہو سکتا ہے انہوں نے مل بیٹھ کر سوچا ہو کہ کارکن کو تو کپتان خان دے جلسے اچ نچنے سے ہی فرصت نہیں اس لیے الیکشن لڑنے کی بھاری ذمہ داری ہم ہی ادا کر لیتے ہیں۔ آگے گجرات ہے۔ این اے 68 سے پی ٹی آئی نے امیدوار ہی نہیں دیا۔ کارکنان کو حکم ہے وہ حسین الہی کو ووٹ دے کر ثواب دارین حاصل کریں۔این اے 69 کی بھی یہی صورت حال ہے ۔ یہاں سے چودھری پرویز الہی کا ساتھ دیا جا رہا ہے۔یعنی پورا ضلع چودھریوں کے گلے کا ہار بنا دیا گیا ہے۔ اس کے بعد سیالکوٹ آتا ہے۔این اے 72 میں فردوس عاشق اعوان کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔فردوس عاشق اعوان 2002ء میں ق لیگ کے ٹکٹ سے جیتیں اور 2008 میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ سے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت میں وزیر اطلاعات تھیں۔اب وہ قافلہ انقلاب کی سالار ہیں۔این اے 74 میں غلام عباس کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔جی ہاں وہی پیپلز پارٹی والے غلام عباس ۔این اے 75 میں علی اسجد ملہی امیدوار ہیں۔ 2002 ء کا الیکشن وہ ق لیگ کے ٹکٹ سے جیتے اور وزیر مملکت بھی رہے۔ این اے 77 نارووال سے میاں محمد رشید کو ٹکٹ ملا ہے۔ میاں محمد رشید نے 2013ء کا الیکشن ن لیگ کے ٹکٹ پر لڑا تھا۔ مئی 2018 ء میں ان کا ضمیر اچانک جاگ گیااور وہ قافلہ انقلاب میں شامل ہو گئے۔ این اے 78 نارووال سے ابرار الحق امیدوار ہیں۔جی ہاں وہی جنہوں نے یہ اعلان فرمایا تھا کہ کپتان خان دے جلسے اچ نچنے کو دل کردا ہے۔ اور جو امور خارجہ کے سیکرٹری ہیں۔اگر امور سلجھانے کا پیمانہ یہی ہے تو امور داخلہ تو نعیم الحق سے بہتر کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ این اے 79 گوجرانوالہ سے محمد احمد چٹھہ کو ٹکٹ ملا ہے۔ یہ حامد ناصر چٹھہ کے صاحبزادے ہیں۔این اے 80گوجرانوالہ سے میاں طار ق محمود کو ٹکٹ دیا گیا ہے ۔انہوں نے 2013 ء کا الیکشن مسلم لیگ ن کے ٹکٹ سے جیتا تھا۔این اے 81 سے چودھری محمد صدیق امیدوار ہیں جو اس سے قبل پیپلز پارٹی میں تھے۔این اے 83 گوجرانوالہ سے تحریک انصاف نے رانا نذیر کو ٹکٹ دیا ہے۔ رانا صاحب کا تعلق ن لیگ سے تھا۔ تین دفعہ وفاقی وزیر رہ چکے۔ مسلم لیگ ن پنجاب کے سیکرٹری جنرل بھی رہے۔ صرف دو ماہ قبل یعنی مئی 2018 ء میں یہ تحریک انصاف میں آ گئے۔این اے 84 سے بلال اعجاز امیدوار ہیں۔بلال اعجاز 2002 ء کا الیکشن ق لیگ کے ٹکٹ پر جیتے تھے۔ این اے 85 منڈی بہاولدین سے ق لیگ کے جعلی ڈگری کیس میں نا اہل ہونے والے اعجاز چودھری کے بھائی امتیاز چودھری کو دیا گیا ہے۔اور این اے 86 منڈی بہاولدین سے پیپلز پارٹی کے دور کے وفاقی وزیر نذر گوندل قافلہ انقلاب کی جانب سے امیدوار ہیں۔ این اے 87 حافظ آباد سے مسلم لیگ ن کے سابق ایم پی اے چودھری شوکت بھٹی کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔ این اے 88 سرگودھا سے ندیم افضل چن ہیں جو پیپلز پارٹی سے لیے گئے ہیں۔این اے 89 سرگودھا سے اسامہ غیاث میلہ ہیں۔ یہ غیاث میلہ کے صاحبزادے ہیں۔غیاث میلہ پہلے 2002 ء میں اور پھر 2008 ء میں ق لیگ کے ٹکٹ سے جیتے۔2013 ء میں ق لیگ ہی کے ٹکٹ پر الیکشن میںحصہ لیا اور شکست کھائی۔ اب ان کے صاحبزادے نیا پاکستان بنانے نکلے ہیں۔این اے 90 سرگودھا سے نادیہ عزیز ہیں۔ 2002 ء میں یہ پیپلز پارٹی میں تھیں اور ایم پی اے بن گئیں۔2008 ء میں ہار گئیں۔ 2013 آیا تو یہ ن لیگ میں چلی گئیں۔ اب دو ماہ پہلے یہ تحریک انصاف میں شامل ہو ئیں اور ان کی خدمت میں ٹکٹ پیش کر دیا گیا۔این اے 91 سرگودھا سے عامر چیمہ تحریک انصاف کے امیدوار ہیں۔ یہ ق لیگ کے تھے۔ ان کے والد 1988 ء سے 2008 ء تک آئی جے آئی ، ن لیگ اور ق لیگ کے ٹکٹ پر مسلسل جیتتے رہے۔یہ خود بھی ق لیگ کی حکومت کے صوبائی وزیر لائیو سٹاک تھے۔ این اے 98 بھکر سے نیا پاکستان بنانے کا اعزاز افضل ڈھانڈلا کے حصے میں آ یا ہے۔یہ 2008ء اور 2013ء کے الیکشن ن لیگ کے ٹکٹ پر جیتے تھے۔ دو ماہ قبل ان کو بھی اچانک خیال آیا کہ ووٹ کو عزت دینا تو بڑا فضول کام ہے ، ان کی منزل تو نیا پاکستان ہے۔ دیکھیے ابھی تو میں نے صرف مطلع کہا اور کالم تمام ہو گیا۔ غزل تو ابھی باقی ہے۔اظہار صاحب کو خبر ہو کہ پچیس جولائی کی ان کی رخصت اتفاقیہ منظور ہو چکی ہے۔ میں البتہ اب اس کا مقطع کہنے تک یہیں موجود رہوں گا۔ یہ غزل محسوس ہو رہا ہے اب کچھ طویل ہو گی۔