مکرمی! صبح منور شام منور روشن تیرا نام منور۔ تقوی کا زاد راہ ستم کا آشنا تھا سبھی کے دل دکھا گیا حق گوئی، جرأت، اصولی موقف،اخلاقی اقدار، اسلامی معیار، درویش صفت سادگی کی بلندی کی انتہا، توکل اللہ، قناعت پسندی،حق پرستی، حق بات کہنا اور دٹ جانا، ایمان، تقوی، جہاد فی سبیل اللہ، طاغوتی طاقتوں کے سامنے سینہ سیر چٹان، امانت دیانت، شرافت، صداقت کا مینار نور، خشوع خضوع کے ساتھ ایسی اللہ کی عبادت کہ نظر آئے ولی اللہ، دنیاوی فائدے سے بے نیاز، دینی، دنیاوی علم کا چراغ راہ،الفاظ کی ادائیگی ایسی کہ دشمن پاکستان واسلام پر ہیبت طاری ہوتی کیفیت محسوس ہوتی، عالم اسلام مجاہدین اسلام، غلبہ دین کے پشتیبان و ترجمان، سیاست کا مثالی کردار ’’دئیے بہرسو جلا چلے ہم تم ان کو آگے جلائے رکھنا روایتیں کچھ چلا چلے ہم تم ان کو آگے چلائے رکھنا‘‘ مولاناسید ابو اعلیٰ مودودی، میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمدؒ کے بعد سید منور حسن رب کے حضور پیش روشنی تجھ پہ ابتلا ہے آج جو منور تھا بجھ گیا ہے آج سید منور حسن گوشہ جنت بنا مسکن،سید منور حسن ؒکیلئے اور بھی القابات کہے لکھے جائیں تو یہ سلسلہ نہ رکے تقوی کا یہ عالم کہ منصورہ میں 22 برس ایک کمرے میں گزارے ایک انٹرویو میں صحافی نے سوال کیا کہ منور صاحب آپ اپنے اثاثوں کے بارے میں بتائیں تو سید منور حسن نے لاجواب کر دیا کہا اثاثوں کا اعلان کرنے کے لیے پہلی شرط یہ ہونی چاہیے کہ اثاثے ہونے چاہیے لیکن میرے پاس کوئی اثاثہ نہیںجس مکان میں رہتا ہوں وہ میری اہلیہ کا ہے۔ الحمد اللہ بہت اچھی گزر بسر ہو رہی ہے دین اور دنیاداری الگ چیز نہیں ہے بلکہ دین دنیا کی زندگی سلیقے سے گزارنے کا نام ہے دنیاوی زندگی کو آخرت کی فکر پر بسر کرنے کی کوشش کی ہے الحمد اللہ آج ہر ذی شعور فرد یہ گواہی دے رہا ہے کہ سید منور حسن نے پوری زندگی اقامت دین کی جد وجہد میں گزاری ان کو دیکھ کر منہ سے بے ساختہ الفاظ نکلتے تھے کہ بندہ اللہ کا ولی دکھتا ہے ۔ (چوہدری فرحان شوکت ہنجرا)