"بادشاہ کا وزیر کون؟ جی حضور، جی حضور"۔ یہ ہمارے بچپن میں سب سے زیادہ مقبول کھیل کا مشہور فقرہ ہوا کرتا تھا، جسے ہم بچپن میں تو محض کھیل ہی گردانتے تھے لیکن جیسے ہی ہوش سنبھالا تو اقتدار کے ایوانوں کو اس کی زندہ جاوید مثال کے مصداق پایا۔ہر دور میں ہم نے دیکھا کہ حکومت خواہ کسی بھی جماعت کی کیوں نہ ہو، ہر صحیح، غلط، نیم صحیح، نیم غلط فیصلے پر ہمیں "جی حضور" کہنے والے سیاسی کردار ترقی کی منازل سرعت سے طے کرتے ہوئے دکھائی دیے۔ ان میں کچھ سیاسی وزیر ہوا کرتے تھے اور کچھ سیاسی مشیر۔ اب کے بہت دلچسپ صورتحال دیکھنے کو ملی۔الیکشن 2018 کی فاتح جماعت، پاکستان تحریک انصاف، جسے عمران خان نے اپنی بائیس سالہ کڑی جدوجہد سے سینچ کر، پال پوس کر بڑا کیا، اس میں پاکستان کی سیاسی روایت کے عین مطابق دیگر جماعتوں میں دہائیوں اقتدار کے مزے لوٹ چکنے والے "حادثاتی نظریاتی" اصحاب اچانک شامل ہوئے اور بہت سے نظریاتی طور پر عمران خان سے اتفاق کرنے والے محنتی لوگوں کو روندتے ہوئے وفاقی و صوبائی اسمبلیوں میں جا پہنچے۔یہ حادثہ شاید اتنا بڑا نہ ہوتا اگر عوام نے عمران خان کے تبدیلی کے نعرے سے آسمان کو چھوتی توقعات نہ وابستہ کر لی ہوتیں۔ لیکن خیر حکومت کی گاڑی جیسے تیسے کر کے چل ہی پڑی۔ اس گاڑی کا چل پڑنا کسی معجزے سے کم نہ تھا کیونکہ سابقہ ن لیگی حکومت ملک کو جس معاشی بحران کی گود میں پھینک کر چلتی بنی، اس سے پاکستان کا دیوالیہ ہوئے بغیر بخیر و عافیت سرخرو ہو کر نکل آنا کسی معجزے سے کم نہ تھا۔ البتہ یہ بات عوام کو سمجھانی مشکل ہی نہیں، ناممکن ٹھہری، کیونکہ قرضہ جات کی ادائیگی اور دیگر بڑے اقدامات جن کا اثر سیدھا پاکستانی معیشت کے بنیادی ڈھانچے کے برقرار رہنے کی صورت میں ماہرینِ معاشیات کو تو سمجھ آتا ہے لیکن عام آدمی جو تصور کیے بیٹھا تھا کہ عمران خان کے آتے ہی مہنگائی اڑنچھو ہو جائے گی اور آٹا، دال، چینی، گھی سب ایک دن میں سستا ہو جائے گا، ایسا نہ ہو سکا، نہ حکومت کا ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ پورا ہوتا دکھائی دیا۔لہٰذا اس نادر موقع کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمارے چند صحافی حضرات جو پچھلے بیس سال سے گزشتہ حکمران جماعتوں کا تقریبا ہر سیاہ کو سفید کر کے پیش کرنے کے عادی تھے، پچھلے دو سال سے اپنی ہی روایت کے منافی چل دیے۔ اب ہم کیا دیکھتے ہیں کہ اگر پیٹرول کی قیمت بڑھ جائے تو حکومت کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے اور اگر کم ہو جائے تو اس کا سہرا مارکیٹ فورسز کے سر کیا جاتا ہے۔حکومتی ترجمان بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں۔ وہ بھی ہر اچھے کام پر خود کو تھپکی دینا اور ہر برے کام کا ذمہ اپنے علاوہ ہر کسی کے کندھے ڈالنے میں ہی عافیت جانتے ہیں۔لیکن یہ تو سب معمول کی باتیں ہیں۔ اس ہفتے کا غیرمعمولی اور پریشان کن واقعہ یہ رہا کہ ہمارے چند نمایاں صحافی حضرات، جو کہ اکثر اپنے ٹیلی ویڑن پروگراموں میں نواز شریف صاحب اور زرداری صاحب کا کچھ اس ڈھنگ سے دفاع کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ مذکورہ بالا شخصیات بھی دنگ رہ جاتی ہیں، اب کے نواز شریف صاحب کی (ریاست مخالف) تقاریر پر پیمرا کی جانب سے عائد کردہ پابندی منسوخ کروانے اسلام آباد ہائی کورٹ جا پہنچے۔ ان درخواست گزاروں میں نجم سیٹھی، عاصمہ شیرازی، غریدہ فاروقی، منصور علی خان، دخترِ عاصمہ جہانگیر - منیزے جہانگیر، نسیم زہرہ (جنہوں نے بعد ازاں اپنا نام درخواست) سے خارج کروا لیا، شامل ہیں۔ذرائع کے مطابق یہ درخواست جمع کروانے کے لئے سابق وزیر اعظم، شاہد خاقان عباسی نے اسلام آباد کے ایک نجی ہوٹل میں ان صحافیوں سے ملاقات کر کے ان کو رضامند کیا۔ چند صحافیوں نے اس ملاقات کی فوراً تصدیق بھی کر دی۔ؒ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، جناب اطہر من اللہ صاحب نے کیس پر سماعت کرتے ہوئے کچھ ان الفاظ میں ان درخواست گزار صحافیوں اور عدالت میں موجود دیگر اشخاص کے مخاطب کیا۔"آپ ریلیف کس کے لئے مانگ رہے ہیں؟ پرویز مشرف کے کیس میں ساری چیزیں موجود ہیں۔ مشرف جب مفرور تھا تو عدالت نے ریلیف نہیں دیا. پیمرا آرڈیننس سیکشن31 اے کے تحت پیمرا نے نوٹیفکیشن جاری کیا۔ جو چینل یا جوفریق متاثر ہے ان کو چاہیے متعلقہ فورم جائے۔ آئین کا آرٹیکل 19 پڑھ لیں۔ نواز شریف کاسی این آئی سی اور پاسپورٹ بلاک کیا گیا ہے۔ یہ درخواست سادہ نہیں ہے، مفرور کی تشریح کر دیں۔ یہ عدالت کسی مفرور کو ریلیف نہیں دے سکتی۔ آپ نے یہ نہیں سوچا ،ریلیف جتنے بھی مفرور ہیں سب کیلئے ہوگا؟ مفرور کو عدالتوں پر اعتماد کرنا ہوگا۔ پیمرا نوٹیفکیشن غیر قانونی ہو تو کسی مفرور کی درخواست پرریلیف نہیں دے سکتے۔" درخواست میں سیکریٹری اطلاعات، چیئرمین اور جی ایم پیمرا کو فریق بنایا گیا اور عدالت نے سماعت 16 دسمبر تک ملتوی کردی۔یہاں غور طلب دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ ان چند مخصوص صحافیوں نے قانون کے درست اطلاق کے خلاف جو پٹیشن نواز شریف صاحب کی محبت میں "آزادی اظہار" کے لبادے میں دائر کی ہے، وہ اب تک ن لیگ نے خود، بحیثیت ایک سیاسی جماعت بھی اپنے لیڈر کے لئے دائر نہیں کی۔اس سے عوام میں یہ تاثر جانا غلط نہ ہو گا کہ یہ صحافت کم، شریف خاندان کی خدمت زیادہ ہو رہی ہے۔ اور خدمت بھی وہ جو ان کی اپنی جماعت اصولی اختلاف کی بنیاد پر کرنے سے کترا رہی ہے۔یہ بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے کہ ہم سب صحافیوں اور تجزیہ نگاروں کے لئے کہ ہم قومی وقار کے امین ہونے کی بجائے اس وقار کی دھجیاں اڑانے والے اور قانون سے چھپ کر عدالت سے مفرور شخص کے خدمت گزار آخر کیوں بن رہے ہیں؟ کتنی شرم کی بات ہے کہ بحیثیت صحافی، ہمارے یہ ساتھی نواز شریف کو پاکستان واپس آ کر قانون کا سامنا کرنے کی تلقین کرنے کی بجائے ان کے لندن بیٹھ کر پاکستانی ریاست اور قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف زہر آلود تقاریر نشر نہ کیے جانے پر رنجیدہ ہیں۔ کمال ہے۔ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے صاحب۔ نجانے انجام گلستاں کیا ہو گا۔ یہ "بادشاہ کا وزیر کون" کی سی صحافت کی عجیب و غریب صورتحال دیکھ کر پورا ملک حیران پریشان ہے کہ آخر یہ چند صحافیوں کا گروہ، جو اپنی من مرضی کے مطابق ہر خبر پر بلاجھجک اپنا بیلاگ تبصرہ دیتا ہے اور اس پر پورے ملک میں بحث مباحثہ بھی ہوتا رہتا ہے، کون سی آزادی سے محروم ہے؟ صحافتی اقدار کی جو پامالی ہم نے گزشتہ دو سال میں دیکھی، اس کی نظیر پاکستان کی 73 سالہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ امید ہے بہتر وقت ہمارا منتظر ہے اور پاکستان میں صحافت اپنے حقیقی روپ میں واپس ضرور آئے گی انشااللہ۔ جب ریاست کا تحفظ اور پاکستان کا بیانیہ ہر صحافی کی اولین ترجیح ہو گا۔ کہ دنیا بھی اسی ملک کی عزت کرتی ہے جو خود اپنی عزت کرنا اور کروانا جانتا ہو۔ پاکستان زندہ باد!