وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کورونا پھیلنے کی وجہ سے موجودہ نظام صحت پر دبائو بڑھا ہے۔ کورونا کا پھیلائو یوں ہی جاری رہا تو صحت کا نظام بے قابو ہو سکتا ہے۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ کورونا ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت میں کئی گنا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت ہسپتالوں کو براہ راست سامان فراہم کرے گی۔ پاکستان میں کورونا کی وبا نے محکمہ صحت کی استعداد کار کی قلعی کھول دی ہے۔26جنوری کے بعد جب پاکستان میں پہلا کیس سامنے آیا تو حکومت نے ملک بھر کے ہسپتالوں میں کورونا وائرس کے مریضوں کی اشد ضرورت وینٹی لیٹرز کا حساب کتاب لگانا شروع کیا۔ انکشاف ہوا کہ 22کروڑ کی آبادی کے لئے جو 24سو کے لگ بھگ وینٹی لیٹرز موجود ہیں ان میں سے بھی 40فیصد استعمال کے قابل نہیں۔ اس طرح کورونا وائرس کے حملے کے بعد ہی حکومت کو احساس ہوا کہ محکمہ صحت کے پاس موذی امراض کے علاج کے دوران ڈاکٹروں کو حفاظتی کٹس کے استعمال کا انتظام نہیں ۔ پوری دنیا میں انفیکشن کے علاج کے دوران طبی عملے کو حفاظتی سامان فراہم کیا جاتا ہے تاکہ بیماروں کے علاج پر مامور میڈیکل سٹاف کی زندگیوں کو محفوظ بنایا جا سکے ۔اس سے مفر نہیں کہ کورونا وائرس کا دنیا بھر میں پھیلائو اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ کورونا سے پہلے بھی اسی قسم کی بیماریاں موجود رہی ہیں اور ان کا علاج بھی کیا جاتا رہا ہے جن میں سب سے بڑی بیماری تپ دق ہے جو کورونا کی طرح ایک مریض سے دوسرے مریض اور مریض کے لواحقین کو متاثر کرتی ہے‘ پاکستان میں نہ صرف بڑے ٹیچنگ ہسپتالوں بلکہ ضلع اور تحصیل کی سطح پر انسداد تپ دق سنٹرز موجود ہیں جہاں عملہ بغیر حفاظتی اقدامات کے فرائض انجام دیتا رہا ہے۔ اسی طرح دیگر انفیکشن کا بھی معاملہ مختلف نہیں۔ بدقسمتی سے ماضی کی حکومتوں نے اگر اس حوالے سے کوئی اقدامات کئے بھی تو وہ حفاظتی اقدامات کے بجائے ان شعبوں میں کام کرنے والے سٹاف کو اضافی الائونس تک ہی محدود رہے حالانکہ اضافی الائونس کسی لحاظ سے بھی سٹاف کو لاحق انفیکشن کے خطرات کا مداوا نہیں ہو سکتا تھا۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہیں کہ بدقسمتی سے صحت کا شعبہ کبھی بھی ہماری حکومتوں کی اولین ترجیح نہیں رہا۔ ماضی میں حکومت نے اگر محکمہ صحت کے بجٹ میں اضافہ بھی کیا تو محکمہ صحت کی بیورو کریسی نے اللوں تللوں میں اڑا دیا ۔آڈیٹر جنرل کی ایک رپورٹ کے مطابق محکمہ صحت میں 28ارب 55کروڑ کی بدعنوانی کا انکشاف اس کا ثبوت ہے۔ جہاں تک محکمہ صحت کی استعداد کار بڑھانے کا تعلق ہے تو ماضی میں پرویز الہٰی کی حکومت میں صوبائی دارالحکومت کے بڑے ہسپتالوں میں نئے بلاکس بنائے گئے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ میو ہسپتال کا سرجیکل ٹاور شہباز شریف کے دس سالہ دور میں مکمل نہ ہو سکا۔ کورونا وائرس کے عالمی سطح پر پھیلائو کے بعد ہمیں احساس ہوا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں وبائی امراض کے علاج کے دوران میڈیکل سٹاف کو پرنسپل پروٹیکشن کٹس PPEفراہم کی جاتی ہیں۔ پاکستان میں اس حوالے سے سوچ بچار شروع ہوا تاہم اس دوران کورونا سے متاثر مریضوں کا علاج ہمارے ڈاکٹر بغیر حفاظتی کٹس کے کرتے رہے ۔ پاکستان میں ڈاکٹر کی شہادت کے بعد حکومتی حلقوں نے پی پی ای کے حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا اور وبائی امراض کے لیے چین اور دوست ممالک سے حفاظتی لباس حاصل کیا گیا۔ اس کے علاوہ قابل توجہ امر یہ بھی ہے کہ پاکستان میں پی سی آر کی سہولت بھی گنتی کے چند اداروں تک محدود تھی۔ جب کورونا کے مریض آنا شروع ہوئے تو اس حوالے سے استعداد کار بڑھانے کی طرف توجہ دی گئی۔ اس سے انکار نہیں کہ موجودہ حکومت اس استعداد کار کو بڑھانے کے لئے نہ صرف مسلسل کوشش کر رہی ہے بلکہ پاکستان میں صحت کے شعبے کی استعداد کار بڑھانے کے لئے فیلڈ ہسپتال بھی بنائے جا رہے ہیں۔ کراچی اور لاہور کے ایکسپو سنٹرز میں ہزار بیڈز پر مشتمل عارضی ہسپتال اس کی مثال ہے۔ بہتر ہو گا حکومت عارضی ہسپتالوں کے ساتھ ملک بھر میں مستقل ٹیچنگ ہسپتال بنانے کے لئے بھی پالیسی مرتب کرے تاکہ عارضی بنیادوں کے ساتھ شعبہ صحت کی استعداد کار بڑھانے کے لئے بنیادی ڈھانچہ تشکیل دے کر مستقل بنیادوں پر اس قسم کے ہنگامی حالات کا مقابلہ کیا جا سکے۔صحت کا شعبہ چند ستونوں پر استوار ہے۔ تربیت یافتہ افرادی قوت‘ انفارمیشن اور ڈیٹا سسٹم اور پبلک ہیلتھ لیبارٹریز۔ نظام یہ امر یقینی بناتا ہے کہ افرادی قوت ‘ ڈیٹا سسٹم اور لیبارٹریاں کسی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لئے ہر وقت تیار ہوں۔ صحت کی ضروری خدمات کے ضمن میں ہیلتھ انفراسٹرکچر کو اس لئے بنیادی اہمیت حاصل ہے کہ اس سے صحت کے مسائل کو حل کرنے کی منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں کئی برسوں سے ڈینگی کی وبا موجود ہے۔ ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ صحت کے ڈھانچے میں اس وبا کو کنٹرول کرنے کے لئے تسلی بخش نظام تشکیل دیا جاتا لیکن سابق حکومت نے اسے عارضی اور نمائشی اقدامات کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کی۔ آٹھ برسوں میں ڈینگی کی وبا کو ختم کرنے کے لئے جو رقم خرچ ہوئی اسے جمع کریں تو بہت سارے مستقل انتظامات کئے جا سکتے تھے۔ شہباز شریف بطور اپوزیشن کورونا وائرس سے نمٹنے کے لئے ان دنوں جو تجاویز پیش کر رہے ہیں وہ ان کی ماضی کی پالیسی کا عکس ہے جس کے اطمینان بخش نتائج برآمد ہونے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ان حالات میں حکومت صحت کے شعبہ میں زیر استعمال ٹیکنالوجی میں خود کفالت پر توجہ دے تو صورت حال میں حوصلہ افزا تبدیلی رونما ہو سکتی ہے۔