اس بات میں بھلا کسے شک ہو سکتا ہے کہ لفظ نبی کے ایک معنی، خبر دینے والے کے بھی ہیں۔ ہمیں علم ہونا چاہیے کہ یہ خبر ایک سطح میں علم کے درجے پہ فائز ہے، دوسری سطح پہ خدمت کی خوب صورتی کا عکس ہے اور تیسری سطح پہ امانت کی ہم مقام ہے۔گویا حق گوئی کے ساتھ خبر کی ترسیل ایک پیغمبرانہ پیشہ ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ نبیوں کی معلومات کا منبع اور سلسلہ آسمانی تھا لیکن مقصد، اور فریضہ عین مین یہی تھا: لا علم، گم راہ اور سرکش لوگوںتک علم اور درست معلومات پہنچانا، راہنمائی کرنا، نہ ماننے والوں اور من مرضی کرنے والوں کو ان کے انجام سے ڈرانا… تاریخ گواہ ہے کہ خبر، علم اور آگاہی کے ضمن میں کسی قسم کی مصلحت، جانب داری یا مشکل حالات سے گھبرا کر بات چھپانے، بدلنے یا خاص لوگوں کے لیے رُو رعایت کی گنجائش پیغمبروں کے لیے بھی نہیں تھی۔ اس سلسلے میں انھیں کیسی کیسی کٹھنائیوں سے بھی گزرنا پڑا ۔ کون سا ظلم ہے جو اُن پر روا نہیں رکھا گیا،بائیکاٹ، ہجرت، تنگ دستی، مشقت اور جنگ و جدل کا زمانہ تو تقریباً سب پہ گزرا ۔ تھوڑی سی مصلحت پسندی، کسی حد تک نرم موقف اور زمانی و زمینی سمجھوتے کے عوض انھیں دنیا کی کس کس قسم کی آسائش کا لالچ نہیں دیا گیا، لیکن مجال ہے جو کبھی ان کے پائے استقامت میں لغزش آئی ہو۔ اب رہا صحافت کا معاملہ… اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ لفظ بھی سو فی صد صحیفہ سے مشتق ہے۔اگرچہ اس کی جولان گاہ سراسر زمینی ہے لیکن تعلق تو اس کا بھی خبر، علم اور آگاہی کے ساتھ ہے۔گم راہی اور ذاتی مفادات کی مصلحت تو دونوں کے لیے زہرِ قاتل ہے۔سب سے بڑی عدالت تو ضمیر کی ہوتی ہے۔ یاد رکھیں مقبول ہونے سے معقول ہونا کہیں بہتر ہے۔ شہرت تو شیطان کے گھر کی باندی ہے اور معقولیت پیغمبروں اور عالموں کی محنت سے روشن کی گئی قندیل۔ اگر آپ نے اپنے شوق سے یہ پیشہ اختیار کیا ہے، تو اس میں پیش آنے والی مشکلات، آفات اور کٹھن حالات کا بھی آپ کو اندازہ ہونا چاہیے اور اگر کسی نے آپ کو اس دریا میں دھکا دیا ہے تو بھی کسی آسان راستے کی جانب لوٹ جانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ میرزا اسداللہ خاں غالب کا کتنا معقول مشورہ ہے: ع جس کو ہو دین و دل عزیز، اُس کی گلی میں جائے کیوں؟ جاننے والے جانتے ہیں کہ معلوم تاریخ میں غلط خبر ، جھوٹی اطلاع یا آج کی زبان میں ڈِس انفرمیشن کا سلسلہ ابلیس سے شروع ہوا تھا، جب اس نے اپنے بعض مکروہ اور مذموم مقاصد کی خاطر آدم و حوّاؑ کے سامنے شجرِ ممنوعہ سے متعلق غلط رپورٹنگ کی تھی۔اس لیے ہمیں آج بھی یہ بات سمجھنے میں دشواری نہیں ہونی چاہیے کہ صحافت کی دنیا میں اپنی چند گھٹیا قسم کی ذاتی یا مالی اغراض کو قبلہ بنا کر غلط پروپیگنڈہ کرنے، کسی بھی قسم کے افراد کو بلیک میل کرنے یا ابنِ آدم کو گم راہ کرنے والے در اصل شیطان کے پیرو کار ہیں۔انھوں نے عبادت کو چھوڑ کے امارت کی راہ اختیار کی ہے۔وہ نبیوں کی سنت پہ عمل پیرا ہونے کی بجائے شداد اور قارون کے راستے پر چل نکلے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب صحافی کو لوگ قبلہ نما سمجھتے تھے۔ اخبار میں چھپی ہوئی خبر، کالم، اداریے، انٹرویو، تبصرے، تجزیے، فیچر کا ہر سطح پہ نوٹس لیا جاتا تھا۔ آپ ذرا برِ عظیم پاک و ہند میں آزادی کی تحریک میں دشمنوں سے چومکھی لڑنے والے ظفر علی خاں ، اور حسرت موہانی کی زندگیوں پہ نظر کر لیں، اپنے محدود ترین وسائل میں انھوں نے صحافت کو کس انداز سے سرخرو کیا۔ مخالفین کی جانب سے ان پہ کون کون سا ظلم روا نہیں رکھا گیا؟قید و بند، اخبار بند نیززبان بند رکھنے کے لیے جلاؤ، گھیراؤ کے علاوہ کس کس لالچ اور دھمکی کا سہارا نہیں لیا گیا لیکن ادھر سے اسی طرح کی صدائیں اور ادائیں جاری رہیں: ہے مشقِ سخن جاری ، چکی کی مشقت بھی اِک طُرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی اچھا ہے اہلِ جَور کیے جائیں سختیاں پھیلے گی یوں ہی شورشِ حُبِ وطن تمام میرے اس لیڈر پر ہے فضلِ الہٰی اس قدر نقطہ نقطہ ، شوشہ شوشہ ، نذرِ سنسر ہو گیا پھر مولانا غلام رسول مہر اور عبدالمجید سالک کے ’انقلاب‘ کو دیکھ لیں۔ چراغ حسن حسرت، شورش کاشمیری، فیض احمد فیض، ابنِ انشا، مجید لاہوری، نصراللہ خاں عزیز، سید ضمیر جعفری اور احمد بشیر وغیرہ پہ نظر کر لیں، ان سب کے ہاں یہی صحافت بی بی، شرافت، نجابت، صداقت اور استقامت کا لبادہ اوڑھے دکھائی دیتی ہے۔ یہ وہ قلم کار تھے، جو حق اور سچ کو دیگر ہر چیز پر فوقیت دیتے تھے۔ ان لوگوں میں ایک اضافی صفت ان کی علمی ریاضت اور ادبی تربیت تھی۔ یقین جانیں آج بھی اس اخبار کو جوائن کرنے کی ایک بنیادی وجہ اس کی معقول اور متناسب صحافتی پالیسی اور دوسرے اس کے کالم نگاروں میں جناب اوریا مقبول جان، جناب ارشاد عارف، جناب عارف نظامی، جناب ہارون رشید، جناب سجاد میر، جناب مظفر بخاری جیسے دبنگ اور ادبی تربیت کے حامل قلم کار ہیں۔پھر برادرم اشرف شریف ہیں، جو فیس بک پہ اپنی تن سازی اور پہلوانی والی تصاویر سے لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، حالانکہ وہ صحافت کی دنیا کے پہلوان ہیں۔ ادبی لگاؤ نے ان کی شخصیت میں ایک خاص قسم کا رچاؤ پیدا کر رکھا ہے۔ اس شعبے میں ایک بدقسمتی یہ ہوئی کہ بعض لوگوں نے رزق کو کام پہ فوقیت دینا شروع کر دی۔ سچ بات یہی ہے کہ اس مالی چمک دمک نے سب سے زیادہ نقصان عدلیہ اور صحافت کو پہنچا۔ لوگوں کا ان با وقار اداروں سے اعتبار اٹھ گیا۔ادب اور صحافت پہ اب سرِ عام "Bitches of the Riches" جیسی پھبتیاں کسی جا رہی ہیں۔ سیاسی ٹاک شوز کو لوگ ’’رِچھ کتے دی لڑائی‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پہ ہر روز اس طرح کی پوسٹیں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ: ’’ گاہک امیر ہو اور منھ مانگی قیمت دے تو طوائف چھٹی والے دن بھی ناچتی ہے۔‘‘ ہمارا ادب اور صحافت سے بہت پرانا رشتہ ہے۔ ہر وقت کوشش اور دعا رہتی ہے کہ کوئی لفظ یا جملہ ذاتی تشہیر، بلا وجہ مخالفت یا کسی کی ایما اورترغیب کی بنا پر قلم سے نہ نکلے۔