نام تھا اس کا نوید بٹ، آجکل کے کئی صحافیوں کی طرح کوئی،، خوبی،، ایسی نہ تھی جو اس میں موجود نہ ہو، رپورٹنگ میں آتے ہی اسے استاد مل گیا روزنامہ مشرق کا سینئیر کرائم رپورٹر افتخار مرزا، ایک ایسا ماسٹر کرائم رپورٹر جس نے لاہور پولیس کو اسکی عوام دشمنی اور،، کارکردگی،،،کو پریس کی نظروں سے اوجھل رکھنے کیلئے شہر کے کئی دوسرے کرائم رپورٹرز کی ساری خامیوں اور خرابیوں سے آگاہ کر دیا تھا، نوید بٹ زیادہ پڑھا لکھا تو نہیں تھا لیکن تھا بلا کا چالاک، ہوشیار ، وہ کئی سال تک مساوات سے بھی وابستہ رہا، پتہ نہیں کیسے،، فرنٹیئر پوسٹ، کا مقامی چیف بھی بن گیا تھا، صحافت شروع کی اس نے روزنامہ ، مغربی پاکستان، سے ، اس اخبار میں نوکری کے لئے کسی پرمٹ یااپوائنٹمنٹ لیٹر کی ضرورت نہیں ہوا کرتی تھی ، آپ جائیں اور خود اپنی مرضی کا عہدہ چن لیں، اسی اخبار کا ایک ویکلی رسالہ بھی تھا،،اجالا،، ایک دور میں یہ رسالہ ہر اسٹال پر نظر آتا تھا، نوید بٹ کرائم رپورٹنگ کے ساتھ اس فلمی جریدے کا ایڈیٹر بھی بنا رہا، نوید بٹ نے اغا شورش کاشمیری کی کتاب،اس بازارمیں،،کے کسی کردار جیسی ایک لڑکی کی تصویر رسالے کے ٹائٹل پر چھاپی، پھر اس لڑکی کے گھر ٹیلی فون لگوایا، اس دور میں پی ٹی سی ایل کا کنکشن لینے کے لئے کئی کئی سال لگ جاتے تھے، ایک دن اس لڑکی سے لڑائی ہو گئی تو اس نے اسی گلی کے دوسرے گھر یہ کنکشن ٹرانسفر کرا دیا، بتانے والے بتاتے تھے کہ اس فون نے درجن سے زیادہ گھروں کا طواف کیا تھا۔ ٭٭٭٭٭ انیس سو تہتر میں میرا پہلا باضابطہ واسطہ اس سے پڑا کراچی مساوات میں،اس کی ساری حرکتوں سمیت ایک رات اس نے مجھے ڈنر کی دعوت دی اور ہوٹل پہنچ کر مجھ سے سو روپے ادھار مانگ لئے، ساڑھے چار سو روپے تنخواہ تھی میری، مہینے کا آخری ہفتہ تھا اور میرے پاس یہی آخری پونجی تھی، اس نے سو روپے یہ کہہ کر لئے کہ اگلے روز واپس کر دے گا ، اگلے دن میں آفس میں اس کا منتظر رہا ، رات ہوگئی وہ نہ آیا، پوچھ گچھ کی تو پتہ چلا ، وہ تو لاہور پہنچ چکا ہوگا، وہ اپنا تبادلہ کرا چکا تھا اور میں لا علم تھا۔ کئی سال بعد میرے ساتھ دوسری واردات نوید بٹ نے کی جب وہ فرنٹئیر پوسٹ آفس کا ہیڈ اور میں پنجاب یونین آف جرنلسٹس کا صدر تھا،مارشل لاء والے مجھ سے زیادہ ہی ناراض تھے، رحمت خان آفریدی میرے بہت معتقد تھے ، انہوں نے مجھے کوئینز روڈ والے آفس میں یونین کے لئے کمرہ دے رکھا تھا،لاہور میں بی ڈی ایم ہونا تھا، پی یو جے میزبان تھی، مختلف صوبوں اور شہروں سے آنیوالے سو ڈیڑھ سو صحافیوں کو ہوٹلوں میں ٹھہرانے، ان کے کھانے پینے اور گاڑیوں کا انتظام ہمارے ذمہ تھا، میں ذاتی طور پر یونین کے لئے چندہ لینے کا مخالف رہا ہوں سوائے ارکان سے ہر ماہ باقاعدگی سے فیس جمع کرنے کے، نوید بٹ نے میری پریشانی دیکھ کر پوچھا کہ کتنے پیسوں کی ضرورت پڑے گی؟ پچاس ہزار سے زیادہ کی، چاہتا ہوں کہ کوئی ایک دوست ساری ذمہ داری اٹھا لے، اگلے دن نوید بٹ نے مجھے 25ہزار روپے دیے اور کہا کہ باقی انتظام بھی ہوجائے گا، میرا بوجھ ہلکا ہو گیا ، اسی شام میں گنگا رام اسپتال کے قریب کھڑا تھا، کہ ایک دیرینہ دوست نے گاڑی میرے قریب روکی، پیسے مل گئے؟اس دوست کا سوال تھا۔کون سے پیسے؟ نوید بٹ نے بتایا تھا کہ آپ کو پچاس ہزار چاہئیں، میں نے بھجوا دیے تھے۔ جب مساوات کا دفتر بھاٹی سے منٹگمری روڈ منتقل ہوا تو وہاں ایک لڑکی ٹیلی فون آپریٹر بھرتی ہوئی، اسے زیادہ دیر نہ لگی ایڈجسٹ ہونے میں، دفتروں میں کام کرنے والے سب لوگوں کے سارے کھاتے کھلے ہوتے ہیں آپریٹروں کے پاس ، وہ کئی ملازمین کے گہرے راز جان چکی تھی ، آپریٹرز کا کیبن سیڑھیوں کے نیچے تھا، سب لوگ اس کے سامنے سے گزر کر اوپر جایا کرتے تھے، پھر ایک رات پتہ چلا کہ نوید بٹ اور اس لڑکی نے شادی کر لی ہے۔ نوید بٹ ان دنوں ایک،، بااثر، صحافی تھا، پھرسنا گیا کہ نوید بٹ باپ بن گیا ہے، نوید بٹ نے نیا مکان بھی خرید لیا ہے، کچھ ہی عرصہ بعد لڑکی نے طلاق لے کر نوید بٹ کے ہی ایک دوست سے شادی کر لی ،، پھر اس آدمی کو بھی چھوڑ کر نوید بٹ سے دوبارہ نکاح کر لیا ،اس کے بعد یہ لوگ کینیڈا ۔شفٹ ہوگئے۔ انیس سو پچانوے میں ایک دن نوید بٹ لٹا پٹا اچانک میرے گھر آگیا، وہ نوکری کی تلاش میں تھا، میں نے ٹالنے کی بہت کوششیں کی لیکن اس نے روزانہ سہ پہر آنا معمول بنا لیا ، میرے لئے اس سے جان چھڑانا مشکل ہو رہا تھا ، آفس جانے کا وقت ہوتا تھا، میں اس کے سامنے تیار ہوتا ،پھر گاڑی میں اسے کہیں راستے میں ڈراپ کرتا، عجیب مشکل آن پڑی تھی مجھ پر، ایک دن خلاف معمول ہم گھر سے نکلے، راستے میں بھی کوئی مکالمہ نہ ہوا۔ اس کے بعد وہ مجھے کبھی نہیں ملا ٭٭٭٭٭ میں نے پاکستان ٹائمزکے معروف صحافی ضیاء الحق کی بھر پور معاونت سے کلاسیک اسٹل فوٹو گرافر چاچا ایف ای چوہدری کی 104ویں سالگرہ کا اہتمام کر رکھا تھا، بات کر رہا ہوں مارچ دو ہزار تیرہ کی، تقریب پندرہ تاریخ کو کاسمو پولیٹن کلب کے لان میں منعقد ہونا تھی،عین تقریب والے دن چار گھنٹے پہلے ایف ای چوہدری کے انتقال کی خبر آگئی، جب میں اس سالگرہ کا پروگرام بنا رہا تھا تو یہ خیال آیا تھا کہ کہیں چاچا کو کسی کی نظر نہ لگ جائے، میں نے اپنے دوست حمید قریشی کی ڈیوٹی لگا رکھی تھی کہ ایک بڑا کیک تیار کرایا جائے جس پر چاچا کا نام اور 104کا ہندسہ نمایاں ہو ، کیک ہم نے ایک بجے دوپہر وصول کرنا تھا، تمام مہمان چاچا کے لئے گلدستے لانے والے تھے ، جنہیں میں نے دعوت دی تھی ان میں رحمان صاحب ،حسین نقی صاحب ،عباس اطہر صاحب، منو بھائی ، عظیم قریشی، اورنگ زیب اور سہیل وڑائچ، بھی شامل تھے، چاچا نے خود جن دوستوں کو خود بلایا تھا ان میں جسٹس محمود مرزا ،خالد بٹ اوران کے کئی دوسرے پاٹے پرانے ساتھی تھے، چاچا ایف ای چوہدری اس تقریب کے لئے بہت پرجوش تھے، انہوں نے اپنے ہاتھ سے اپنا بائیو ڈیٹا لکھا تھا، چاچا نے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے بینر تلے صحافت اور صحافیوں کے لئے بہت کام کیا، 1909 میں سہارنپور میں پیدا ہونے والے ایف ای چوہدری 1973 میں پاکستان ٹائمز سے ریٹائرڈ ہوچکے تھے لیکن مرنے تک سب کی آنکھوں کا تارہ رہے، صحافت شروع کی قیام پاکستان سے پہلے سول اینڈ ملٹری گزٹ سے، لاہور میں شہید گنج موومنٹ کے دوران انہیں قائد اعظم کی تصویریں بنانے کا اعزاز بھی ملا، چاچا کی وفات سے کئی سال پہلے ایک دن میں نے انہیں فون کیا کہ ان کا انٹر ویو کرنا چاہتا ہوں، وہ مان گئے، ان دنوں وہ مزنگ چونگی والے قدیمی گھر میں اکیلے رہ رہے تھے، گھر پہنچا تو وہ کمرے میں تاریخی تصویریں بکھیرے بیٹھے تھے، چاچا نے کہا، چلو، صحن میں چلتے ہیں، کچھ دیر بعد مجھے پیاس لگی تو ان کے باورچی خانے میں جا کر فرج کھول لی ، وہاں سادہ پانی اور کھانے پینے کی دوسری اشیاء کے ساتھ کوئی غیر ملکی میٹھا مشروب بھی موجود تھا، میں نے ٹیسٹ کیا، مزیدار تھا، پھر کیا تھا، میں ہر دس منٹ بعد چاچا سے باتیں کرتا کرتا اٹھتا اور باورچی خانے میں گھس جاتا، دماغ میں آیا بھی کہ چاچا کیا کہے گا ، دل نے کہا،، چاچے بھتیجوں کو کچھ نہیں کہا کرتے۔