کشور ناہید کے نام کے ساتھ محترمہ لکھتے ہوئے بھی ڈر لگتاہے،اردو ادب کی اس لیونگ لیجنڈ کی اردو ادب کیلئے بہت خدمات ہیں،جب تک ہمت رہی ادب و ثقافت کے میدان میں اپنی تحریروں اور شاعری کے پھول برساتی رہیں، اب بھی کالم لکھ رہی ہیں ،کشور ناہید کو ہر کریڈٹ دیا جا سکتا ہے، سوائے عورت ہونے کا طعنہ دینے کے، مجھے منیر نیازی مرحوم نے ایڈوائس کیا تھا کہ جب بھی کشور سے ملو،اسے مرد سمجھ کر ملنا ورنہ کوئی سانحہ بھی وقوع پذیر ہو سکتا ہے۔ اللہ انہیں صحت مند اور سلامت رکھے۔فیض صاحب سے فراز تک اور قتیل شفائی سے منیر نیازی تک کشور ناہید نے سب سے خوب نبھائی دوسروں کا احترام کیا اور اپنا احترام کرایا۔ سرکاری نوکری لیفٹ کے دانشوروں، شاعروں اور ادیبوں کو بہت مرغوب رہی ہے(قتیل شفائی اور منیر نیازی کو چھوڑ کے، کیونکہ دونوں کے پاس کوئی ڈگری نہ تھی)فیض اور فراز ہی نہیں، باری علیگ جیسا ادیب بھی‘کمپنی حکومت، جیسی پاپولر کتاب لکھنے کے باوجود کمپنی حکومت کا ملازم رہا ، ،سرکاری نوکری آپ کے افکار و نظریات سے میل کھاتی ہے یا نہیں اور آپ کو کہاں کہاں کمپرومائز کرنا پڑتے ہیں؟ اس بھاری موضوع پر کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ٭٭٭٭٭ جنرل ضیا ء کے دور میں پاکستانی سینماؤں میں بھارتی فلم نور جہاں کی نمائش پر بہت احتجاج ہوا تھا، ایکٹروں ایکٹرسوں سمیت ساری فلم انڈسٹری سڑکوں پر تھی، ضیاء الحق کی بیگم پارہ اور شیخ مختار سے رشتے داری تھی یا دوستانہ، یہ تو علم نہیں، بس وہ اس تعلق کو نبھانے کی ضد کر بیٹھے تھے۔فلم نور جہاں کی نمائش کے خلاف فلم انڈسٹری کی تحریک کی قیادت اداکار یوسف خان کر رہے تھے حالانکہ وہ بنیادی طور پر جماعت اسلامی اور جنرل ضیاء کے نظریات کے حامی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے کٹر مخالف تھے۔ میرے دماغ میں ایک آئیڈیا آیا ، شرارتی آئیڈیا، میں پہنچا نیشنل سنٹر میں جو الفلاح بلڈنگ کی شاید دوسری منزل پر قائم تھا، یہاں لائبریری کے ساتھ بحث مباحثوں کے لئے ایک ہال بھی بنا ہوا تھا،اس لائبریری سے ایک بار میں نے اپنے والد کے کہنے پر کتاب ’’مرثیہ انیس’’ایشو کرائی تھی‘‘کشور ناہید نیشنل سنٹر کی ڈائریکٹر تھیں، میں ان سے ملا اور نعیم ہاشمی صاحب کی یاد میں تقریب کے نام پر نیشنل سنٹر ہال کی بکنگ کیلئے درخواست کی۔ کشور ناہید نے بکنگ کنفرم کردی، پھر میں پہنچا ایور نیو اسٹوڈیو کے باہر لگے ہوئے فلم نگر کے احتجاجی کیمپ میں ، وہاں یوسف خان ملے تو انہیں بتایا کہ ان کے احتجاجی جلسے کے لئے میں نے ایک سرکاری ہال بک کرا لیا ہے، اگر وہ لوگ وہاں پہنچ کر تقاریر کریں گے تو ان کی آواز موثر انداز میں فوجی جنتا تک پہنچ سکے گی۔ یوسف خان آمادہ ہو گئے اور میرا شکریہ بھی ادا کیا، دو دن بعد فلم انڈسٹری کے تمام چھوٹے بڑے نیشنل سنٹر کے ہال میں پہنچ چکے تھے، ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، اسٹیج پر ایورریڈی پکچرز کے نسیم صاحب، ڈائریکٹر ، فرید احمد، لئیق اختر، سنگیتا، یوسف خان اور شاعر کلیم عثمانی کے ہمراہ میں بھی براجمان ہوگیا تھا، میری نشست یوسف خان کے ساتھ تھی، ضیاء الحق کے خلاف تقریریں شروع ہوئیں تو کشور ناہید اپنے کمرے سے باہر نکل آئیں اور ہال کے درمیان میں آن کھڑی ہوئیں، وہ کہہ رہی تھیں،، یہ سرکاری ادارہ ہے، یہاں اس قسم کی تقریریں کر نے کی اجازت نہیں، یوسف خان اپنے مخصوص انداز میں انتہائی غصے میں بل کھاتے ہوئے کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے، کون ہو تم ؟ میں نے سرعت سے یوسف خان کے کان میں سرگوشی کی، یہ سرکاری افسر ہیں اور اس ہال کی انچارج بھی۔ آپ خاموش رہیں وہ خود ہی چلی جائیں گی، اب کشور ناہید نے مجھے مخاطب کیا، تم نے تو کہا تھا نعیم ہاشمی صاحب کی یاد میں تقریب ہے، یہاں حکومت کے خلاف جلسہ کرا دیا تم نے۔ یوسف خان نے پھربرا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ مگر قدرے آہستگی سے۔ ایک طرف کشور ناہید اپنی ڈیوٹی کر رہی تھیں اور دوسری جانب یوسف خان۔ میں یوسف خان کیساتھ بیٹھا ہی اسی لئے تھا، کیونکہ جانتا تھا کہ یہاں ہوگا کیا؟ فلم انڈسٹری کا ضیاء الحق کے خلاف یہ احتجاجی جلسہ بہت کامیاب رہا تھا۔ ٭٭٭٭٭ عمران خان کی حکومت نے نہ صرف اخبارات اور نیوز چینلز کے اشتہارات بند کئے، بلکہ اشتہارات کی مد میں پچھلی حکومت کے واجب ادا بقایاجات بھی ابھی تک ادا نہیں کئے، اس فیصلے کی آڑ میں بڑے چھوٹے کئی میڈیا ہاؤسز نے صحافیوں،اینکرز اور دیگر کارکنوں کو بڑی تعداد میں فارغ کر دیا، اتنا بڑا معاشی بحران ماضی کی کسی جمہوری حکومت میں نہیں دیکھا گیا، اس مسئلے کا کوئی مؤثر حل ضروری ہے ،کیونکہ بے روزگار کئے گئے میڈیا ورکرز میں زیادہ تعداد ان کی ہے جن کے پاس گھر چلانے کیلئے کسی قسم کے بھی اثاثے نہیں۔انہیں کوئی دوسرا کام بھی نہیں آتا، ہرمتاثرہ میڈیا ورکر کے گھر کی جو کہانی ہوگی میں اس سے پوری طرح واقف ہوں، میرے آج کے کالم کے صحافیوں کا تعلق بہرحال ان متاثرہ صحافیوں سے نہیں۔ ٭٭٭٭٭ تحریک آزادی صحافت کے دوران ہم حیدر آباد جیل کی اس بیرک میں بند تھے جو بھٹو صاحب نے مبینہ اگر تلہ سازش کیس کے ملزموں کے لئے بنوائی تھی،یہاںہمارے ساتھ ہماری جدوجہد کے ساتھی طالب علم اور مزدور تنظیموں کے لوگ بھی قید تھے، سب کا مشن ایک تھا،آزادی صحافت، آزادی جمہور۔صحافیوں میں ایک تیز طرار، لڑاکا اور چالاک صحافی بھی شامل تھا،اس نے کوئٹہ سے کراچی آکر گرفتاری دی تھی۔دور آمریت میں جب ہم لوگ جیل یاترا پر ہوتے تو باہرسے کئی جمہوریت پسند ہمیں ضرورت کی اشیاء بھجوا دیا کرتے تھے ، روزانہ کوئی نہ کوئی ملاقات کے لئے ضرور آتااور سگریٹ، بسکٹ، صابن, پھل وغیرہ دے جاتا، ملاقاتی سے ملنے صرف صرف وہی لڑکا جاتا،وہ اپنی بدمعاشی کا رعب ڈال کر کسی اور کو ملاقات کیلئے جانے بھی نہیں دیتا تھا، بیرک واپس آتے ہی وہ اچھی اورمہنگی چیزیں چھپا لیتا اور باقی دوسروں میں بانٹ دیتا۔ بالخصوص مزدور ساتھیوں کو کبھی اچھے سگریٹ دیتا نہ صابن، یعنی گولڈ لیف اور لکس اپنے لئے، کے ٹو اور لائف بوائے مزدوروں کے لئے، البتہ عبدالحمید چھاپرا جیسے سینئر لوگوں کو وہ ’’پتی‘‘ دیدیا کرتا تھا، بات آہستہ آہستہ پھیلنے لگی ، مزدور ساتھی صحافیوں سے نالاں رہنے لگے۔ ایک دن کیا ہوا؟ ایک سندھی مزدور ساتھی نے معمولی سی بات پر فوٹوگرافر حسان سنگرامی کو تھپڑ دے مارا ، میں تھپڑ مارنے والے مزدور کو ایک کونے میں لے گیا اور اس سے کہا،، تم نے یہ کیوں کیا؟ جیل میں ہمیں ایک دوسرے سے پیار محبت سے رہنا چاہئیے ؟ اس کا جواب کچھ یوں تھا، سائیں، ہم سب ایک نہیں ہیں، آپ لوگ سرمایہ دارانہ نظام کے ایجنٹ ہو،اورہم مزدور سرمایہ داروں کی فیکٹریوں کا ایندھن،اس مزدور نے مجھ سے پوچھا،،، جب وڈیروں کی بیٹیوں بیٹوں کی شادیاں ہوتی ہیں، ان کے گھروں میں غم کے لمحات آتے ہیں، کوئی بڑا آدمی مر جاتا ہے، تم صحافی لوگ ان کی تصویریں اور خبریں چھاپتے ہو ناں؟ میں نے کہا ہاں،اس کا دوسرا سوال تھا،جب ہم مزدوروں کے بچوں کی شادیاں ہوتی ہیں، جب ہمارے گھروں میں لوگ مرتے ہیں تو تم کیا کبھی کسی غریب گھر میں جاتے ہو؟ ان کی خبریں چھاپتے ہو؟میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہ تھا۔ کیا اگر میں کوئی الٹا سیدھاجواب دے دیتا تو وہ ہم صحافیوں کے کئی اور پول بھی تو کھول سکتا تھا۔