یہ ایکسچینج پروگرام جس کا ہم حصہ بنے اس کا نام انٹرنیشنل وزیٹر لیڈر شپ پروگرام تھا جسے عرف عام میں IVLPکہتے ہیں۔ ہمارا پروگرام خالصتاً پاکستان سے متعلق تھا اور خواتین صحافی اس کا حصہ تھیں۔ اگرچہ اس سے پہلے ہمارے کئی صحافی دوست جو ایکسچینج پروگرام کا حصہ بنے وہ بتاتے ہیں کہ دیگر ملکوں سے بھی نمائندے ان کے پروگرام میں شامل تھے۔ مگر اس بار فوکس صرف پاکستان تھا اور وہ صحافی خواتین جو مختلف الیکٹرانک پرنٹ اور ریڈیو جرنلزم میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں‘ اس لیے گفتگو کے موضوعات بھی انہی سے متعلقہ تھے۔مثلاً یہ کہ خواتین صحافیوں کو کام کے دوران کن رکاوٹوں اور چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تنخواہوں کے معاملے میں کیا مرد ساتھی کولیگز کو ان پر برتری حاصل ہوتی ہے‘ ورک پلیس پر اور دفتر سے باہر پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے کس طرح کی ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خصوصاً کام کی جگہ پر مبنی ہراسانی کے مسائل اس گفتگو کا اہم حصہ تھے۔ پھر یہ کہ خواتین صحافیوں کے کام کی قدر اور قبولیت معاشرے میں کس حد تک ہے۔ یعنی طاقتور میڈیا ویمن جو سوال کرنے کی جرأت رکھتی ہے اور اپنے ماضی الضمیر کا اظہار کر سکتی ہے کیا اپنے خاندان اور معاشرے کے لئے ناقابل قبول تو نہیں سمجھی جاتی۔؟ بیوی اور ماں کی حیثیت سے اپنی گھریلو ذمہ داریاں نبھانے والی شادی شدہ صحافی خواتین اپنے گھر اور دفتر کے درمیان کس طرح توازن رکھتی ہیں۔ دفتر اور ان کا خاندان ان کی دہری ذمہ داریوں میں کس حد تک معاون اور مددگار ثابت ہوتا ہے۔ پورے وزٹ میں زیادہ گفتگو کے موضوعات یہی رہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک ہی ملک سے تعلق رکھنے والی 16خواتین صحافیوں کے ذاتی تجربات اور مشاہدات مختلف تھے۔ مثلاً پشاور کوئٹہ اور کراچی سے تعلق رکھنے والی صحافی خواتین یہی کہتی پائی گئیں کہ ہمیں کام کے دوران بہت مشکلات کا سامنا ہے۔ جنسی ہراسانی کا خطرہ ہر وقت موجود ہوتا ہے۔ مرد ساتھی کولیگز کے مقابلے میں ہمارے دفاتر میں امتیازی سلوک ہوتا ہے۔ پہلے تو خبر کے حصول کے لئے سورس تک رسائی مشکل ہوتی ہے اور اگر ہم یہ رسائی حاصل کر لیں تو اس پر ہمیں ساتھی کولیگز کی طرف سے باتوں باتوں میں طنز کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ہمارے کردار پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے۔ میڈیا میں نام پیدا کرنے والی خواتین کی شادیاں نہیں ہو پاتیں۔ کیونکہ انہیں معاشرہ قبول نہیں کرتا۔ ایک گروپ مسلسل اسی طرح کے شکوے شکایتوں میں مصروف رہا۔ جب کہ وہیں کچھ آوازیں بالکل اس سے مختلف کہانی سناتی رہیں اور اس میں یہ موازنہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ مجھ سمیت ایک دو اور خواتین صحافی جنہوں نے اس کے برعکس‘ اپنی پیشہ ورانہ زندگیوں کے مثبت پہلوئوں پر بات کی ان کا تعلق پاکستان کے بڑے اور پرانے میڈیا ہائوسز سے تھا۔ وہاں جا کر پہلی بار اس بات کا احساس ہوا کہ ایک بڑے اور منجھے ہوئے ادارے میں کام کرنے والوں کو بھی اگرچہ مسائل کا سامنا ہوتا ہے لیکن پھر بھی ایک سسٹم موجود ہوتا ہے جو ورکر کو کسی نہ کسی طرح سپورٹ کرتا ہے۔ ان کی نسبت کھمبیوں کی طرح اگنے والے چھوٹے چھوٹے چینلز اور آن لائن اخبارات جو ایک دو کمروں کے دفاتر پر مشتمل ہوتے ہیں وہاں کام کرنے والی خواتین خود کو زیادہ غیر محفوظ سمجھتی ہیں۔ اس میں بہت سا عمل دخل آپ کے اپنے رویے کا بھی ہوتا ہے دوسرے لوگ آپ کو کس طرح سے ڈیل کریں یہ آپ اپنے رویے سے ہی دوسروں کو بتاتے ہیں۔ بہرحال مجھے تعجب اور تاسف شاید اس لیے زیادہ محسوس ہوا کہ جب میری ساتھی کولیگز امریکیوں کے سامنے بیٹھ کر صرف مسائل اور منفی باتوں کا رونا روتی رہیں۔ ہم پہ تو فلاں ظلم ہو رہا ہے ہمیں تو کام کرنے کی آزادی نہیں ہے پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی ہے۔ پاکستان میں میڈیا پر پابندیاں ہیں۔ پاکستان میں فلاں مسئلہ ہے۔ وغیرہ وغیرہ مجال ہے کہ اس گروپ کے منہ سے پاکستان کے بارے میں کوئی مثبت بات کوئی روشن بات نکلی ہو۔پاکستان کی نمائندگی کرنے والیوں نے پاکستان کے مسائل اور منفی باتوں کا ڈھنڈورا خوب پیٹا پھر وہی کہ ایک دو آوازیں ردعمل کے طور پر ضرور اٹھیں بلکہ بھر پور انداز میں ہم نے پاکستان کا دفاع کیا۔ شکوے شکایتیں سب کو اپنے حالات ‘ورک پلیس اور معاوضے کے حوالے سے ہوتی ہیں لیکن ہمارے اندر پتہ نہیں کیسی حب الوطنی در آئی کہ وہاں امریکیوں کے سامنے چن چن کر پاکستان کے روشن پہلوئوں کو بیان کیا۔ ہم لوگ امریکی ریاست کولوراڈو کے شہر ڈینور میں رہے۔ مجھے یاد ہے کہ گیارہ دسمبر کی صبح ہمارا سب سے پہلا وزٹ میٹروپولیٹن سٹیٹ یونیورسٹی آف ڈینور میں تھا اور جرنلزم کے پروفیسر ڈاکٹر شان ۔ٹی شیفر کے ساتھ گفتگو کا ایک انٹرایکٹو سیشن تھا۔ اس نشست میں بھی یہی باتیں ہونے لگیں کہ صحافت میں کام کرنے والی خواتین کو آگے بڑھنے کے مواقع نہیں دیے جاتے۔ چونکہ یہ شعبہ ہی مردوں کی اجارہ داری کا ہے اس لئے خواتین ایک ہی جگہ اور ایک ہی طرح کی اسائنمنٹ کرتے کرتے عمر گزار دیتی ہیں۔ صحافی خواتین دفاتر میں سینئر عہدوں پر نہیں پہنچتیں۔ اس لئے انہیں ایڈیٹر شپ نہیں ملتی۔ وغیرہ وغیرہ۔گفتگو کے اس مرحلے پر سب سے پہلے تو میں نے اپنی مثال دی کہ اگر آپ میں قابلیت ہو تو کوئی آگے بڑھنے سے آپ کا راستہ نہیں روک سکتا۔ میں نے پاکستان کے سب سے بڑے قومی روزنامہ میں بطور سب ایڈیٹر جوائن کیا اور جب آٹھ سال کے بعد ادارہ چھوڑا تو میں وہاں کالم نگار تھی اور اپنے وقت کے بڑے اور سینئر کالم نگاروں کے ساتھ میرا کالم بھی چھپتا تھا۔ دوسری مثال میں نے فرح وڑائچ اور خالدہ یوسف کی دی جو صحافت میں پروقار اور قابل خواتین صحافی ہیں اور اپنی کمٹمنٹ اور قابلیت کی بنیاد پر ایڈیٹر کے عہدے تک پہنچیں۔ فرح وڑائچ ایک دبنگ نیوز ایڈیٹر تھیں اور مرد صحافیوں سے بھرے ہوئے نیوز روم کو بطور ایڈیٹر سپروائز کرتیں تھیں۔ (جاری) انگریزی اخبارات میں خواتین ایڈیٹرز کی اور بھی کئی مثالیں موجود ہیں۔ اس وقت بھی نیوز آن سنڈے کی ایڈیٹر فرح ضیاء ہیں۔ عائشہ ہارون مرحومہ بھی جب امریکہ میں بلڈ کینسر سے زندگی کی جنگ ہاریں تو وہ ایک انگریزی اخبار کی ایڈیٹر تھیں اردو صحافت میں خالدہ یوسف بھی ایسی دبنگ ایڈیٹر رہی ہیں کہ ان کے ساتھ کام کرنے والے ان کے پرفیکشینزم کی عادت سے گھبراتے بھی ہیں۔ ان کے ساتھ کام کرنا ہی اعزاز سمجھتے ہیں۔ یونیورسٹی آف ڈینور کے پروفیسر شان ٹی شیفر پاکستانی صحافت کے اس روشن پہلو کو سن کر زیادہ خوش نہیں ہوئے بلکہ حیران پریشان سے ہو جاتے ہیں۔(جاری)