اسکا درد بازو سے ہوتا جبڑوں اورپھر سر کی طرف بڑھتا۔ اسی طرح کولہے کی ہڈی سے نکلتا اور ٹانگوں کو اپنی گرفت میں لے لیتا۔ بیماری کا یہ کوئی پہلا مرحلہ نہیں تھا۔ اس سے قبل گھریلو حالات کی بنا پر ذہنی دباو کا شکار ہوئی تو سعدیہ کو ڈاکٹروں نے تین سال کے لیے نفسیاتی دواوں پر ڈال دیا۔ پوچھنے پر کہ بیماری کیا ہے جس کا علاج اتنی دیر چلا، سعدیہ اور اس کے گھر والے صرف یہ بتا پائے کہ دماغ کی لہریں مشتعل تھیں جنہیں دوائیوں سے معمول پر لایا گیا ہے۔ لہریں یا کیمیکل کے درمیان سعدیہ کو فرق ہی نہیں معلوم تھا۔ جسم کی درد پچیس سالہ سعدیہ کی دوسری آزمائش تھی جو ایک بار پھر اسکے گھر والوں کی جہالت اور سر کاری ڈاکٹروں کے غیر پیشہ وارانہ رویے کی بھینٹ چڑھی۔ چونکہ درد ہڈیوں میں تھا اس لیے سوچے سمجھے بغیر فیصلہ کیا گیا کہ اسے فیروز پور روڈ پر واقع معذوروں کے ہسپتال لے جایا جائے۔ سوچنا بھی کیسا جہاں باپ تینوں شریانیں بند ہونے کی بنا پر زیادہ محنت کرنے سے عاری ہو، والدہ کپڑے سی کر بمشکل گزارا کریں۔ بیرونی مدد کی ہر وقت ضرورت ہو اورذاتی تشریحات سے جوڑی مذہبی اقدار نے گھٹن پیدا کر رکھا ہو ایسے ماحول میں کون سوچ کی سمت درست رکھ سکتا ہے۔ اب تو مہنگائی کے عفریت کا پھن بھی کئی گنا پھیل چکا۔ علاج کی ابتدا کچھ ٹیسٹوں سے ہوئی۔ جیسے یورک ایسڈ (Uric Acid)اور (ESR) ای ایس آر۔ پہلا ٹیسٹ جسم میں فاضل مادے کی مقدار کو جانچتا ہے اور دوسرا انفیکشن کی۔ جسم میں انفیکشن کی مقدار کا ریشو 75 سامنے آیا جو کہ نارمل سے کہیں زیادہ تھا۔ جبکہ اول الذکر ٹیسٹ مثبت تھا۔ بیماری کی تشخیص کا پوچھا تو ڈاکٹر نے کہا کہ گینٹھیا ہے۔ یعنی arthritis۔اس سے بڑا لطیفہ کیا ہو گا کہ یوریک ایسڈ کا ٹیسٹ مثبت ہو لیکن پھر بھی کسی کو گینٹھیا کی بیماری ہوجائے۔ ڈاکٹر نے ایک لمباچوڑا نسخہ لکھ کر حوالے کیا۔ دوائیوں میں درد اور اعصابی ہیجان دور کرنے کے علاوہ Steroid بھی شامل تھیں۔ سعدیہ دوا کھانے لگی لیکن تکلیف کم ہونے کی بجاے بڑھنے لگی۔ کہیں سے مشورہ آیا کہ ESR کا گینٹھیا سے براہ راست تعلق نہیں۔ بیماری شاید کچھ اور ہے اس لیے ایک بار پرائیوٹ چیک اپ کروا لیا جائے۔ ادھر ادھر سے پیسے اکٹھے کر کے پرائیویٹ ڈاکٹر کو دکھایا گیا جنہوں نے فورا ہی پرانی تشخیص مسترد کرتے ہوئے Rumatologist کو دکھانے کی ہدایت کی۔ کچھ ٹیسٹ لکھ کر دئیے اور پھر وہی ہوا جس کا اندازہ تھا۔ بیماری کچھ اور تھی اور قابل علاج بھی۔ پہلے کوشش کی کہ پرائیویٹ ڈاکٹر جن سرکاری ہسپتالوں میں بیٹھتے ہیں وہیں انہیں دکھا دیا جائے۔ لیکن نہ تو ان ڈاکٹروں کے پاس ٹائم تھا اور نہ ہی وہاں کا سٹاف تعاون کرنے کو تیار۔ درست بات ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں رش ہونے کی بنا پر وقت کی قلت کا سامنا ہو سکتا ہے لیکں ہمارے ہسپتالوں میں معاملہ وقت کی قلت سے زیادہ ڈاکٹر مریض کے تناسب کا ہے۔ ایک بار جنرل ہسپتال میں سٹوری کے سلسلے میں جانا پڑا۔ نفسیات کے ڈیپارٹمنٹ میں دیکھا تو دو ڈاکٹر برے حال بیٹھیں دھڑا دھڑ دوائیاں لکھ کر نسخے مریضوں کے حوالے کر رہی تھیں۔ استفسار پر کہ کیسے ممکن ہے کہ ہر نفسیاتی مرض کا علاج دوا ہو ڈاکٹروں نے میری طرف دیکھا اور کہا ہمارے یہاں کانسلینگ کی سہولت نہیں اور مریضوں کی تعداد کی وجہ سے نہ ہی اتنا وقت کہ بیماری کی جڑ تک پہنچا جا سکے۔اکنامکس سروے-21 2020 کے مطابق پاکستان میں رجسٹرڈ ڈاکٹروں کی تعداد اس وقت 245,987 ہے۔ لیکن ملک کو کتنے ڈاکٹر درکار ہیں اس پر سروے خاموش ہے۔ ظاہری سی بات ہے23 کروڑ کی آبادی والے ملک میں چوبیس لاکھ سے کچھ اوپر ڈاکٹر تو اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہوئے۔ ایسے میں عطائیوں کی تعداد کا بڑھنا خارج ازامکان نہیں۔ اسی طرح یہ تمام ڈاکٹر سرکاری ہسپتالوں میں کام کررہے ہوں یہ بھی ممکن نہیں۔ کئی تو چھٹی لے کر بیرون ملک بھی روانہ ہو گئے ہونگے۔ پھر ان میں سے کتنے ڈاکٹر ماہرین ہیں اس کا بھی درست اندازہ نہیں۔ ورلڈ بینک کا سب سے جدید سروے جو 2016 میں شائع ہوا اس کے مطابق پاکستان میں 1300 مریضوںکے لئے ایک ڈاکٹر ہے۔ معاشی تعاوں کی تنظیم و ترقی کے ادارے کی 2018 میں شائع کردہ رپورٹ کے مطابق ہر 1,000 مریض پر اٹلی میں 4، جرمنی میں 4.3، امریکہ میں 2.9 ، سپین میں 3.9 اور انڈیا میں 0.8 ڈاکٹرز ہیں۔ انڈیا بھی ہمارے مقابلے میں طبی ٹیکنالوجی کے لحاظ سے بہت اگے ہے لیکن باقی ملکوں میں تو جدید ٹیکنالوجی کی سہولیات کئی گنا زیادہ ہیں جس سے کام کرنے کی رفتار اور معیار میں کافی فرق پڑتاہے۔ اس ڈیٹا اور پاکستان میں صحت کے انفراسٹرکچر کی نوعیت سے ہم ہسپتالوں اور مریضوں کی حالت زار کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ شعبہ صحت میں پرائمری ہیلتھ کئیر ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی نظریے کے پیش نظر 1980 سے 1990 کی دہائی میں پاکستان میں دیہی اور بنیادی صحت کے اداروں کا جال بچھایا گیا جس کے تحت 5,000 سے 25,000 کی آبادی والی یونین کونسل میں ایک بنیادی ہیلتھ کئیر یونٹ لازما کھولنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اسی طرح کمیونٹی سروس کے لیے لیڈی ہیلتھ ورکر پروگرام شروع کیا گیا۔ پھر اٹھارویں ترمیم نے تمام معاملات تلپٹ کر دیے۔ یہ سارا نظام ایک اچھے پرائمری ہیلتھ کئیر کی شروعات کے لیے کافی تھا لیکن حکومتوں کی بددیانتی اور اداروں کی ناقص کارکردگی نے ترقی کے اس پہیے کو چلنے سے پہلے ہی روک دیا۔ چونکہ پرائمری ہیلتھ سسٹم کمزور اور منتشر ہے اس لیے چھوٹی چھوٹی بیماریوں کے لیے مریض بڑے سرکاری ہسپتالوں میں جاتے ہیں جہاں رش کی بنا پر ڈاکٹر توجہ نہیں دے پاتے۔ اس بے ترتیبی اور کرپشن کی ذمے دار اشرافیہ ہے جس کی پالیسی بنانے سے لیکر اس کی عملداری تک نظر نجی سیکٹر کی مضبوطی پر ہوتی ہے۔ اسی لیے ڈاکٹروں کو دوران تعلیم بھی پرائمری ہیلتھ کئیر کی افادیت کے حوالے سے نابلد رکھا جاتا ہے۔ جب تک یہ نظام باقی ہے سعدیہ کی طرح کئی مریض غلط علاج کی وجہ سے معیاری اور صحت مند زندگی گزارنے سے محروم رہیں گے۔