26-27 فروری کی درمیانی رات سخت بے چینی والی تھی۔لائن آف کنٹرول پر زیادہ مگر پورے ملک میں سخت تناؤ کی کیفیت تھی۔تمام رات وہ ویڈیو کلپ وصول ہوتے رہے جن سے سیالکوٹ ،پونچھ، راجوری، چکوٹھی سیکٹرز میں زبردست فائرنگ کا اندازہ کیا جاسکتا تھا۔ٹینکوں اور فوجی گاڑیوں کی غیر معمولی نقل و حرکت تو کئی دن سے چل رہی تھی۔ہندوستانی میڈیا خاص طور پر گزشتہ کل کی مفروضہ سرجیکل سٹرائیک اور مبینہ حملے کی پڑیاںمسلسل بیچ رہا تھا۔سوشل میڈیا پر بھی گھمسان کا رن پڑا ہوا تھا اور ہر شخص آج رات ہی اپنی اپنی فوجی مہارت ثابت کرنے پر تلا بیٹھا تھا۔ایسے میں نیند کسے آتی اور کیسے آتی۔رات ہی میں یہ اندازہ بہرحال ہوگیا کہ صبح کچھ بڑی اور غیر معمولی خبریں آنے والی ہیں ۔ صبح دفتر پہنچا ہی تھا کہ گیارہ بجے کے قریب وہ خبریں آنی شروع ہوگئیں۔پہلے فون پر،پھر ٹی وی چینلز پر غیر سرکاری اطلاعات۔پھر بالآخر سرکاری تصدیق۔ حیرت انگیز طور پر یہ زمینی کارروائی سے نہیں بلکہ فضائی آپریشنز سے متعلق تھی۔یہ وہ بڑی خبر تھی جس نے ایک طرف ہر پاکستانی کو ایک بڑی جنگ شروع ہونے کی تشویش سے دوچار کردیا لیکن دوسری طرف ہر سینے میں ٹھنڈ ڈال دی۔پہلے وزارت خارجہ اور پھر آئی ایس پی آر نے تصدیق کردی کہ پاک فضائیہ نے دشمن کے علاقے میں بھرپور کارروائی کی ہے اور مڈبھیڑ ہونے پر ہندوستان کے دو جنگی طیارے مار گرائے۔ایک طیارے کا ملبہ اور پائلٹ پاکستانی علاقے میں گرا اور دوسرا جہاز مقبوضہ کشمیر کے علاقے میں۔ایک تیسرا ہیلی کاپٹر پراسرار انداز میں اسی علاقے میں اور اسی وقت سری نگر کے پاس گرا جس میں انڈین ائیر فورس کے 6 افسر مارے گئے۔ سچ یہ ہے کہ سینے میں ٹھنڈ پڑگئی۔انڈیا کی بڑھکیں اور پُر رعونت دھمکیاں سنتے سنتے کان پک گئے تھے۔کشمیر میں مسلمانوں پر ظلم کی ویڈیوز اور تصویریں دیکھی نہیں جاتی تھیں۔ بھارت میں ہندوستانی مسلمان شہریوں کے ساتھ متعصب برتاؤ دیکھ کر خون کھولتا تھا۔دلت اور اچھوتوں کے ساتھ ان کا برتاؤ تو خیر ہمیشہ سے جانوروں والا رہا اور ان کے مذہبی عقائد کا حصہ ہے۔اقلیتوں کی حالت زار بھی مختلف نہیں۔ سری لنکا ،نیپال، بھوٹان اور مالدیپ جیسے کمزور ممالک پر چودھراہٹ بھی ہندو حکمرانوں کی سائیکی کا حصہ ہے لیکن پاکستان کے ساتھ اس کی دشمنی تو ناقابل فراموش رہی ہے۔کتنے ہی زخم اور گھاؤ ہیں جو اس پوری تاریخ میں ہمارے جسم پر ہیں۔ سکواڈرن لیڈر حسن محمود صدیقی نے انڈین ائیر فورس کے مگ21 طیارے کو مار گرایا اور اپنے سکواڈرن کا ہی نہیں، فضائیہ کا ہی نہیں ،پوری قوم کا ہیرو بن گیا۔ پاکستانی ساختہ جے ایف ۔17 تھنڈرطیارے نے جنگ میں اپنا پہلا شکار کرلیا۔اس پر پوری قوم، پاک فضائیہ اور افواج کو جتنی بھی مبارک دیں کم ہے۔ ہندوستانی ہواباز کے پکڑے جانے اور گرفتار کیے جانے کی ویڈیوز فوراً ہی جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئیں۔ ہندوستانی افواج ، سیاست دانوں ،میڈیا اور عوام کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔سارا دن ایک سوگ کی کیفیت رہی ۔ یہ ایسا سرپرائز تھا جس کی توقع ان میں سے کوئی نہیں کر رہا تھا۔انڈین ائیر فورس کے لیے بلا شبہ یہ ایک برا دن تھا جس میں انہیں نقصانات بھی اٹھانے پڑے اورشرمندگی اور سبکی سے بچنے کے لیے بہت سے جھوٹ بھی گڑھنے پڑے۔اس معرکے کی تفصیلات کئی طرف سے سوشل میڈیا پر آئیں لیکن مستند تفصیلات کا ابھی انتظار ہے۔میں پی اے ایف کی کارروائی اور بعد کی فضائی مڈھ بھیڑ سے متعلق خبریں دلچسپی سے پڑھتا رہا ہوںاور کئی سوالات ابھی تشنہ ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کے ماہر ہی ان معاملات کو بہتر جانتے ہیں تاہم دل چسپی رکھنے والے مجھ جیسے ایک عام قاری کے ذہن میں جو سوالات پیدا ہوتے ہیں وہ یہاں پیش کرتا ہوں۔مجھے یقین ہے کہ یہ سوالات بے شمار ذہنوں کے ترجمان ہوں گے۔ پہلا سوال تو یہی ہے کہ 27فروری کو پاک فضائیہ کے کتنے اور کون سے طیاروں نے اس کارروائی میں حصہ لیا جو مڈھ بھیڑ سے پہلے کی تھی۔پاکستان کی طرف سے اس کی وضاحت نہیں کی گئی تاہم 28 فروری کو ہندوستانی مسلح افواج کی مشترکہ پریس کانفرنس ہوئی جس میں میجر جنرل سرندرا سنگھ مہل ،ائیر وائس مارشل آر جی کپور اور رئیر ایڈمرل ڈی ایس گجرال نے تینوں افواج کی نمایندگی کی.(سچ یہ ہے کہ یہ ایک پھسپھسی اور بے جان پریس کانفرنس تھی اور اس میں بہت جھوٹ بولے گئے۔مثلایہ ملاحظہ کیجیے کہ ابھی نندن کا پیراشوٹ ہوا کی وجہ سے پاکستان میں جاگرا۔حضور! کیا وہ مگ جہاز بھی کٹی پتنگ کی طرح ہوا کے جھونکوں پر پاکستان کی سرحد کے پار چلا گیا جس کا ملبہ اب تک یہاں پڑا ہے؟ )۔ پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ راجوڑی اور سندربنی ایریاز میں فضائی خلاف ورزی کی گئی تھی۔جس میںپاکستانی طیاروں کی ایک بڑی تعداد تھی (ایک الگ رپورٹ کے مطابق 24 طیارے)جن میں ایف جے 17 ،ایف 16 اورمیراج وغیرہ شامل تھے۔اگر یہ تعداد درست ہے تو اتنی بڑی تعداد بھی ہندوستان کیلئے ایک سرپرائز رہی ہوگی۔پھر اس کارروائی کیلئے وقت کا چناؤ بھی سرپرائز رہا ہوگا۔دن کے اجالے میں عام طور پر ایسی کارروائیاں نہیں ہوتیں۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ اس کارروائی میں آئی ایس پی آر کی بریفنگ کے مطابق 6 اہم مقامات کو لاک کرکے ان کے قریب خالی جگہ کو نشانہ بنایا گیا۔جبکہ ایک آڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں مبینہ طور پر پاکستانی پائلٹ فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ہم نے گراؤنڈ ٹروپس کی بھی بہت ایسی تیسی کی ہے۔ہندوستان اور پاکستان دونوں طرف سے سرکاری طور پر یہی کہا گیا کہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوایہ بات بھی پھیلی ہوئی ہے کہ انڈیا کی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا تھا اور اس میں بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئی تھیں۔لیکن انڈیا کو مزید شرمندگی سے بچایا گیا تاکہ تناؤ کی کیفیت مزید نہ بڑھے۔انڈیا کے اپنے مفاد میں نہیں تھا کہ وہ ان ہلاکتوں کا اعتراف کرے۔ لیکن ابھی تک یہ سب قیاس آرائیاں ہیں ۔اصل حقیقت یہی ہے یا کچھ اور؟ تیسرا سوال یہ کہ انڈین ائیر فورس کے کتنے جہاز مڈھ بھیڑ کے لیے آئے تھے۔پاکستان کی طرف سے اس کا ذکر نہیں ہے جبکہ انڈین پریس کانفرنس میں تعداد کا ذکر نہیں لیکن Sukhoi-30MKI, Mirage2000, MiG21Bison جہاز بتائے گئے ہیں۔(سخوئی اس وقت دنیا کا مہنگا ترین جنگی جہاز ہے اور اس مقابلے کے لیے، جبکہ باقاعدہ اعلان جنگ نہیں ہوا ہے ، اس جہاز کا استعمال بھی اچنبھے کی بات ہے )یقینا زیادہ تعداد میں پاکستانی جہازوں کی موجودگی میں ہندوستانی جہاز بھی کافی تعداد میں بھیجے گئے ہوں گے(ایک الگ رپورٹ کے مطابق 8 جہاز،لیکن یہ چوتھا سوال الجھن کا سبب ہے کہ کنٹرول لائن تک آتے آتے دونوں طرف سے صرف دو دو جہازوں کا ذکر باقی رہ جاتا ہے، حالانکہ آغاز سے آخر تک یہ دورانیہ گھنٹوں کا نہیں منٹوں کا رہا ہوگا۔تو دونوں طرف کے باقی جہاز اچانک کہاں چلے گئے؟ پانچواں اور بہت دل چسپ سوال یہ کہ دوسرا بھارتی طیارہ جو مقبوضہ کشمیر میں گرا وہ کون سا تھا۔مگ یا سخوئی؟بھارتی تو خیر دوسرا طیارہ مان ہی نہیں رہے جبکہ اس کے ویڈیو ثبوت موجود ہیں۔بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ سخوئی MKI30 تھا۔اگر واقعی ایسا ہے تو یہ انتہائی حیران کن بات ہے کہ ایف جے 17 تھنڈر طیارے نے سخوئی 30.MKI جیسے دنیا کے مہنگے ترین اور جدید ترین طیارے کو مار گرایا۔یہ شاید سخوئی کے گرائے جانے کا بھی پہلا واقعہ ہوگا۔اس طیارے پر بھارت کو بہت مان ہے اور اسے دنیا کا جدید ترین طیارہ مانا جاتا ہے۔لیکن پاکستان کی طرف سے دوسرے طیارے کے بارے میں بھی مگ ہی کہا گیا ہے۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ بھی مگ 21Bison ہی تھا۔ (جاری ہے )