سندھ کاعظیم صحرا تھر اکثر خبروں میں رہتا ہے۔ کم وبیش 20ہزارمربع کلومیٹر پر پھیلا یہ صحرا اپنی بیابانی، بے سرومانی اور خوب صورتی کی وجہ سے دنیا کے لئے ایک بڑی کشش رکھتا ہے۔ پھر یہ کہ لطیف سرکارؒ نے اپنی شاعری کے ایک غالب حصے میں تھر کے رنگ اور روح ڈال کر اسے زمین پر جنت ارضی بنا دیا ہے۔تھر کی پیاس ، افلاس اور اس کی وسعت میں پنہاں قدرتی خزانے اسے ہمیشہ شہ سرخیوں میںرکھتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ یہ وسیع وعریض صحرا اپنے منفرد قدرتی محل وقوع اورآبادیوں کے پھیلائو کی وجہ سے ہمیشہ حکومتوںپرتنقید کا سبب بھی بنتارہا ہے۔ ضلع تھرپارکر کی کل آبادی سولہ لاکھ کے قریب ہے لیکن دورافتادہ علاقوں میں بکھری ہونے کی وجہ سے ضلعی اور بلدیاتی انتظامیہ اور سندھ حکومت کے لئے بنیادی سہولتوں بالخصوص ہردہلیزتک پینے کے پانی کی فراہمی ایک مشکل فریضہ رہا ہے لیکن ایک مستقل تحریک اور کارآمدنظام کے ذریعے اس بڑے صحراکی آباد ی کو سہولتیں بہم پہنچا کر بیماریوں اور موت کے چنگل سے آزاد کرایا جا سکتا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ تھر کا عام آدمی کسی سیاسی جماعت اور کسی حکومت کے ایجنڈے میں نہیں ہے۔ تھر کل بھی پیاسا تھا ،تھر آج بھی پیاسا ہے ،اس کی تشنگی کے نام پردنیا نے کروڑوں اربوں روپے نچھاور کردئیے لیکن ماروکل بھی برہنہ پا اور پیاسے تھے اور آج بھی وہ بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ان کے نام پر اینٹھی جانے والی رقمیں اور امدادیں ہڑپ کرلی جاتی ہیں اور ڈکار تک نہیں لیا جاتا۔تھر میں ایک گائوں سے دوسرے گائوں تک کی مسافتیں طے کرتے چلے جائیں، زبانیںسوکھ کر کانٹاہوجاتی ہیں اورپائوں میں چھالے پڑ جاتے ہیں۔ان ویران اور بیابان جنگلوں کا سفرصدیوں سے تھریوں کا مقدر ہے اور وہ اس تقدیر کو اپنی زندگی کا اثاثہ سمجھ کرجھیلنے پر مجبور ہیں۔ سندھ میں کہاوت مشہور ہے کہ ’’وسے تاں تھر نہ تاں بر‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ اگر ساون کھل کر اس صحرا پر برسے گا تو یہ روایتی تھرہے اور اگر بارش نہیں ہوگی تو پھر یہ بنجر اور بیابان دھرتی ہے۔یہ کہاوت تھر کی حقیقی زندگی کی ترجمانی کرتی ہے۔تھر کی زندگی کا انحصار مون سون کی بارشوں ہے۔ اس محیرالعقول صحرا کی زندگی معمول پر رکھنے کے لئے مون سون کی تین بارشیں ضروری ہیں۔اگرجون سے جولائی کے درمیان کھل کرتین بارشیں برس جائیںگی تو عمر کوٹ سے ننگرپارکر کے سرحدی قصبے کاسبو تک ہرطرف ہریالی کاراج ہوجاتا ہے اور ویرانوں میںزندگی ہمکنے لگتی ہے۔ ایسے ہی موسم میں شہروں سے لوگ ہزاروں کی تعداد میں صحرائی موسم سے لطف اندوز ہونے کے لئے تھرپارکر کا رخ کرتے ہیں ۔ تھر کی تین بارشیں تھر کے تالاب لبالب بھردیتی ہیں،پانی کا یہ ذخیرہ سارا سال ماروئوں اور ان کے جانوروں کی زندگی کی ضمانت بن جاتا ہے اور ان کے چہرے کھِل اٹھتے ہیں ۔اگرکسی سال دوبارشیں ہوں تو تھر کی زندگی 70فیصدتک آجاتی ہے اور ایک بارش کی صورت میں خشک سالی تھر میں ڈیرے ڈال لیتی ہے،ماروئوں کے چہرے مرجھا جاتے ہیں اور وہ نظریں آسمان کی طرف کر کے بارش کی بھیک مانگتے ہیں اور خدانخواستہ جس سال مون سون تھر سے پہلو بدل کر کہیں اور نکل جائے تو تھر میں سورج سوا نیزے پر آجاتا ہے ، تالاب خشک ہوجاتے ہیں،بھوک اور بیماری سے تھریوں کی زندگی اندیشوں سے بھر جاتی ہے اور صحرا میںقحط پڑ جاتاہے۔ایسے میں تھری اپنے لاغر بوڑھوں کو اللہ کے سہارے پر چھوڑ کر مویشیوں کے ہمراہ بیراجی علاقوں کا رخ کرلیتے ہیں۔پانی نہیں ہوتا تو مارو اور ان کے مال مویشیوں کی زندگی دائو پر لگ جاتی ہے۔ تھری اپنے گھروں کو چھوڑنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں لیکن جب ان کے سروں پر موت کے سائے منڈلانے لگتے ہیں تو عارضی ہجرت انہیں اپنے محبوب صحرا سے جدا کردیتی ۔ بادل جب صحرا کا رخ کرتے ہیں اورجوں ہی تھر میں بارش کی پہلی بوند پڑتی ہے یہ قافلے واپس ان ویرانوں کا رخ کرتے ہیں اور ان کے مرجھائے چہروں پر رونقیں لوٹ آتی ہیں۔ صدیوں سے تھر میں زندگی اور موت کا یہ پر فریب رقص جاری ہے ۔ حکومتوں اور غیر سرکاری نجی اداروں کے لئے تھر کمائی کا ایک بڑا وسیلہ رہا ہے۔ قیام پاکستان سے لے کرآج تک جتنے بھی حکمران آئے تھر کے نام پراپنی تجوریاں بھرتے رہے لیکن کسی کو ان کے دکھوں کے مداوے کی فکر نہیں ہے۔تھر کی پیاس بجھانے کے لئے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی کسی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں رہی ہے۔ستم ظریفی کی بات ہے کہ بعض اوقات تین بارشوں کے باوجود بھی تھر زندگی کی حقیقی لطافتوں سے محروم رہتا ہے۔اس بار بھی تھریوں کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا۔گزشتہ دنوں تھرپارکر میں 24 گھنٹوں کی مسلسل بارش نے پورے ضلع تھرپارکر میںنظام زندگی مفلوج کرکے رکھ دیا ، غریب کسانوں کی لاکھوں روپے کی کھڑی فصلیں اور کھیتوں اور کچے گھروں میں رکھا اناج طوفانی بارش کی نذر ہوگیا۔ تھر کے لوگ ٹڈی دل کے تابڑتوڑ حملوں سے سنبھل ہی نہیں پائے تھے کہ باران رحمت ان کے لئے تباہی کا پیش خیمہ بن گئی۔ اس بار مون سون ذرا سی تاخیر سے آیا لیکن اتنا برسا کہ ماروئوں کا سب کچھ بہا کر لے گیا۔ ہر بار بارش نہ ہونے سے قحط پڑتا تھا لیکن اس باربارشوں ہی نے گھروں کے گھر اجاڑ دئیے۔اس پر مستزاد یہ کہ آسمانی بجلی گرنے سے درجنوں اموات ہو گئیں،سیکڑوں جانور اس کی نذر ہوگئے ۔ ٹدی دل نے حملہ کیا تو کوئی بھی تھریوں کی مدد کو نہیں پہنچا ،ہر طوفان ہر آفت تھری خود جھیلتے رہے،موسمی طوفانوں میں گھرے گھٹ گھٹ کرمرتے رہے ، لیکن کسی سیاسی جماعت کے سربراہ، وزیراعظم ، وزیراعلیٰ کو توفیق نہیں ہوئی کہ وہ انہیں پرسا ہی دینے آجاتا۔ پاکستان کی شورش زدہ اور جاہ پرست سیاست نے ملک کے عام آدمی سے عزت کے ساتھ جینے اور عزت کے ساتھ مرنے کا حق بھی چھین لیا ہے ۔ کوئی تو انہیں بتائے کہ ریت پررینگتے یہ تھری بھی اس ملک کے باشندے ہیں ، اس سے پہلے کہ وہ اٹھ کھڑے ہوں اور ان کے ہاتھ حکمرانوں کے گریبانوں تک پہنچیں انہیں ہوش کے ناخن لینا چاہئیں ۔