جمعۃ المبارک کو ’’سیّدالایام‘‘ کہا گیا ہے،اس دن علماء کرام وعظ وتبلیغ اور مشائخ و سجادگان رشدو ارشاد میں مصروف ہوتے ہیں،جس کے سبب ’’ایوانِ اوقاف ‘‘کی رونقیں عام دنوں کی نسبت قدرے کم ہوتی ہیں۔بنابریں یہ بابرکت ساعتیں ہفتہ وارکالم کی تکمیل کے لیے موزوں قرارپاتی ہیں،چنانچہ حسبِ روایت جمعہ کو اس شغل سے فراغت پاچکاتو۔۔۔ہفتہ کو مدینۃُ السّادات اُوچ شریف کے موسسِ اعلیٰ ،بُرجِ سیادت کے مہتاب ،اور صدفِ سیادت کے گوہرحضرت سیدجلال الدین میر حیدر سرخ پوش بخاریؒ کے 750ویںسالانہ عرس کے اختتامی لمحات نے یاوری کی ۔۔۔اوران کی بارگاہ میں چندکلمات پیش کرنے کی غرض سے کاغذ وقلم پھر سنبھال لیا۔۔۔کہ میرا اپنا شجرۂ نسب بھی 23واسطوں سے حضرت سید جلال الدین سرخ بخاریؒ تک پہنچتا ہے۔آپؒ برصغیر میں نقوی سادات کے سرخیل اور بخاری سیدوں کے امام ہیں۔آپؒ کی ولادت 1199ء میں بخارا میں ہوئی،تاتاریوں کی یورش کے سبب، آپ ایران سے ہوتے ہوئے ،بھکر اور پھر ملتان میں حضرت بہاء الدین زکریا ملتانیؒ سے اکتسابِ فیض کے بعد ،1244ء کو اوچ شریف میں متمکن ہوئے ،اوریوں اوچ شریف ،برصغیر کے بخاری سادات کے ہیڈ کوارٹر اور سیکرٹریٹ کے طور پر معتبر ٹھہرا۔سیکرٹریٹ بایں معنی۔۔۔کہ آج بھی کشمیر سے لے کر راس کماری اور کلکتہ سے پشاور تک نقوی اور بخاری سادات کے شجرہ ہائے نسب وہاں محفوظ ہوتے ہیں۔حضرت سید جلال الدین سرخ بخاریؒ اورآپ کے بعد حضرت مخدوم جہانیاں جہانگشت نے نسبی شجروں کی تحفیظ اور تدوین کے لیے ایک جامع نظام وضع کیا اور گذشتہ سات صدیوں سے خلیفہ خاندان اس اہم ذمہ داری پر براجمان ہے،جن کے وقیع اور قدیم رجسٹرڈ اور دستاویزات ،نسل در نسل بخاری سادات کے شجروں سے منور ہیں۔گذشتہ سال میرے تایا جان صدرالمشائخ پیر سید امیر محمدبخاری کے ختمِ چہلم کے موقع پر اوچ شریف سے خلیفہ محمدشمیم اورخلیفہ محمدحسین میرے آبائی گھر محلہ پیر بخاری نارنگ شریف ، بطورِ خاص دربارِ عالیہ جلالیہ مدینۃ السادات اوچ شریف کی سرخ دستار لے کرآئے اورمیرے برادرِ کلاں پیر سید فیض الحسن شاہ بخاری کی ’’دستاربندی‘‘ کی رسم میں شامل ہوئے،یہ وہ رواجی جانشینی ہے، جو بالعموم باپ کے بعد بڑے بیٹے کے حصے میں آتی ہے،جس کے اہتمام میں دربار عالیہ اوچ شریف کے نمائندگان کی شرکت کو معتبر سمجھا جاتا ہے،اسی طرح میرے خاندان کی اگلی نسل، جس میں میرے بیٹے، بھتیجے سب شامل ہیں،کے اسماء اوچ شریف کے متعلقہ ریکارڈ میں اندراج پاچکے ہیں۔۔۔بہرحال یہ ایک ایسا امتیاز ہے جو اوچ شریف کے ساتھ خاص ہے۔ اوچ شریف برصغیر کی ان قدیم العہد اور تاریخ ساز بستیوں میں اہم ترین ہے، جہاں ایک طرف سلاطین اور سلطنتوںکے عروج و زوال کی داستانیں مرتب ہوتی اورتہذیب وثقافت کے ان گنت نقوش ابھرتے اور مٹتے رہے ۔۔۔وہیں علوم وفنون کے سوتے بھی یہاں سے رواں ہوتے اور تشنگانِ علم وحکمت اور وارفتگانِ تصوف وطریقت کو سیراب کرتے اور دین وشریعت کی شمعیں، کفر وضلالت کے تاریک گوشوں کو منور کرتی رہیں۔یہاں کی روشنیوں سے ایک دنیا نے اکتسابِ نور کیا۔یہاں کا ’’مدرسہ جلالیہ‘‘ برصغیر میں اسلامی علوم کی ترویج و تبلیغ کا سب سے بڑا مرکز تھا،جس کی مسندِ تدریس پر از خودساداتِ اوچ شریف براجمان ہوتے، مریدو معتقدین بالالتزام تفسیر ،حدیث اور کتبِ تصوف کادرس لیتے،خاص مریدین کے لیے تہجد اورعام کے لیے فجر کے بعد حضرت مخدوم کادرس شروع ہوتا۔حضرت مخدوم عام طور پر تفسیر کشّاف کی بجائے ’’تفسیرِ مدارک‘‘کو ترجیح دیتے۔حضرت مخدوم جہانیاں جہانگشت ازخود سبعہ قراء ت کے قاری اورتفسیر کے زبردست عالم تھے،جس کا بڑا سادہ سامفہوم یہ ہے کہ اُس عہد کے صوفیاء اور مشائخ کا محض کشف والہام پر نہیں،بلکہ اکتسابی طور پر ،علومِ شرعیہ بالخصوص قرآن وحدیث سے براہِ راست تعلق تھا،روایتی دینی درسیات سے وہ خود بھی مستفید ہوئے اور عامۃ المسلمین کو بھی اس سے فائدہ پہنچایا،جس کے لیے اپنی خانقاہوں کے ساتھ مدارسِ دینیہ کا اہتمام کیا۔انہوںنے ’’رسمی سجادگی‘‘کی بجائے حقیقی وراثت جو ’’علومِ دین وحکمت‘‘پر مشتمل تھی ،کی ترویج اور تبلیغ کا اہتمام کیا۔اورخانقاہوں کو دینی اور روحانی تربیت کا ذریعہ بنایا۔یہی سبب تھا کہ چوتھی صدی سے لے کر گیارہویں صدی ہجری ۔۔۔تقریباً سات سو سال تک، علمائے دین اور مشائخ طریقت کا ازدحام ،اس خاک سے اُٹھنے والی روشنیوںسے خود کو منور کرتا رہا۔بلادِ اسلامیہ سے ہزاروں کی تعداد میں اولوالعزم اور جلیل القدر ہستیاں اس خطہ پاک کو اپنی مستقل سکونت اور اقامت کے لیے پسند کرکے یہاں پہنچیں اور پھر یہیں آسودہ خاک ہوگئیں۔برصغیر کا کوئی مقام ایسانہیں جہاں اوچ شریف کے بزرگوں کا فیض نہ پہنچا ہو۔ اوچ شریف کی قدیمی مسجد جو ’’مسجدِ حاجات ‘‘کے نام سے مشہور ہے ،میں حضرت بابا فرید الدین مسعود گنجؒ شکر کی ریاضت ومجاہدات اور مسجد سے ملحقہ کنویں میں آپ کے ’’چلہ معکوس ‘‘کے آثار اب بھی موجود ہیں۔حضرت نصیر الدینؒ چراغ دہلی نے بھی اسی مسجد میں چلہ کشی اور اعتکاف فرمایا،آپ حضرت جلال الدین بخاریؒ کے صاحبزادے حضرت سید احمدکبیر کے عہد میں اوچ شریف میں تشریف فرماہوئے اور حضرت مخدوم جہانیاں جہانگشت کو آپ نے خلافت سے سرفراز فرمایا۔سلطان محمدتغلق کا طرزِ عمل بطورِ خاص چشتی بزرگوں کے ساتھ نارواں رہا،جس کے سبب حضرت مخدوم جہانیاں جہانگشت ،احتجاجاً ’’شیخ الاسلام‘‘کے منصب سے مستعفی ہوگئے ،حالانکہ سلطنت میں شرعی احکام کے نفاذاوراُمورِ دینیہ کی تحفیظ کے حوالے سے یہ منصب بہت اہم تھا۔فقراء اور درویشوں کے وظائف وغیرہ اسی کے آفس سے جاری ہوتے اور’’قاضی القضاۃ ‘‘ اور صدرالصدور کے ساتھ مل کر دین کی ترویج وتبلیغ اورالحاد و بے دینی کا انسداد ہوتا،تاہم آپ نے حکومتِ وقت سے مقاطعہ کیا،یہاں تک کہ محمدتغلق نے داعی اجل کو لبیک کہا،خلقِ خداکے ساتھ عدل وانصاف کے برتائوکے وعدے کی بناء پر فیروز شاہ کی تخت نشینی حضرت شیخ نصیر الدین چراغ دہلی اور حضرت مخدوم جہانیاں جہانگشت بخاری کی تائید سے عمل میںآئی، جو کہ اُس وقت سندھ میں تھا،چنانچہ فیروز شاہ ٹھٹھہ سے واپسی پر اوچ شریف حاضر ہوا ۔ برصغیر میں ایسے علمائے ربانیین ،اولیائے کرام اور صوفیائے عظام کے علمی، دینی ،تدریسی، اصلاحی اور روحانی خدماتِ جلیلہ کے سبب پرچمِ اسلام کو سربلندی عطاہوئی۔مساجد کی تعمیر و آباد کاری ، دینی مدارس کا قیام و سلسلۂ تدریس کا اجراء اور خانقاہوں کا وجود ۔۔۔ ایسے عظیم المرتبت روحانی خانوادوںکی سعی و کاوش کے سبب معرضِ عمل میں آیا۔مدرسہ اور خانقاہ کا امتزاج ،طریقت وشریعت کی ہم آہنگی،صوفی اور عالم کا اشتراکِ عمل ہماری تبلیغی اور اصلاحی تاریخ کا سرنامہ ہے۔آج بد قسمتی سے تصوف و روحانیت کو دین سے الگ اورصوفی کو مبلغ سے جدا کرنے اورصوفیاء کی تبلیغی و اصلاحی مساعی جمیلہ کو موثر انداز میں پیش کرنے سے اعراض برتا جارہا ہے،جس کے سبب تذکیۂ نفس، تعمیر سیرت اور تشکیلِ کردار جیسے بلند مقاصد اور صوفیائے متقدمین کے گراں قدر احوال وملفوظات سے اکتسابِ فیض کے جذبے ماند پڑرہے ہیں،بایں وجہ محراب ومنبر اور مدرسہ وخانقاہ جیسے مراکزِعلم وعرفان کہتری کا شکار ہیں۔