لاہور میں روایتی طور پر عید کا اہم اجتماع بادشاہی مسجدمیںہوتا ہے ،جس میں گورنر پنجاب بالعموم شریک ہوتے ہیں ۔ بادشاہی مسجد کی کشادگی اور وسعت اس نوعیت کے اجتماعات کے لیے نہایت موزوں ہے اوریہاں پر کافی حد تک سرکار ی نظم ونسق کی اَب بھی اُسی طرح پابندی ہوتی ہے ،جتنی ماضی قریب بلکہ اس سے بھی پہلے ---یعنی عہد مغلیہ میں،جب ان امور کو دیکھنے اور مانیٹر کرنے کا اختیار اس وقت کے صدر الصدور اور شیخ الاسلام کے پاس ہوتاتھا ،یہی نہیں ۔۔۔ بلکہ چاند دیکھنے کی رویت اور عدم رویت کا حتمی فیصلہ بھی اسی کے دائرہ کار میں آتا ہو گا ۔ہندوستان کے سلاطین نے حکومت کے نظم ونسق کا آئین زیادہ تر خلافتِ بغداد سے اخذ کیا ، مقامی حالات وضروریات کے تحت ،بعض ترمیمات واضافہ جات کے ساتھ ، اُسے یہاں کے لیے قابلِ عمل بنایا ،جس کے مطابق مذہبی امور، عدل وانصاف اور احتساب کے محکمے بالعموم ’’صدر الصدور‘‘کے ماتحت تھے ۔ علماء ، آئمہ وخطباء ، مساجد ومدارس کے علاوہ احتساب (Accountability) اور عدلیہ کے شعبے بھی اس میں بطورِ خاص شامل تھے ۔ ابنِ بطوطہ نے ’’شیخ الاسلام‘‘کا تذکرہ بھی خاص اہمیت کے ساتھ کیا ہے ، جو عموماً صدر الصدور کے ماتحت ہوتا ۔ان ادوار میں نظام الملک ،موید الملک ،صدر الملک اورعین الملک جیسے حکومتی عمائدین، سلطانِ وقت کی مشاورت میں بطور خاص شامل ہوتے ،جبکہ شیخ الاسلام اور صدر الصدور وغیرہ کواہم پالیسی ساز معاملات میں زیادہ اہمیت حاصل نہ ہوتی ،تاہم مذہبی امور میں ان کی رائے کومقدم جانا جاتا ۔ مذہبی طبقات بالخصوص صوفیا اور خانقاہ نشینوں کے ساتھ ، حکومت کے ایماء پر بہترین تعلقاتِ کار کا اہتمام ’’شیخ الاسلام ‘‘کی خصوصی ذمہ داری تھی ۔مکاتب ومدارس اور مساجد وخانقاہوں کے لیے خصوصی فنڈز کا اجراء اور اوقاف کا قیام ، مذہبی تہوار بالخصوص عیدین اور شب برأت پر خاص اہتمام ، ماہِ رمضان میں خصوصی محافل کا انعقاد اور علماء کے ساتھ سلاطین کی ملاقاتوں جیسے امور اسی شعبے کو تفویض تھے۔ عمومی طور پر سلاطین وبادشاہ اپنی رعایا کے مذہبی جذبات کے قدر دان رہتے ،تاہم بسا اوقات ’’شیخ الاسلام ‘‘ بعض خانقاہوں اور زاویوں میں اپنے اثرورسوخ کو کمزور محسوس کرتا، تو اپنی اس بے بسی کے ازالے کے لیے سلطان اوربادشاہ کے اقتدار کا اثر و نفوذ ---دینی اور روحانی زندگی کے ان گوشوں تک پہنچانے کی کوشش کرتا، جہاں عام حالات میں سیاسی اثرات کا گذر ان مقامات سے شاید اس انداز میںنہ ہوتا ۔ ایسی ہی کئی صورتوں میں سلطان وقت کو محضرطلب کرنے پڑے، جس کا نتیجہ از خود حکومت کے لیے اچھا نہ ہوا۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء ؒکا عہد اوربالخصوص دہلی کے اندر ان کی خانقاہ، ایک خود مختار روحانی سطوت کی امین تھی، جس کے تحت ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں میںاُن کے مرکزی نظام سے منسلک سات سو خلفاء ایسے تھے ،جو آفتابِ معرفت کی روشنی سے عامۃُ الناس کے قلب وذہن کو علم وآگہی سے آراستہ کرنے میں ہمہ وقت مصروف رہتے ۔ علاء الدین خلجی سے لیکر غیاث الدین تغلق تک ۔۔۔ سلاطین زمانہ ، سلطانُ المشائخ ؒ کی روحانی سر بلندی اور دینی وعلمی جلالت کے سامنے اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتے،معاصرانہ تاریخیں اس پر گواہ ہیں کہ سلطان المشائخ کی خانقاہ دربار ِ شاہی کے مقابل ۔۔۔ ایسی بار گاہ تھی جہاں عوام اور امرأ ارادت وعقیدت سے حاضر ہوتے ،تاریخِ ہند اس امر کی شاہد ہے کہ سلطان المشائخ کا اتنا اثر تھا کہ علاء الدین خلجی جیسا جابر بادشاہ بھی اُن سے خم کھاتا اور ان کے احکام کا پاس کرتا ۔ خواجہ نظام ؒ کی درگاہ ایک روحانی سطوت کا عملی اظہار تھی جس میں ایک مضبوط مرکز ، مادی وسائل کی عدم دستیابی کے باوجود وسیع دائرہ اثر اور دیار وامصار کے دینی وروحانی معاملات سے ربط کا مؤثر نظام موجود تھا۔ اقتدار کی طاقت اور قوت کا اثر تو صرف انسانی جسم پر نظر آتا ہے جبکہ دین وفقر کی حکمرانی وہاں تک ہے۔۔۔ جہاں فکر ونظر کے زاویے ڈھلتے اورشخصیت بنتی اور سنورتی ہے ۔حضرت خواجہ نظام الدین ؒکے اس اثر ورسوخ سے اربابِ بست وکشاد ہمیشہ پریشان رہتے ، مستزادیہ کہ صدر الصدور اور شیخ الاسلام جو بنیادی طور پر خانقاہ اور تخت شاہی کے درمیان خوشگوار تعلقات کے ذمہ دار تھے، غیر موثر ہونے کے سبب نت نئے حربوں او ر حیلوں سے بادشاہ ِ وقت کو صوفیاء اوران کی خانقاہوں کے خلاف برانگیختہ کرتے اوراپنی نااہلی اور کوتاہی چھپانے کے لیے اُ ن سے ایسے احکامات جاری کرواتے جن سے تعاون کی بجائے تصادم کی فضا قائم ہو۔ سماع کے جواز کے مسئلہ پر حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کو جب شاہی دربار میں آنا پڑا تو آپ وہاں سے انتہائی آزرد ہ واپس لوٹے تھے اوریہاں تک کہ آپ ؒ نے فرمایا کہ میںنے اپنے مؤقف میں حدیث رسول ﷺ پیش کی جبکہ درباری علماء نے حدیث کے مقابلے میں اپنے مؤقف کی تائید میں قول فقیہ کونہ صرف پیش کیا بلکہ ترجیح بھی دی ، آپؒ نے فرمایا کہ وہ شہر کس طرح قائم رہ سکتا ہے جہاں حدیث رسول ﷺ پر قول فقیہ کو ترجیح دی جائے ۔ چنانچہ آپ ؒ کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ تاریخ میں اَمر ہوگئے۔ ۔۔اورتغلق کے دور میں دہلی برباد اور ویران ہوئی ۔ قطب الدین مبارک شاہ نے تو حضرت خواجہ نظامؒ کی خانقاہ کے متوازی ایک نیا خانقاہی سسٹم لائونچ کرنے کی بھی کوشش کی ،جبکہ سلطان محمد تغلق نے اس پورے نظام کو ’’حکومتِ ظاہری ‘‘کے تابع لانے کا منصوبہ تیار کیا، اس نے شیخ الاسلام کے منصب کو فعال بنانے کے لیے کئی اقدامات کیے۔ شیخ الاسلام کو صدر الصدور کے مساوی اختیارات تفویض کرتے ہوئے ،اس کی تنخواہ بھی اسی کے برابر یعنی ساٹھ ہزار ٹنکے مقرر کی ، تاہم ’’قطبِ وقت‘‘کے آگے کسی کا چراغ نہ جل سکا۔ اکبر کے عہد میں شیخ الاسلام مخدوم الملک عبداللہ سلطانپوری اورصدر الصدور شیخ عبدالنبی انتہائی معتبر اور مقتدر تھے ، بالخصوص مخدوم الملک عبداللہ سلطانپوری کو سب پر ترجیح میسر تھی ۔ ان کی قدردانی کا سلسلہ ہمایوں سے شروع ہوا ، شیر شاہ نے انہیں شیخ الاسلام کے عہدہ سے سرفراز کیا۔ سلیم شاہ کے عہد میں ان کا زور اور دبدبہ مزید بڑھا اور وہ ملاقات کے وقت ان کو اپنے پاس بٹھانے لگا ، لیکن افسوس کہ مخدوم الملک اور شیخ الاسلام نے اپنا اختیار اور اقتدار دو کاموں کے لیے استعمال کیا ،ایک کسبِ زر کے لیے اور دوسرا فسادِ مملکت کا خطر ہ دکھا کر ۔۔۔ ایک طرف حکومت کو زیر بار کرنا اور دوسری طرف ہر عالم اور درویش کو اذیت پہنچانا جو ان سے کسی معاملہ یا مسئلہ میں اختلاف رکھتا ہو۔ جبکہ ان کے ترکے کا یہ عالم تھا کہ جب دنیا سے رخصت ہوئے تو صرف تین کروڑ نقدی گھر سے برآمد ہوئی ،جبکہ ڈھیروں سونا الگ سے تھا ۔اسی طرح صدر الصدور شیخ عبد النبی ، جو معروف بزرگ شیخ عبدالقدوس گنگوہی کے پوتے تھے ، اپنے جاہ وجلال میں مخدوم الملک جیسے تو نہ تھے تاہم مسجدوں اور خانقاہوں کو میسر مراعات بھی ان کے کارندے آسانی سے آگے پہنچنے نہیں دیتے تھے۔شمس الدین التمش کی حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ سے عقیدت وارادت برصغیر کی تاریخ تصوّف کا ایک منفرد باب ہے ، تاہم یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اسی کے عہد میں دہلی کے شیخ الاسلام نجم الدین صغریٰ کو قطب صاحب کا مقام ومرتبہ پسند نہ تھا ، چنانچہ شیخ الاسلام کے اس معاندانہ رویّے کے پیش نظر خواجہ معین الدین چشتیؒ نے خواجہ قطب کو اپنے ہمراہ اجمیر لے جانے کا فیصلہ کر لیا تو دہلی میں کہرام مچ گیا ،تمام شہر مع سلطان التمش آپ کے پیچھے نکل آئے ، جس جگہ خواجہ قطب کے قدم لگتے لوگ اس جگہ کی خاک کو تبرکاً اُ ٹھا لیتے ، اور انتہا درجے کی بے قراری اور بے تابی کااظہار کرتے ۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ نے جب یہ صورت دیکھی تو فرمایا۔ بابا بختیار تم یہی قیام کرو ، میں دہلی کو تمہارے حوالے کرتا اور تمہاری پناہ میں دیتا ہوں ۔