بالفرض بیرسٹر اعتزاز احسن مقابلے سے دستبردار ہو جائیں تو مولانا فضل الرحمن صدارتی انتخاب جیت سکتے ہیں؟ خواب دیکھنے پر پابندی نہیں لیکن سینٹ‘ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ووٹوں کے تناسب سے واقف ہر معقول شخص کا جواب نفی میں ہے۔1993ء میں صدارتی معرکہ برپا ہوا تو مسلم لیگ کو سینٹ میں برتری حاصل تھی اور پنجاب میں پوزیشن کم و بیش موجودہ عددی تناسب سے ملتی جلتی۔ پیپلز پارٹی خوفزدہ تھی اور اسٹیبلشمنٹ کی یہ خواہش کہ صدر کوئی غیر متنازعہ شخص ہو۔ ایئر مارشل اصغر خان کا نام دونوں جماعتوں کے متفقہ امیدوار کی حیثیت سے سامنے آیا اور متحدہ عرب امارات کے امیر شیخ زید بن سلطان النہیان نے تجویز پیش کی کہ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی مدت اقتدار کو نصف نصف بانٹ لیں۔ میاں نواز شریف پہلے تو اپنے امیدوار یعنی بیرسٹر وسیم سجاد کے نام پر ڈٹے رہے جو چیئرمین سینٹ کے طور پر قائم مقام صدر تھے مگر جب انہیں بازی ہاتھ سے نکلتی محسوس ہوئی تو انہوں نے نوابزادہ نصراللہ خان کا دروازہ کھٹکھٹایا اور درخواست کی کہ وہ دونوں جماعتوں کے متفقہ امیدوار بن جائیں۔ نواب صاحب محترمہ بے نظیر بھٹو سے وعدہ کر چکے تھے کہ وہ سردار فاروق احمد خان لغاری کو ووٹ دیں گے چنانچہ ساری کوششیں رائیگاں گئیں اور پیپلز پارٹی کا امیدوار بھاری اکثریت سے کامیاب ہو گیا۔ یہ بے نظیر بھٹو کی حکمرانی کا کرشمہ تھا‘ فاروق لغاری کی شخصیت کا اعجاز یا پیر پگارا ‘ نوابزادہ نصراللہ خان اور حامد ناصر چٹھہ کی طرف سے میاں نواز شریف اور ان کے امیدوار کو نیچا دکھانے کی شعوری کوششوں کا نتیجہ؟ میرے خیال میں سارے عوامل یکجا ہوئے۔ 1990ء کے عشرے میں حکومت اور اپوزیشن کے مابین محاذ آرائی اور تصادم جبکہ پچھلے ایک عشرے کے دوران دونوںبڑی پارٹیوں میں مک مکا کا نتیجہ عوامی مسائل سے حکومت کی یکسر بے رخی اور لوٹ مار کے کلچر میں روز افزوں اضافے کی صورت میں برآمد ہوا‘ قومی معیشت تباہ ہوئی اور گورننس کا بیڑا غرق ہو گیا۔1990ء کے عشرے میں اسٹیبلشمنٹ محاذ آرائی اور تصادم کے کلچر کو فروغ دینے میں شریک جرم تھی جبکہ پچھلے دس سال کے دوران وہ تماشائی۔ اب مگر حالات مختلف ہیں وہ ملک میں فی الوقت محاذ آرائی اور تصادم چاہتی ہے نہ خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنے پر آمادہ۔25جولائی کے بعد وہ حکومت سازی میں فریق بنی نہ اس نے قومی معاملات کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑا۔ پنجاب میں بدترین ہارس ٹریڈنگ کی روک تھام ان عقابی نگاہوں کے طفیل ممکن ہوئی جو آزاد ارکان اسمبلی پر لگی تھیں اور جس کا احساس تحریک انصاف کے بعض زود رنج ارکان کو بھی تھا، وہ ارکان جو ایسی صورت میں اپنی پرچی اور وفاداری کی قیمت وصول کرنے میں مضائقہ نہیں سمجھتے۔ لوگ جو بھی کہیں مگر آصف علی زرداری ماضی کے تلخ تجربات کی بنا پر اب مسلم لیگ(ن) کی سودے بازی کی پوزیشن مضبوط کرنے کے حق میں ہیں نہ شریف خاندان کو یہ موقع دینے کے لیے تیار کہ وہ متفقہ امیدوار کے نام پر پیپلز پارٹی میں نقب زنی کرے اور رضا ربانی ایسے شخص کو سامنے لائے جس پر لیبل تو پیپلز پارٹی کا لگا ہو مگر حسن انتخاب وہ میاں نواز شریف کا نظر آئے۔ سول بالادستی کے نام پر جو ہمیشہ اپنے قومی اداروں کے خلاف وکیل استغاثہ کا کردار اداکرے۔ مولانا فضل الرحمن کا صدارتی امیدوار بننا بذات خود قابل اعتراض ہے وہ موجودہ اسمبلیوں کو تسلیم کرتے ہیں نہ ا رکان اسمبلی کے حلف اٹھانے کے حق میں تھے۔1993ء میں صدارتی انتخاب کے مرحلہ پر بعض حلقوں نے پیپلز پارٹی کے حلیف اور پنجاب میں حکمران دھڑے (جونیجو لیگ) کے سربراہ چودھری حامد ناصر چٹھہ کو اکسایا کہ وہ اپنے آپ کو بطور امیدوار پیش کریں بے نظیر بھٹو مجبور ہوں گی اور اپوزیشن متفق۔ مگر چٹھہ صاحب نے صاف جواب دیا کہ امیدوار نامزد کرنا اکثریتی پارٹی کا حق ہے ہم اس کے اتحادی ہیں اس تعلق اور پوزیشن کو ہم بلیک میلنگ کے لیے استعمال نہیں کریں گے۔ مجھے انہوں نے کہا’’یہ بدترین موقع پرستی ہے جس کی توقع لوگ مجھ سے نہ کریں‘‘۔ مولانا نے مگر ثالثی کمیٹی کے سربراہ بن کر موقع سے بھر پور فائدہ اٹھایا اور اعتزاز احسن کے الفاظ میں نکاح خواں دولہا بن گیا۔ مذہبی رہنما کے طور پر انہوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ لوگ کیا کہیں گے اور پارلیمنٹ کے وہ ارکان انہیں ووٹ کیوں دیں گے جو ان کے نظریات اور تصورات سے متفق ہیں نہ شخصیت سے متاثر اور نہ ایوان صدر اور ایوان وزیر اعظم کے مابین تصادم اور محاذ آرائی کے خواہش مند۔2002ء میں عام انتخابات کے بعد ایم ایم اے تیسری بڑی سیاسی جماعت کے طور پر اُبھری اور سترہویں آئینی ترمیم کی منظوری مشکل ہو گئی تو بعض حلقوں نے ایم ایم اے کی قیادت کو یہ پٹی پڑھائی کہ وہ پرویز مشرف کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر بھر پور سودے بازی کرے چنانچہ ایک فارمولا منظر عام پر آیا جس کے تحت ڈپٹی وزیر اعظم‘ چیئرمین سینٹ اور کابینہ میں سینئر وزیر کے علاوہ غالباً ڈپٹی سپیکر کے مناصب ایم ایم اے کو سونپے جا سکتے تھے۔ مولانا شاہ احمد نورانی ایسے کسی معاہدے کے حق میں نہیں تھے‘ ان کا خیال تھا کہ ہم اپوزیشن کی نشستوں پر بیٹھ کر حق نمائندگی ادا کریں اور عوام کو یہ تاثر نہ دیں کہ چند مناصب کے عوض مذہبی جماعتوں نے ایک فوجی آمر کو باوردی صدر کے طور پر قبول کر لیا۔ جب یہ فارمولا مولانا نورانی کو پیش کرتے ہوئے ایم ایم اے کی لیڈر شپ نے چکمہ دیا کہ فوجی قیادت مولانا فضل الرحمن کو بطور ڈپٹی وزیر اعظم‘ آپ کو بطور چیئرمین سینٹ قبول کرنے پر آمادہ ہے تو مولانا نے پیشکش کو پائے حقارت سے ٹھکراتے ہوئے کہا ’’حضرات آپ مجھے بے وقوف سمجھتے ہیں یا جنرل پرویز مشرف کو احمق۔ آپ نہیں جانتے کہ چیئرمین سینٹ قائم مقام صدر کے فرائض بھی انجام دیتا ہے۔ کیا ایک داڑھی والے شخص (اشارہ صدر رفیق تارڑ کی طرف تھا) کو ایوان صدر سے نکال کر فوجی آمر مجھے وہاں دیکھنا پسند کرے گا اور کیا اس کا آقا ولی نعمت (امریکہ) مجھے قبول کر سکتا ہے‘‘۔ مولانا مگر بضد ہیں کہ اگر پیپلز پارٹی ان کا ساتھ دے تو وہ صدر بن سکتے ہیں اور محمود اچکزئی اور میاں نواز شریف کے ایجنڈے کے مطابق عمران خان اور فوجی قیادت کے سینے پر مونگ دلنے کے لئے تیار۔ کوششیں جاری ہیں اور پیپلز پارٹی مولانا کو دستبردار کرانے کے لیے کوشاں ہے لیکن یہ امکان پھر بھی نہیں کہ اپوزیشن کا متفقہ امیدوار اگر اعتزاز احسن ہو تو صدارتی معرکہ سر کیا جا سکتا ہے یہ عدم استحکام کی خواہش مند قوتوں کی خواہش تو ہو سکتی ہے ‘ اعتزاز احسن کو عارف علوی سے بہتر امیدوار سمجھنے والے دوستانِ اعتزاز کی بھی‘ مگر زمینی حقائق بالکل مختلف ہیں۔ اعتزاز احسن اگر عوام کا موڈ اور حالات کا رخ پہچاننے کی صلاحیت سے مالا مال ہوتے، چند سال قبل کرپشن و نااہلی کے الزامات سے لت پت پی پی قیادت کی وفاداری کا دم بھرتے رہنے کے بجائے نوجوان نسل کی امیدوں کے مرکز تحریک انصاف کا رخ کرتے‘ تو شائد آج اس منصب کے سب سے زیادہ حقدار قرار پاتے مگر اعتزاز احسن کو بس مس کرنے کا ہنرخوب آتا ہے ۔ عدلیہ تحریک کے دوران انہیں جو عروج ملا وہ اسے برقرارنہ رکھ سکے اور دوبارہ پیپلز پارٹی کی کان نمک میں جا کر نمک ہو گئے ورنہ آدمی وہ کام کے ہیں۔ آصف علی زرداری نے اعتزاز احسن کو صدارتی امیدوار نامزد کرنے سے قبل ان کی ناکامی کا اہتمام کیا ۔میاں شہباز شریف کو ووٹ نہ دینے کے بعد مسلم لیگ سے یہ توقع کرنا کہ وہ پیپلز پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دے گی‘ اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ لیکن اسی کا نام سیاست ہے اور آصف علی زرداری کو مخدوم جاوید ہاشمی سیاست کا پی ایچ ڈی قرار دے چکے ہیں۔ڈاکٹر آصف زرداری نے ڈاکٹرعارف علوی کی کامیابی کی راہ ہموار کی‘ کامرانی کے بعد تحریک انصاف کو ان کاشکریہ ضرور ادا کرنا چاہیے۔