وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے حوالے سے عوامی مایوسی بڑھ رہی ہے۔ ان کی حکومتی کارکردگی کا ایک سال ہوچکا، اس پر تجزیہ قرض ہے، اللہ نے چاہا تو جلد لکھا جائے گا۔ سردست ان کی حکومت کے ایک پہلو پر بات کرنا ہے۔ پاکستان میں صدارتی ایوارڈز کے معاملے کو اس بے دردی اور بے رحمی سے اقرباپروری کے لئے برتا گیا ہے کہ ان ایوارڈ کی توقیر کم ہوگئی۔ اس حوالے سے آصف زرداری حکومت سب سے زیادہ نمبر حاصل کرکے ٹاپ پر آتی ہے جس میں وزیراعظم کی پرنسپل سیکریٹری سے لے کراس وقت کے وزرا ، مشیروں تک کو ایوارڈ ریوڑیوں کی طرح بانٹ دئیے گئے۔ میاں نواز شریف حکومت کے دور میں بعض ایوارڈز پر غلط بخشی یا اپنے ہم خیال لوگوں کو دینے کا الزام لگ سکتا ہے، مگر بہرحال وہ لوگ جینوئن تھے اور جلد یا بدیر انہیں ایوارڈ مل ہی جاتا۔ اس دور میں بعض ایسے مستحق لوگوں کو بھی ایوارڈز ملے جنہیں برسوں پہلے مل جانے چاہیے تھے ۔ کچھ نہ کچھ ہوا، اگرچہ اس میں مزید بہتری کی گنجائش موجود تھی۔ تحریک انصاف کی حکومت کے آتے ہی صدارتی سول ایوارڈز کا اعلان ہوا، مایوسی ہوئی، مگر خان صاحب کے مداحین کی تاویل یہ تھی کہ پورا پراسیس مکمل ہوچکا تھا اور حکومت کے پاس اور کوئی آپشن موجود نہیں تھی۔ اس بار چونکہ حکومت کو ایک سال ہوچکا ، چودہ اگست کو صدارتی ایوارڈز کی فہرست جاری ہوئی، جنہیں اگلے سال تیئس مارچ کو جناب صدر ایوارڈ یں گے۔ اس فہرست کو پڑھ کر شدید مایوسی ہوئی۔ مایوسی شائد چھوٹا لفظ ہے، حقیقت یہ ہے کہ صدمہ ہوا۔صرف ایک پہلو اچھا لگا کہ اس بار ایوارڈز لینے والوں میں خاصی تعداد انجینئرنگ کے شعبے سے تعلق رکھتی ہے، سائنس مضامین میں ریسرچ کرنے والوں کو بھی کئی ایوارڈ ملے۔ سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے دو افراد احمداللہ اور ریحان حسن کو ستارہ امتیاز دیا گیا۔ بہت اچھا لگا۔ سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے ان صاحبان کو تو ٹی وی چینلز کے پروگراموں میں مدعو کرنا چاہیے ،اخبارات میں ان کی قدآدم تصاویر والے اشتہار شائع ہونے چاہئیں۔ ٹیکس دینے والوں کو گلوریفائی کرنا آج کی اشد ضرورت ہے۔ پچھلی بار ہمیں شکوہ تھا کہ حکومت نے علم وادب ، صحافت کے لوگوں کو نظرانداز کر دیا ، اس بار زیادہ بے رحمی، سفاکی اور ڈھٹائی کے ساتھ ایسا کیا گیا۔ اس فہرست کا تجزیہ کرتے ہوئے میں نے تجزیہ کیا کہ فنون لطیفہ کے میدان میں کم از کم سولہ سترہ ایوارڈز دئیے گئے ہیں۔ ان میں ہم شوبز کی کیٹیگری کو دیکھیں تو غلام عباس(موسیقی)، سائیں ظہور(موسیقی)، فضل عباس جٹ(موسیقی)،ساحر علی بگا(موسیقی)، استاد خورشید حسن طبلہ نواز(موسیقی)، استا دابو محمد قوال(قوالی)،غلام محی الدین (اداکاری)،دیبا خانم( اداکاری) جبکہ ڈاکٹر ذوالفقار علی قریشی (موسیقی) کو پرائیڈ آف پرفارمنس یعنی صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی دیا گیا ہے۔ ہاں یاد آیا وارث بیگ جن کا بیس سال پہلے پہلا اور آخری گانا( دیکھاجو چہرہ تیرا…) ہٹ ہوا تھا، اس کے بعد موصوف پچھلے دو عشروں سے معلوم نہیں کیا کر رہے ہیں، انہیں بھی پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ دیا گیا۔ یہ فہرست ابھی ختم نہیں ہوئی، صدارتی ایوارڈز میں صرف پرائیڈ آف پرفارمنس تو نہیں ۔ گلوکارہ صنم ماروی کو تمغہ امتیاز دیا گیا ہے ، جبکہ رضوان بیگ فیشن ڈیزائنر کو بھی اسی اعزاز سے نوازا گیا۔ اسی کیٹیگری میں ڈاکٹر مسرت حسن پینٹنگ ، قیصر بیگ (موزیک)، نعیم پاشا (آرکیٹیکٹ /پینٹنگ)، فقیرو( سکلپچر یعنی مجسمہ سازی )کو تمغہ امتیاز ملا۔ ویسے تو مجھے حیرت ہے کہ ڈاکٹر تصدق سہیل جیسے عالمی شہرت یافتہ مصور کو ایوارڈ دلانے کے لئے فائن آرٹس والے کب آواز اٹھائیں گے ، اس شعبے میں اور بھی کئی بڑے نام محروم ہیں ۔خیر اس بار فنون لطیفہ کے ایوارڈز کی تعداد خیر سے سولہ بنتی ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ راقم ان لوگوں میںسے نہیں جنہیں فنون لطیفہ پسند نہیں، فنکاروں کو جو میراثی کہہ کر پکارتے ہیں۔ نہیں ، ہم فنون لطیفہ کے قدردان ہیں، شوبز کے لوگو ں کو ایوارڈز دئیے جانے کے حامی ہیں۔ سوال صرف یہ ہے کہ علم وادب اور صحافت کے لئے کتنے ایوارڈ ز رکھے گئے؟ جواب ہے، ادب کی کیٹیگری میں صرف دو لوگوں کو ایوارڈ ملے ہیں۔ دونوں مرحوم۔ ابن صفی کو ستارہ امتیاز دیا گیاجبکہ مرحومہ فہمیدہ ریاض کو تمغہ امتیاز ملا۔ ابن صفی کو ایوارڈ دینا تو ہر لحاظ سے مستحسن فیصلہ ہے کہ ان کا بڑا کنٹری بیوشن ہے، مگر انہیں کبھی ایوارڈ نہیں دیا گیا۔ اس بار نجانے کیسے مل گیا۔ فہمیدہ ریاض کو بھی ایوارڈ ملنا درست ہے، اگرچہ اس معاملے کے ساتھ ایک ناخوشگوار بات بھی جڑی ہے۔ اس بار ممتا ز ادیب، مترجم، مدیر شاہکار انسائیکلو پیڈیا سید قاسم محمود مرحوم کے لئے ایوارڈ دئیے جانے کی مہم چلائی گئی۔ ان کے بعض مداحین نے نام پیش کیا، ان کے گھر والوں سے سی وی اور دیگر ضروری دستاویزات بھی مکمل کرائیں، ورثا کو یقین دہانی کرائی گئی کہ ایوارڈ ملے گا، مگر جب اعلان ہوا تو سید قاسم محمود کا نام غائب تھا۔ سید صاحب کو رئیس امروہی’’ دیو ہزار دست‘‘ کہا کرتے تھے، درجنوں لوگوں پر مشتمل اداروں جتنا کام اس ایک شخص نے کیا۔ اردو زبان میں انسائیکلوپیڈیاز انہوں نے ہی شروع کئے۔ ان کی بے پناہ علمی ادبی خدمات کی تفصیل بتانے لگوں تو کالم ختم ہوجائے گا۔ افسوس کہ سید صاحب جیسے خوددار اور صاحب مرتبت شخص کے ساتھ زیادتی ہوئی۔ فہمیدہ ریاض بڑی شاعرہ تھیں، مگر انہیں چند سال پہلے پرائیڈ آف پرفارمنس مل چکا تھا۔ اگر کسی ایک کو چننا تھا تو سید قاسم محمود ہر لحاظ سے زیادہ موزوں تھے کہ انہیں ریاست پاکستان کی جانب سے کبھی کوئی ایوارڈ نہیں دیا گیا، حالانکہ وہ درجنوں ایوارڈزکے مستحق تھے۔ ویسے تو ان دونوں کو ایوارڈ دینے میں کیا رکاوٹ حائل تھی؟صحافت کے حوالے سے تو مزید افسوسناک معاملہ ہوا۔ ایک صاحب کو جرنلزم (پنجاب) کی کیٹیگری میں تمغہ امتیاز دیا گیا۔ اب نام کیا لکھا جائے، خود شرم آتی ہے۔ اجنبی نام دیکھ کر کئی سینئر صحافیوں سے پوچھا کہ یہ کون صاحب ہیں۔ معلوم ہوا کہ وہ صحافی ہیں ہی نہیں، کسی اخبار میں کوئی کالم والم شائد شائع ہوتا ہے اور یہ ایوارڈ پبلک ریلشننگ کا کمال ہے۔ع اے کمال افسوس ہے ، تجھ پر کمال افسوس ہے۔ اردوصحافت جس میں ہارون الرشید جیسا فسوں ساز کالم نگار پچھلے پچاس برسوں سے لکھ رہا ہو، وہاںانہیں ایوارڈ دئیے بغیر کسی دوسرے غیر معروف، گمنام کالم نگار کا حق بنتا ہے؟ بیالیس سال توہمارے شاہ جی کو بھی صحافت میں ہوگئے، ہزاروں ادارئیے ، کالم لکھے، تین عشروں سے زائد ادارت میں گزر گئے۔ قدرت اللہ چودھری جیسا درویش ایڈیٹر ، سجاد میر جیساسینئر صاحب اسلوب لکھاری موجود ہو،وہاں کسی اور کا نام ڈھونڈنے کی نوبت کیوں آئے ؟ اظہار الحق جیسا منفرد لکھاری ، منفرد شاعر جو کالم اور شاعری دونوں میں الگ الگ ایوارڈ ملنے کا مستحق ہے۔ڈاکٹر حسین پراچہ، اوریا مقبول جان،خاور نعیم ہاشمی، نصرت جاوید، عبداللہ طارق سہیل ، ایک طویل فہرست ہے ان لوگوں کی جو صحافت کا سنگھار ہیں۔ رائیٹ اور لیفٹ دونوں میں ایسے موجود ہیں۔ شاہ نواز فاروقی جو اپنی پارٹی کے اخبار میں لکھنے کی وجہ سے نمایاں نہ ہوسکے ۔ اعجاز منگی جیسا شاندار کالم نگار ، افسوس کہ پنجاب کے قارئین ان کے نام سے بھی واقف نہیں۔ مجاہد بریلوی صاحب نے تمام زندگی صحافت میں سربلند گزار دی۔ حسین نقی جیسے لیجنڈری جن کی عزیمت کے سامنے سابق چیف جسٹس کی نہ چل سکی۔ کتنے ہی نام ہیں۔ صحافت کے علاوہ فکشن اور علمی میدانوں میں بہت بڑے نام موجود ہیں۔ ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی جیسے بڑے محقق، اکرام اللہ چغتائی جیسے سکالرز، معین نظامی جیسے ماہر فارسی ادب، رفیع الدین ہاشمی جیسے ماہر اقبالیات، احمد جاوید جیسے جینوئن دانشور اور سکالر ۔مجھے کسی نے بتایا ، ابھی تک یقین نہیں آ رہا کہ پروفیسر احمد رفیق اختر کو بھی ایوارڈ نہیں دیا گیا۔ اگر سچ ہے تو یہ پوری قوم کے لئے صدمے کی بات ہے۔ فکشن میں محمد الیاس جیسا شاندار ادیب، طاہر اقبال جیسی افسانہ نگار، عاصم بٹ اور اختر رضا سلیمی جیسے درویش ناول نگار کو بھی ایوارڈ ملنے چاہئیں۔شاہد حمید جنہوں نے غیر معمولی تراجم کئے، انہیں کیا ہم ایسے ہی بھلا دیں گے۔ ا س سال ابن صفی کو ایوارڈ ملا، آئندہ برسوں میں ڈائجسٹ ادب کے لئے گراں قدر کام کرنے والے دیو قامت ادیبوں کو ایوارڈ دینے چاہئیں۔ محی الدین نواب، الیاس سیتاپوری ، ایم اے راحت اور علیم الحق حقی دنیا سے رخصت ہوگئے ، بعد ازمرگ ایوارڈ کے یہ مستحق ہیں۔معراج رسول ابھی رخصت ہوئے، ان کا کنٹری بیوشن بھی کم نہیں۔ ڈائجسٹ فکشن کے دو بڑے نام احمد اقبال، محمود احمد مودی موجود ہیں، ان کی پزیرائی ہونی چاہیے۔ طاہر جاوید مغل جو تاوان ، للکار، انگارے جیسے مقبول ترین سلسلہ وار ناولوں کے مصنف ہیں، کیا یہ پرائیڈ آف پرفارمنس کے مستحق نہیں؟ افسوس کہ عمران خان کی حکومت، ان کے قریبی حلقے بلکہ دور کے حلقے میں بھی کوئی اہل علم ، ادیب یا سکالر نظر نہیں آتا۔ جو انہیں بتا سکے کہ معاشرے صرف فنکاروں کی پزیرائی نہیں کرتے، ان میں زندگی کی اصل لہر علم وادب سے دوڑتی ہے۔ یہ قلم ہی ہے جو بادشاہی سکھاتا ہے اور افراد کو اوپر اٹھنا، کچھ غیر معمولی کر دکھانے پر اکساتا ہے۔ جو قومیںاپنے عالم،دانشور، ادیب، لکھنے والوں کی عزت نہیں کرتیں، ان میں تہذیب، دانائی اور دانش بھی رخصت ہوجاتی ہے۔