ایک طرف کرونا کا عذاب جاری ہے دوسری طرف بھوک ، غریب کیلئے بہت مسائل ہیں، میں اس موضوع پر لکھنا چاہتا تھا مگر 92 نیوز میں میرا کالم ’’صدام حسین کی موت کے ذمہ دار کون؟‘‘ شائع ہوا تو مجھے قارئین کی طرف سے فون آئے کہ تشنگی باقی ہے اُن کا اصرار تھا کہ دیار غیر میں عربی کفیل کے ظلم اور لالچی باپ کی ستم ظریفیوں کے باعث خودکشی کرنے والے صدام حسین کے ویڈیو پیغام کو مکمل ہونے دیں تو اُن کی خواہش پر میں ویڈیو پیغام کا دوسرا حصہ وزیر اعلیٰ صاحب اور دوسرے صاحب حیثیت افراد کی توجہ کیلئے پیش کررہا ہوں۔ صدام حسین اپنے بیان کو جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے کہ میرا ایک بیٹا ہے تین مہینے کا ہے میں اس کا نام ضرار ابن اضور رسول کریمؐ کے ایک صحابی کے نام پر رکھا ہے جو زیادہ جنگوں میں شریک ہوا۔ جنہوں نے جنگ یمامہ اور جنگ یموک میں دشمن کو اس طرح کاٹا جس طرح گاجر مولی کاٹی جاتی ہے، میں نے اپنے بیٹے کا نام رکھا کہ میرا بیٹا فوج میں جائے یا کرکٹر بنے، میں کیا کروں حالات مجھے ایسے رخ پر لے جا رہے ہیں کہ جیسے میں اپنوں کا اپنا نہیں دشمن ہوں ان کا، میں ان کیلئے ایک مشین ہوں پیسے کمانے والی، میرے دوست جو ویڈیو سن رہے ہیں وہ جانتے ہیں کہ وہ میرے پاس آتے ہیں میں ان کو روٹی کا نہیں کہتا، اس لیے نہیں کہتا کہ میرے پاس کچھ نہیں ہوتا، بعض اوقات میرے پاس آٹا نہیں ہوتا کھجور سے گزارہ کرتا ہوں، سالن نہیں ہوتا تو آٹے میں نمک زیادہ ڈال کر کھا لیتا ہوں کہ روٹی نمکین ہو جاتی ہے۔ ایسے حالات میں جی رہا ہوں، پھر بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں پھر بھی میرے ماں باپ مجھ پر ناراض ہوتے ہیں، میرے باپ میرے چھوٹے بھائیوں کو کہتا ہے کہ تمہارا بھائی پیسے بنا رہا ہے، تم غریب ہو جائو گے، تمہارا بھائی امیر ہو جائے گا، چھوٹے بھائی مجھ سے نفرت کرنے لگ گئے ہیں، میرا دنیا میں کوئی نہیں، میرا ایک چھوٹا بیٹا ہے جو ابھی نادان ہے اور میرے دوست ہیں اللہ تعالیٰ ان کو عزت دے جتنی تعریف کروں کم ہے، میرا دوست ہے پرویز احمد ماچھی قوم سے تعلق رکھتا ہے فاضل پور کا رہنے والا ہے، جتنے احسان ہیں میں بیان نہیں کر سکتا، جب مجھے پیسے کی ضرورت ہوتی ہے وہ مجھے دیتا مجھے پیسے گھر بھیجنے ہوتے ہیں، ماں باپ کو خوش کرنے کیلئے۔ اب بھی میں ان کا مقروض ہوں اس کے دوہزار پچاس درہم دینے ہیں۔ آج میں نے فیصلہ کیا ہے۔ صدام حسین اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے کہ آج میں اللہ تعالیٰ کے قانون کی خلاف ورزی کر رہا ہوں پتہ نہیں قبر میں کیا عذاب ملے گا جہنم تو میرے لیے پکا ہے، مجھے یقین ہے، میں آج خودکشی کرنے جا رہا ہوں اللہ میری مدد کرے، میں ایسا انسان ہوں جس نے آج تک کسی کا حق نہیں کھایا، کسی کو تکلیف نہیں دی، کسی کا دکھ نہیں دیکھا جاتا، کسی غریب کی تکلیف دیکھی تو میں نے اس کی مدد کر دی، جو ہو سکے مدد کرتا رہتا ہوں، پھر میں برا انسان ہوں، زندگی سے تنگ آگیا ہوں، مجھے زندگی پیاری بھی لگتی ہے، کوئی مجھے آکے بچا لے مسیحا، مرنے جا رہا ہوں پتہ ہے کہ جو خودکشی کرے جہنمی ہے، حالات سے تنگ ہوں، میری گزارش ہے میرے مسات (کزن) جاوید سے کہ میرا یہ ویڈیو سنبھال کر رکھ میرے بیٹے کو دکھانا جب بڑا ہو جائے، ابھی تین ماہ کا ہے، اس دکھانا کہ ضرار خان تمہارا باپ تم سے بہت پیار کرتا تھا مگر اسے اپنے جینے نہیں دیتے تھے دنیا میں، اس کو مشین سمجھتے تھے کام کرنے والی، اس کو تکلیف دیتے تھے جیسے وہ انسان نہیں اور اس کے سینے میں دل نہیں۔مجھے کتنی تکلیف ہوتی ہے یہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کہتے ہیں تو پیسے چھپا رہا ہے، ایسے کر رہا ہے ویسے کر رہا ہے۔ یہ دنیا بھی میرے لیے جہنم بنا ہوا ہے، میرے اپنوں نے، خاص طور میرے بابا نے اللہ تعالیٰ اس کو اجر دے جنت میں جگہ دے میرا بابا ہے، میں اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔جتنا ہو سکتا تھا میں نے اس کو اعتبار دیا کہ بابا میں پیسے نہیں چھپا رہا، جنگلوں میں کام کرتا ہوں، میں دبئی میں ہوں۔ دبئی میں مرنے والوں کو حکومت دو لاکھ درہم دیتی ہے، دعا کرتا ہوں کہ میرے گھر والوں کو مل جائیں، میرے کام کے نہیں، میں تو مر جائوں گا میرے گھر ایک بیوی ہے ایک بچہ ہے یہ لوگ ان کو بھی بھگا دیں گے ، مجھے پتہ ہے یہ کتنا پیار کرتے ہیں، چلو ان کو پیسے مل جائیں کہ ان کو پیسے چاہئیں اگر دنیا میں ان کے کام نہیں آیا تو مرنے کے بعد آجائوں۔ اللہ نگہبان۔ آپ نے مرحوم صدام حسین خان ملغانی کا مکمل بیان پڑھا ۔ اس میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ نوجوان کتنا سنجیدہ اور سمجھ دار تھا کہ اس نے سخت سے سخت بات بھی نرم لہجے میں کی اور موت کی وادی میں جاتے ہوئے بھی اس نے اپنے اُس باپ کو دعا دی جو کہ ایک لحاظ سے اس کی موت کا باعث تھا ۔ دُعا دیتے ہوئے صدام نے یہ بھی کہا کہ خدا کرے دبئی حکومت کی طرف سے میرے بابا کو دو لاکھ درہم مل جائیں کہ اسے پیسے کی ضرورت ہے ۔صدام حسین کی موت کا ذمہ دار اس کا عرب کفیل بھی ہے اور عرب کفیل کا مصری ملازم بھی ،جو کہ عرصہ دراز سے اسے جسمانی و ذہنی اذیت دے رہے تھے ۔ ایک ذمہ دار نوجوان کے عدم برداشت کے اُس رویہ پر بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ موت برداشت کر لیتے ہیں مگر والدین کی بات برداشت نہیں کرتے ۔ دولت کی لالچ کے حوالے سے صدام کا باپ بھی ذمہ دار ہے جسے اولاد سے زیادہ دولت عزیز ہے اور ایک حوالے سے موت کی ذمہ داری پاکستان کے حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ تمام وسائل ہونے کے باوجود وسیب کے نوجوانوں کو روزگار دینے سے قاصر ہیں ۔ موت کے ذمہ دار وسیب کے جاگیردار اور تمندار بھی ہیں جنہوںنے آج تک وسیب میں ترقی نہیں ہونے دی ۔ خود کشی کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جن کا ذکر صدام نے اپنے ویڈیو پیغام میں کر دیا ہے ۔ صدام کی روح کو خوش کرنے کی ایک صورت ہے کہ اس کے بیٹے ضرار اور اس کی بیوہ کی اشک شوئی کی جائے اور ضرار کے نام پر ایک بینک اکائونٹ اوپن ہونا چاہئے جس میں بیس پچیس لاکھ جمع ہوں تاکہ یتیم اور غمزدہ بیوہ کے اخراجات پورے ہو سکیں۔ وزیر اعلیٰ سردار عثمان خان بزدار کو اس اہم مسئلے کی طرف ضرور توجہ دینی چاہئے ۔