معزز قارئین!۔ یکم دسمبر کو صدرِ مملکت جناب عارف اُلرحمن علوی کا دورۂ پشاور کامیاب رہا ۔ خبروں کے مطابق’’ اُنہوں نے قومی امور پرپریس کانفرنس سے خطاب کِیا ۔ عوامی نیشنل پارٹی کے راہنما ہارون بلور اور امیر جمعیت عُلماء اسلام ( سمیع اُلحق گروپ) کی وفات پر اُن کے خاندان سے تعزیت کی اور "Box Item" یہ کہ ’’ صدرِ مملکت بھی کپتان ؔ چپل کے دیوانے نکلے‘‘ عام طور پر چپلؔ ایک خاص قِسم کی پشاوری جوتی۔ ( کھیڑی) کو پشاوریؔ چپل کہا جاتا ہے (خواہ وہ پاکستان کے کسی بھی علاقے میں تیار ہوتی یا پہنی جاتی ہو۔ یہ کپتان ؔچپل کب ایجاد ہُوئی؟ مجھے نہیں معلوم؟ اگر واقعی ایسا ہے کہ مرحوم خان عبدالولی خان اور کسی دوسرے خانؔ کے نام پر چپل کیوں عام یا مشہور نہیں ہُوئی؟۔ خبر کے مطابق ’’ صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات ( پاکستان تحریک انصاف کے ) جناب شوکت یوسف زئی نے کپتان ؔچپل کے انتخاب اور اُس کے ناپ کے سلسلے میں جنابِ صدر کی راہنمائی کی۔ اُنہوں نے چپل ساز چاچا نور محمد کو بلوایا ، صدر مملکت نے اپنے پیروں کا ناپ دِیا اور دو جوڑی کپتان ؔچپل کا آرڈر دے دِیا۔ ہر انسان کو کسی نہ کسی طرز کی جوتی یا جوتے کی ضرورت ہوتی ہے۔ فرق یہ ہے کہ بادشاہ صدرِ مملکت ، وزیراعظم اور امراء قیمتی جوتے پہنتے ہیں اور کم آمدن والے لوگ اپنی حیثیت کے کم قیمت جوتیاںیا جوتے ۔ بہرحال چاچا نور محمد خُوش ہوگا کہ اُس کا نام تاریخ میں رقم ہوگیا حالانکہ ، آدم علیہ سلام کے نعلین سے لے کر نبی آخر زمان صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نعلین مبارک کا ذکر تو آتا ہے لیکن، نعلین ؔساز کون تھا؟معلوم نہیں۔ ہندو دیو مالا کے مطابق ’’ وِشنو دیوتا کے اوتار قدیم ریاست ایودھیاؔ کے ولی عہد شری رام ؔاپنے ’’پتِا ‘‘ راجا دشرتھ کے وعدے اور اپنی سوتیلی ماں ’’کیکئی ‘‘ کی خواہش پر اپنی اہلیہ سِیتا ؔاور ایک سوتیلے بھائی لکشمن کے ساتھ 14 سال کے لئے بن باس ( جِلا وطن ہو کر جنگل میں رہنے کے لئے ) جا رہے تھے تو اُن کے سوتیلے بھائی ( رانی کیکئی کے بیٹے ) راجا بھرتؔنے بڑے بھائی شری رام کی کھڑائوں ( لکڑی کی جُوتیاں ) مانگ لی تھیں اور جب تک ، شری رام ایودھیاؔ سے باہر رہے تو ، راجا بھرت شاہی تخت نہیں بیٹھے بلکہ اُنہوں نے اُس تخت پر شری رام کی کھڑائوں رکھ کر حکومت کی۔ سولہویں صدی عیسوی کی نامور شاعرہ کرشن بھگت میرا ؔ بائی (راجستھان کی ریاست ) ’’ میٹرتا‘‘ کے راجا رتن سنگھ کی بیٹی کی شادی چتوڑ کے رانا سنگرام سِنگھ المعروف رانا سانگا کے بیٹے کنور بھوج راج سے ہوئی لیکن جب بیوہ ہوگئی تو اُس نے ایک جوتا ساز اور شاعر رَے داؔس کی شاگردی قبول کرلی تھی۔ اِس لئے کہ رَے داس اُس سے بڑے کرشن بھگت تھے ۔ میرا بائی کی کہانی میں کہیں یہ تذکرہ نہیں ہے کہ ’’ رَے داس ؔنے میرا بائی، اُس کے راجا باپ ، رانا سُسر یا اُس کے پتی (شوہر) کے لئے بھی جوتا سازی کی تھی۔ ہندوستانی تاریخ میں اِس کا تذکرہ نہیں۔میرا بائی نے اپنے گُرو (اُستاد) کی نگرانی میں شری کرشن جی مہاراج کی مدح میں جتنے بھی بھجن لکھے وہ آج بھی ہندو ثقافت کا حصہ ہے۔ مغل بادشاہ اکبر کے بیٹے شہزادہ سلیم نے ( جو بعد میں نور اُلدّین جہانگیر کے نام سے ہندوستان کے تخت پر بیٹھا) اپنے لئے کسی جوتا ساز سے ایک بہت اعلیٰ طلائی جوتا بنوایا تھا جسے ’’ سلیم شاہی ‘‘ کہا جاتا تھا ۔ وہ جوتا ساز کون تھا ’’ تزکِ جہانگیری‘‘ سے پتہ نہیں چلتا۔ ہندوئوں کے باپو ’’انڈین نیشنل کانگریس ‘‘ کے سرپرست شری موہن داس کرم چند گاندھی بھی کھڑائوں ؔپہنتے تھے اور اُنہوں ہندوستان کی آزادی کے بعد رام راؔج قائم کرنے کا اعلان / وعدہ کِیا تھا لیکن اُنہیں مہلت نہیں ملی۔ اِس لئے کہ ہندوئوں کی دہشت گرد تنظیم، ’’راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ ‘‘ (R.S.S.S) کے ایک کارکن "Nathuram Godse" نے 30 جنوری 1948ء کو نئی دہلی میں قتل کردِیا تھا۔ گاندھی جی بھی ’’کھڑائوں ‘‘ پہنتے تھے ۔ ’’ کھڑائوں ساز‘‘ کون تھا ؟ ۔ پتا نہیں ؟۔ جنرل پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999ء کو وزیراعظم میاں نواز شریف کو برطرف کِیا تو، میاں صاحب کو ’’اپنے تخت پر ‘‘ چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف کو بٹھانے کا موقع نہیں مِلا۔ وہ اپنی جُوتیاں اپنے ساتھ لے گئے تھے ۔28 جولائی 2017ء کو سپریم کورٹ نے وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دِیا تو، میاں صاحب نے اپنے تخت پر جناب شاہد خاقان عباسی کو بٹھا دِیا لیکن، وزیراعظم عباسی نے نااہل وزیراعظم کے ’’ کھڑائوں / جُوتیاں / بوٹ ‘‘ تو نہیں پہنے لیکن، اُن پر انگریزی کی یہ "Phrase"( ضرب اُلمِثل ) صادق آتی ہے کہ "Big Shoes Little Feet" ( یعنی۔ بڑے جوتے چھوٹے پائوں) ۔ عباسی صاحب وزیراعظم کی حیثیت سے اور اُس کے بعد اب بھی اپنے قائد کی پوجا کرتے ہیں ۔ایک ضرب اُلمِثل ہے کہ ’’ جِس کسی سے مطلب ہو ، اُس کی جُوتیاں سر پر رکھنا یا جُوتیاں سیدھی کرنا‘‘۔ پرانے زمانے کے شاگرد اپنے اساتذہ کے بارے اِسی طرح کی عقیدت مندی کا اظہار کِیا کرتے تھے ۔ معزز قارئین! مَیں آج یہ سوچ رہا ہُوں کہ ’’ کیا پرانے زمانے کے اساتذہ ، اپنی جُوتیاں اُتار کر اِس لئے ٹیڑھی رکھتے تھے کہ اُن کا کوئی شاگرد اُنہیں سیدھی کردے یا اپنے سر پر رکھ لے؟‘‘۔ ہمارے یہاں فوجی اور با اختیار جمہوری صدر ، با اختیار وزیراعظم یا نام کے وزیراعظم کی خواہش ہوتی ہے کہ ’’ اُس کے ماتحت وزراء اور پارٹی کے اوپر سے لے کر نیچے تک تمام لوگ اُس کی اور اُس کے خاندان کی جُوتیاں سیدھی کرتے رہیں‘‘۔ جُوتیاں اُٹھانے یا سیدھی کرنے والوں کو ’’کفش بردار‘‘ کہا جاتا ہے ۔ اَودھ کے نواب واجد علی شاہ نے نہ جانے کسے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ … ایسے ہُوئے ہم سے آپ ،بیزار؟ ہیں ہم تو، تمہارے کفش بردار! …O… ظفر اکبر آبادی ؔنے اپنی محبوبہ سے کہا تھا کہ… انجم تاباں ،سر چرخ بریں ،چمکیں ہزار! پر نہ ، اپنی کفش پا کے ، تُم ستاروں میں گِنو! …O… اُستاد شاعر قلق ؔ کو نہ جانے کسی بڑی شخصیت سے کیا مطلب تھا؟ جب، اُنہوں نے ، اپنے سارے گھر کو، اُس شخصیت کا ’’کفش خانہ‘‘ ( جُوتے اُتار کر رکھنے کا گھر) قرار دیتے ہُوئے کہا کہ … یہ گھر بھی کفش ؔخانہ ہے آخر، حضور کا ! تشریف یاں بھی ، لایا کریں گاہ گاہ! …O… معزز قارئین!۔ قیام پاکستان سے پہلے قائداعظم محمد علی جناحؒ کی ۔ ’’جناح کیپ‘‘ اور گاندھی جی کی ٹوپیؔمشہور تھی۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے قائدین اور کارکنان عام جلسوں میں ’’ جناح کیپ‘‘ پہنتے تھے اور کانگریسی قائدین اور کارکن ’’گاندھی ٹوپی‘‘ پاکستان میں ایک عرصہ تک قائداعظمؒ کے عقیدت مند حکمران ’’ جناح کیپ‘‘ پہنتے رہے ہیں ۔ 18 اگست کو جناب عمران خان نے وزارتِ عظمیٰ کا حلف اُٹھایا اور 9 ستمبر کو جنابِ عارف اُلرحمن علوی نے صدارت کا ۔ کیا ہی اچھاہوتاکہ دونوں قائدین نے ’’جناح کیپ ‘‘ پہن رکھی ہوتی ؟۔ خاص طور پر وزیراعظم عمران خان نے عوامی جمہوریہ کے بانی چیئرمین مائو زے تنگ کی"Mao Cap" سے مختلف کوئی اپنی پسند کی ’’مخصوص ٹوپی‘‘ ؟ تو، وہ کم از کم پاکستان تحریک انصاف کے قائدین اور کارکنوں میں "Imran Cap" کے نام سے مشہور ہوجاتی ؟۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی وزارتِ عظمی کے دوسرے دَور میں (عوام نے) عوامی شاعر حبیب جالبؔ کا یہ شعر بہت پسند کِیا تھا کہ … ہر بلاولؔ ہے، دیس کا مقروض! پائوں ننگے ہیں، بے نظیروںؔ کے ! معزز قارئین!۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے بعد کسی بھی حکمران اور اب کپتان ؔعمران خان کے دَور میں بے شک غریبوں کے بیٹوں بیٹیوں کے نام بلاولؔ یا بے نظیرؔ نہ ہوں اُن کے پائوں ننگے ، پیٹ خالی اور جسم پر میلے اور گندے کپڑے ہیں ۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ’’ 100 دِن میں وزیراعظم عمران خان کی "Imran Cap" اِس صدر مقبول ہوگئی ہوتی کہ صدر عارف اُلرحمن علوی کے بارے میں پشاور سے یہ خبر میڈیا کی زینت بنتی کہ ’’ صدر مملکت بھی عمران کیپ ؔکے دیوانے ؟‘‘۔