میری سیاسی وابستگی کچھ بھی رہی ہو‘ ڈاکٹر عارف علوی کے صدر منتخب ہونے پر میں مبارکبادیں وصول کر رہا ہوں۔ یقینا یہ ایک دوست اور ہم سفر کی جیت ہے۔ عارف علوی کو میں تب سے جانتا ہوں جب وہ طالب علم تھے۔ لاہور میں داندان سازی کا واحد کالج تھا جو پورے ملک کی ضروریات پوری کرتا تھا۔ عارف علوی اس کالج کے طالب علم اور صدر تھے۔ مجھ سے دو سال چھوٹے ہیں‘ اس لیے ان کا عہد صدارت وہ تھا جب میں عملی صحافت کا آغاز کر چکا تھا۔ اس کالج میں ایک گروپ بہت زور آور تھا۔ عارف علوی جو ایوب خاں کے خلاف جمہوری جدوجہد میں ہمارے ہم رکاب تھے ‘ میرے لیے کسی طور اجنبی نہ تھے۔ انہوں نے اس مافیا کے خلاف اعلان جنگ کرایا۔ اپنا قلم بھی ایسا رواں ہوا کہ وہ لوگ مرنے مارنے کو تیار ہو گئے۔ مشترکہ جدوجہد کا یہ سمبندھن ایسا قائم ہوا کہ جب میں 73ء میں کراچی میں اترا تو جن دو ڈھائی لوگوں سے قریبی طور پر واقف تھا‘ ان میں یہی عارف علوی‘ منور حسن ‘ دوست محمد فیضی تھے۔ آتے ہی فون کیا‘ معلوم ہوا عارف اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ روانہ ہو چکے ہیں۔ جب یہ واپس آئے تو بہت سارے نظریاتی معرکے ہم نے اکٹھے سر کئے۔ ذہنی ہم خیالی کے ساتھ انداز و اسلوب میں بڑی مماثلت تھے۔ راتوں کو اکٹھے اجتماعات میں جانا مجھے اب تک یاد ہے۔ عارف علوی کے والد کراچی کے درجہ اول کے ڈینٹسٹ تھے۔ شاید مادر ملت اور نہرو خاندان کے افراد کے بھی معالج رہے۔ وہ تھے بھی بڑے دبنگ اور تحریکی آدمی۔ ایک بار انہوں نے شراب فروشی کے خلاف تحریک شروع کر دی۔ شہر میں شراب کی کوئی دکان کھلی نہ رہ سکی۔ عارف علوی اس کار خیر میں اپنے والد کے شریک کار تھے۔ جگہ جگہ جا کر دکانیں بند کراتے۔ یہ گویا ان کی تربیت کا دور تھا۔ معالج کے طور پر ان کا شمار شہر کراچی ہی نہیں‘ ملک کے بھی اہم ڈینٹسٹ میں ہوتا تھا۔ ایشیا ڈینٹسٹ ایسوسی ایشن اور پاکستان ڈینٹسٹ ایسوسی ایشن کے صدر بھی رہے۔ اس شعبے کے ڈاکٹر بہت مہنگے ہوتے ہیں‘ مجھے یاد ہے آج سے کوئی پندرہ سال پہلے فردوس شمیم نقوی نے جو اس وقت ان کی جماعت کے کراچی میں صدر ہیں ‘اور ایک بڑے کاروباری خاندان سے تعلق رکھتے ہیں‘ مجھ سے یہ کہا تھا کہ عارف علوی تو اس پایے کے ڈاکٹر ہیں کہ ان کی کرسی پر بیٹھنے کی فیس ہی ایک لاکھ روپے ہے۔ ظاہر ہے یہ مبالغہ ہے ‘ مگر یہ بتانے کا مطلب ہے کہ وہ اتنے بڑے پروفیشنل تھے۔ اپنے کلینک میں انہیں طلبہ کو تربیت دینے کی بھی اجازت تھی‘ جو ڈینٹسری میں فیلو شپ کرنا چاہتے ہوں۔ وہ ایک عرصہ میرے بھی معالج رہے اور ظاہر ہے اعزازی۔ میری اہلیہ ایک بار ان کے پاس جاتے ہوئے کترا رہی تھی کہ وہ فیس نہیں لیتے۔ ڈاکٹر صاحب نے ہنستے ہوئے کہا کہ یہ اس لیے نہیں کہ یہ صحافی ہیں‘ بلکہ اس لیے کہ ہماری ایک طویل رفاقت ہے۔ پھر ان کی تسلی کرتے ہوئے کہا ہم ان کے بہت مقروض ہیں‘ ان سے فیس کیسے لے سکتے ہیں۔ یہ ان کی محبت کا ایک اندازہ تھا جس نے میری اہلیہ کو بھی چپ کرا دیا۔ لاہور آنے کے بعد بھی میں کراچی ان کے پاس ان کے کلینک پر جاتا رہا۔ جب یہ نہ کر سکا تو اندازہ ہوا کہ دانتوں کی حفاظت کتنا مشکل کام ہے۔ اپنے مزاج کے خلاف میں ذاتی کہانی لکھنے بیٹھ گیا ہوں۔ اصل میں یہ ایک ہم سفری کی کہانی ہے۔ مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہیں جب نجیب ہارون مرے پاس تشریف لائے اور کہنے لگے میں اور عارف علوی یہ سوچ رہے ہیں کہ تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لیں۔ وہ بھی آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں ۔ آپ کی کیا رائے ہے کسی لگی لپٹی کے بغیر عرض کر دوں کہ اگر میں بھی سیاست میں ہوتا یا سیاست میں آنے کا ارادہ رکھتا تو میں بھی ان کے ساتھیوں میں ہوتا۔ اس نسل کو میں اچھی طرح پہچانتا ہوں جس نے 68ء کے دنوں میں طلبہ تحریکوں میں حصہ لیا تھا۔ یہ ایوبی آمریت کے خلاف جمہوریت کے پرستاروں کی نسل تھی۔ ایک وہ جو انقلاب کے نعروں میں بہہ گئی اور دوسری وہ جو ملک میں سنجیدہ اسلامی فکر کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتی تھی۔ نو جوان نسل ہی دو حصوں میں بٹی ہوئی نہ تھی۔ ان کے اثرات پہلی والی نسل پر نمایاں ہو رہے تھے۔ کیا کیا لوگ تھے جو آج کل کے محاورے میں اسلام کا پرچم لے کر نکلے تھے۔ ملک کے ممتاز ترین قانون دان ڈاکٹر اے کے بروہی‘ ممتاز ترین مورخ اور ماہر تعلیم ڈاکٹر اشتیاق قریشی ‘زیرک سیاستدان مشتاق گورمانی‘ ممتاز دانشور الطاف گوہر سب اس رو میں بہہ کر اتنا آگے نکل گئے تھے کہ مخالف ان پر جماعتیہ ہونے کی پھبتی کستے تھے۔ گورمانی صاحب تو خیر جماعت میں شامل ہو بھی گئے۔ یہ اس زمانے کا مقبول اور مہذب بیانیہ تھا۔ اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ ممتاز قانون دان خالد اسحق جس کی لائبریری ہی ان کے شجر علمی کی علامت تھی‘ اور اب غالباً لمس لاہور کا حصہ ہے۔ فکری طور پر اسلام کی اس تعبیر کے قائل تھے جو جماعت اسلامی کے مخالف تھی‘ مگر عرف عام میں وہ بھی جماعتیہ تھے۔ ویسے بھی کراچی میں ان دنوں سنجیدہ اسلامی اور پاکستانی ذہن رکھنے والے خود کو اس گروہ کے قریب پاتے ‘چاہے ان کا جماعت سے براہ راست تعلق نہ ہو۔ مولانا ظفر احمد انصاری اس کی ایک اور مثال ہیں۔ ڈاکٹر عارف علوی بھی ان قوتوں کا حصہ تھے۔ یہ جماعت میں شامل نہ تھے‘ مگر والد کی طرح دینی کاموں میں سرگرم تھے۔ یہ ایک انتخاب میں جماعت کی طرف سے نامزد بھی ہوئے‘ مگر وہ انتخاب ہی نہ ہو پائے۔ پھر جانے کیا ہوا کہ اس فکر کے لوگوں نے سوچنا شروع کیا کہ اگر ملک میں کوئی تبدیلی لانا ہے تو ہمیں کوئی اور گھر ڈھونڈنا پڑے گا۔ اسی گھر کی تلاش میں وہ مرحلہ آیا جب یہ تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔ کراچی میں عمران خان سے ان دو گھروں ہی میں ملاقات ہوئی ہے۔ نجیب ہارون اور عارف علوی۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے عمران ان دنوں عارف علوی کے گھر ہی ٹھہرا کرتے تھے۔ وہ بنی گالا جتنا تو نہیں مگر بڑا کشادہ گھر تھا اور بہت ہی رونقوں والی بستی میں تھا۔ عارف علوی کے ساتھ میں ان کمیٹیوں میں بھی شامل رہا ہوں جو ایک طرح کے تھنک ٹینک کے طور پر اہم سیاسی مشورے مرتب کرتی تھیں۔ میں تفصیل میں جانا نہیں چاہتا۔ صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ وہ نسل ہے جس نے فضائوں میں تبدیلی کے خواب دیکھے تھے۔ مگر یہ خواب بہت ’’پاکیزہ‘‘ اور سلجھے ہوئے تھے‘ ان میں کوئی چھچھورا پن نہ تھا۔ نہ کٹر مذہبیت تھی نہ بے مہار آزاد خیالی۔ یوں لگتا تھا ایک خوبصورت روشن خیال پاکستان جو ہمارے تہذیبی سوتوںسے جڑا ہوا ہو۔ آپ اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آج کی سول سوسائٹی کس طرح کا معاشرہ چاہتی ہے یا دیوار برلن گرنے سے پہلے کے اشتراکی کوچہ گرد کس طرح کی دنیا میں بستے تھے۔ مگر اس نسل کو ذرا مشکل ہے جن کے دامن توحید و رسالت کے پھولوں سے مہکتے ہوں اور جو ترقی کے عرش پر اپنے وطن کو ایک چمکتے ستارے کی طرح روشن بھی دیکھنا چاہتی ہو۔ یہ بڑی پرامید نسل تھی جسے بڑی مشکلات سے گزرنا پڑا۔ حالات نے انہیں کئی ٹھکانے ڈھونڈنے پر مجبور کیا۔ اس طرح یہ بکھر بھی گئے‘ مگر ان کے خواب کبھی منتشر نہ ہوئے۔ یقین کیجیے اس نسل کے لوگ جس پارٹی میں بھی ہوں‘ مجھے اچھے لگتے ہیں۔ اس لیے نہیں کہ وہ مرے ہم عصر ہیں‘ بلکہ اس لیے کہ میں ان کے خوابوں سے بھی واقف ہوں اور ان کی پُردامنی سے بھی۔ یہ لوگ جہاں بھی ہوں گے۔ ضرور تبدیلی لے کر آئیں گے۔ مجھے یاد ہے کہ جب ممنون حسین کا تذکرہ شروع ہوا کہ وہ ممکنہ صدر بن سکتے ہیں تو یہ میں ہی تھا جس نے آیا گول گپے والا آیا کا شوشا چھوڑا تھا۔ یہ محض ایک شرارت تھی۔ اس بات میں بھی مجھے شک نہیں رہا کہ ممنون حسین نے نہ صرف کامرس میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے بلکہ درس نظامی کی کلاسیں بھی اٹینڈ کی ہیں اور خاندانی طور پر اچھے کاروباری ہیں۔ تاہم وہ اپنے مزاج اور رویے میں بڑے سادہ دل اور معصوم آدمی ہیں۔ ان کی شرافت پر بھی کوئی شک نہیں‘ یہ الگ بات کہ اس ملک کو جس قسم کے صدر کی ضرورت ہے‘ اس کے لیے ایک ایسے سیاسی ‘ فکری اور عملی پس منظر سے گزرنا ضروری ہے جو ہماری ریاست کے تقاضوں کے لیے ناگزیر ہے۔ خدا کرے صدر کا یہ عہدہ جو نمائشی گنا جاتا ہے ایک مثالی صدر کی موجودگی میں بامعنی بن سکے کہ اس ریاست کے وقار کے لیے یہ بھی ضروری ہے۔