صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے 92نیوز سے ایک انٹرویو میں کرپشن کی سطح پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کو یہ برائی ختم کرنے کے لئے کچھ کر کے دکھانا ہو گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’کرپشن ہمارے نظام میں دیمک کی طرح گھس چکی ہے۔ ملک اسی وقت ترقی کرے گا جب بااثر اور طاقتور لوگوں کو بدعنوانی پر پکڑا جائے گا‘‘۔ انٹرویو کے دوران صدر مملکت نے جسٹس(ر) جاوید اقبال کی سربراہی میں نیب کی حالیہ کارکردگی کو ماضی کی نسبت بہتر قرار دے کر سراہا۔ ملک میں مہنگائی کے متعلق سوال پر صدر مملکت نے حکومت سے کہا کہ عوام کو ریلیف فراہم کرے۔ صدر مملکت کی طرف سے بدعنوانی کی حالت پر تشویش اور کرپشن کے خاتمہ کا مینڈیٹ لے کر اقتدار میں آنے والی پی ٹی آئی حکومت کو یہ برائی ختم کرنے کا مشورہ بلا شبہ بروقت ہے اور درست ہے۔ دو سال قبل دنیا میں کرپشن کے اعتبار سے کی گئی درجہ بندی میں پاکستان کا نمبر 180ممالک میں 117واں تھا۔ کرپشن فرد‘ خاندان‘ سماج ‘ سیاسی نظام اور ریاست میں سے ہر ایک کو متاثر کرتی ہے۔ بدعنوانی فرد کو قانون شکنی پر ابھارتی ہے۔ خاندان کو محنت کی بجائے ناجائز دولت کمانے کی ترغیب دیتی ہے۔ سماج میں جھوٹی شان و شوکت‘ برے کاموں پر خرچ اور بداخلاقی بڑھ جاتی ہے۔ کرپشن زدہ نظام ایماندار‘ صاف ستھرے اور اہل افراد کی حوصلہ شکنی کرتا ہے اور ریاست کرپٹ عناصر کی طاقت کے سامنے بے بس ہو کر نظام انصاف سے لے کر تعلیم اور صحت کے شعبوں تک امیر اور غریب کے لئے ایک تقسیم کا شکار ہو جاتی ہے۔ کرپشن قانون کی بالادستی کو قبول نہیں کرتی۔ انفراسٹرکچر منصوبوں میں غیر ضروری تاخیر ‘ تعمیراتی کاموں کا ناقص معیار اور منصوبوں کی لاگت میں بار بار اضافہ کرپشن کی علامت ہے۔ کئی طرح کے معاملات کو کرپشن قرار دیا جا سکتا ہے۔ رشوت لینا کرپشن ہے۔ امانتوں میں خیانت کرپشن ہے۔ جب کوئی سیاسی نمائندہ عوامی منصب کا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے ذاتی مفادات کے پیچھے دوڑے تو یہ بھی کرپشن ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر برس پانچ ہزار ارب روپے بدعنوانی کی نذر ہوتے ہیں۔ سرکاری اداروں میں نائب قاصد سے لے کر محکمہ کے سربراہ تک کسی نہ کسی طرح کرپشن کے حصہ دار ہیں۔ ایک سڑک کی تعمیر شروع ہوتی ہے۔ ایک ماہ میں مکمل ہونے والا کام چھ ماہ بعد بھی پورا نہیں ہوتا۔ کئی ڈیم منصوبے شروع ہوئے مقررہ مدت میں تعمیر نہ ہو سکی۔ کئی بار لاگت کے تخمینے تبدیل ہوئے۔ میٹرو ٹرین شروع کی تو تخمینہ کچھ تھا۔ پانچ برس سے کام مکمل نہیں ہو سکا اب پھر نئے تخمینے کے تحت فنڈز فراہم کئے جا رہے ہیں۔ سیاستدانوں کی الگ کہانیاں ہیں۔ سابق حکمرانوں اور ان کے مصاحبین کی بدعنوانی روز عیاں ہوتی ہے۔ نہ کوئی تاسف نہ پچھتاوا، ہر کارروائی کو سیاسی انتقام قرار دے کر الزام رد کرنا فیشن ہو گیا ہے۔ کوئی ادارہ نہیں جہاں سیاسی بھرتیاں نہ ہوں۔ سیاسی بنیادوں پر بھرتی لوگ اپنے محسنوں کی کرپشن کیسے پکڑیں۔ نیب ‘ایف آئی اے ‘ پولیس ہر جگہ سیاستدانوں کے اپنے لوگ بیٹھے ہیں۔ قمر الزماں چودھری نیب کے سربراہ رہے۔ اپنی پوری آئینی مدت کے دوران انہوں نے کسی اہم شخصیت کے خلاف تحقیقات نہیں کیں۔ ان کے دور میں پلی بارگین کا رواج شدت پکڑ گیا۔ دس ارب لوٹنے والا دو ارب روپے نیب میں جمع کراتا اور ہر الزام سے پاک صاف ہو جاتا۔ جسٹس(ر) جاوید اقبال کے آنے کے بعد کم از کم نیب کی حد تک ایک بہتری دکھائی دے رہی ہے۔ سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر ملزمان سے تفتیش کی جا رہی ہے۔ کھربوں روپے کی کرپشن کرنے پر نیب کی کارروائیوں کو ایک بار پھر سیاسی انتقام کا نام دے کر عوام کو گمراہ کیا جاتا ہے۔ عمران خان نے 1996ء میں جب سیاسی سفر شروع کیا تو ان کے لئے ایک آسان کام یہ تھا کہ پہلے سے موجود کسی جماعت میں شمولیت کر لیتے۔ انہوں نے اپنی الگ جماعت بنا کر کام کرنے کو ترجیح دی۔ تحریک انصاف کے قیام کی بنیاد اسی نعرے پر تھی کہ سب کا احتساب کیا جائے اور ہر شہری کو انصاف فراہم کیا جائے۔ کئی عشروں سے نظام انصاف طبقاتی شکل اختیار کر گیا ہے۔ کوئی دولت مند اور بااثر شخص کسی طرح کا جرم کرتا ہے تو سارا نظام اور ساری مشینری اس کی حمایت میں متحرک ہو جاتی ہے۔ کوئی بے آسرا اور غریب معمولی جرم کا ارتکاب کر بیٹھے تو سارا نظام اسے پھانسی سے کم سزا پر راضی نہیں ہوتا۔ یہ ناانصافی اور امتیاز پاکستان کے عوام کے لئے ناقابل قبول ہیں۔ عوام نے عمران خان کی بائیس سال کی سیاسی جدوجہد میںان کا ساتھ دیا۔ آج تحریک انصاف اقتدار میں ہے۔ اب عمران خان کمزور نہیں ان کے ماتحت پوری ریاستی مشینری ہے۔ وہ آگے بڑھ کر ظالم‘ مجرم اور بدعنوان کا ہاتھ روک سکتے ہیں۔ دراصل ان کا مینڈیٹ ہی کرپشن کا خاتمہ ہے۔ کرپشن ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ معاشرے کے ان طاقتور طبقات اور شخصیات پر مضبوط ہاتھ ڈالا جائے جو قانون اور ریاست کے سامنے خود کو جوابدہ نہیں سمجھتے۔ صدر عارف علوی خود طویل سیاسی جدوجہد کا حصہ رہے ہیں۔ وزیر اعظم اور ان کی حکومت کو اہم امور میں رہنمائی فراہم کرنا ان کا آئینی فریضہ ہے۔ درپیش صورتحال خاصی دگرگوں ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی بے قدری کی بڑی وجہ امپورٹ بل نہیں بلکہ منی لانڈرنگ کے ذریعے قومی سرمایہ دوسرے ممالک میں بھیجناہے‘ جب تک ان لوگوں کو سزا نہ ملی جن کی وجہ سے پاکستان معاشی مسائل کا شکار ہوا تب تک قانون کی بالادستی کا خواب حقیقت میں نہیں ڈھل سکتا۔