واشنگٹن ( ندیم منظور سلہری سے ) صدر ٹرمپ پر انکی اپنی انتظامیہ اور پنٹاگون کی جانب سے دباؤ بڑھ رہا ہے کہ پاکستان کی امداد بند کرنے اور اسکے ساتھ سخت رویہ رکھنے کے باوجود افغانستان میں قیام امن کے لئے وہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے جن کی توقع کی جا رہی تھی لہذا اس خطے کے بہترین مفاد کے لئے یہی بہتر ہے کہ عمران حکومت کے ساتھ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر ڈیل کی جائے ۔ امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ پاکستان پر سنگین الزامات عائد کرتے رہے ہیں ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے فیصلوں میں لچک کا مظاہرہ کریں، پروفیسر سٹیو ایم لین کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کی پاکستان کے بارے میں پالیسی ناکام رہی ہے ایک نیوکلیئر ملک کو دو سال سے جس طرح دھمکیاں دی جا رہی ہیں اس نے کوئی پرواہ نہ کر کے جراتمندانہ انداز سے اظہار کیا ہے ، سابق امریکی سفیر روبن رافیل کا کہنا ہے کہ مائیک پومپیو کا گزشتہ دورہ پاکستان دانشمندانہ فیصلہ تھا ہم واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ پومپیو کے پاس کہنے کو بہت کچھ تھا اسکے علاوہ اگرچہ یہ دورہ بہت مختصر تھا لیکن اسمیں اہم لوگ شریک تھے ،جان ہاپکن یونیورسٹی سے منسلک جوشو وائٹ کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کو اس دباؤ کا سامنا ہے کہ پاکستان پر مزید دباؤ کی حکمت عملی جاری رکھی جائے یا نہیں کیونکہ افغانستان میں امن کے لئے وہ نتائج سامنے نہیں آرہے جو امریکہ چاہتا ہے ،یونائیٹڈ سٹیٹ انسٹیٹیوٹ آف پیس کے سکالر جانی والش کا کہنا ہے کہ امریکہ اس بات کی بھی کوشش کر رہا ہے کہ پاکستان، بھارت اور افغانستان میں بڑے پیمانے پر تجارت فروغ پائے اس سے سبھی ممالک کو فائدہ ہو گا۔