وزیر اعظم عمران خان اور صدر ٹرمپ کے مابین ملاقات پانچ برسوں سے کشیدگی کے شکار دوطرفہ تعلقات کے معمول پر آنے کی امید بن کر سامنے آئی ہے۔ دونوں رہنمائوں کے درمیان جامع بات چیت ہوئی جس کا محور پاکستان اور امریکہ کے مابین وسیع تر اور پائیدار شراکت داری کا قیام اور جنوبی ایشیا میں امن، استحکام اور خوشحالی کے لیے تعاون کو مضبوط بنانے پر رہا۔ اس ملاقات کی خاص بات صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے تنازع کشمیر پر ثالثی کی پیش کش ہے جسے بقول صدر ٹرمپ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حمایت بھی حاصل ہے۔ صدر ٹرمپ نے ازخود پاکستان کے دورے میں دلچسپی کا اظہار کیا جس پر وزیر اعظم عمران خان نے انہیں باضابطہ دعوت دی جو قبول کر لی گئی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران اس سطح کا باہمی رابطہ نہیں ہوا۔ حالیہ دورے میں پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو اپنا نقطۂ نظر ہر سطح پر پیش کرنے کا موقع ملا۔ وزیر اعظم عمران خان نے منصب سنبھالنے کے بعد دو معاملات کو ہمیشہ ترجیح دی، معیشت کی بحالی اور پاکستان کے بین الاقوامی تعلقات میں بہتری۔ انہوں نے اب تک جتنے غیر ملکی دورے کیے ان میں ان ہی دو معاملات کو فوقیت حاصل رہی۔ بلاشبہ بھارت اب پاکستان کے بین الاقوامی تعلقات میں ہر جگہ ایک رکاوٹ کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔ حتیٰ کہ پاکستان کے برادر مسلم ممالک میں بھی بھارت نے اپنا اثرورسوخ بڑھا کر پاکستان کے لیے مسائل پیدا کیے ہیں۔ پاکستان نے امریکہ کے ساتھ حالیہ برسوں میں کم ترین سفارتی و سیاسی سطح پر بات کی۔ اس بات چیت میں بارہا امریکہ کو باور کرایا گیا کہ وہ جنوبی ایشیا کو بھارت کی آنکھ سے دیکھنے کی بجائے حقائق کا ادراک کرے اور حقیقت یہ ہے کہ اس خطے اور عالمی امن کو سب سے بڑا خطرہ تنازع کشمیر سے ہے۔ یہ امر ریکارڈ کا حصہ ہے کہ نائن الیون سے قبل کشمیر کا معاملہ کبھی دہشت گردی کے ساتھ ملا کر زیر بحث نہیں آیا۔ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جو جنگ شروع کی اس کا ایک محاذ افغانستان پر اتحادی افواج کے ساتھ مل کر حملہ تھا جبکہ دوسرا محاذ ہر اس نظرئیے کو علمی و دلیل کی سطح پر پسپا کرنا تھا جو دہشت گردانہ سرگرمیوں کو توانائی فراہم کرتا ہے۔ بدقسمتی سے امریکہ نے افغانستان میں جو کچھ کیا اس کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا۔ پاکستان اور افغانستان کے عوام کو یہ الزام سہنا پڑا کہ وہ دہشت گرد ہیں۔ پاکستان نے ستر ہزار سے زائد شہادتیں پیش کیں، ایک سو ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ عمارتوں اور مواصلاتی ڈھانچے کی تباہی ہوئی۔ بین الاقوامی تعلقات متاثر ہوئے اور برآمدات میں کمی آئی۔ مزید یہ کہ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون پر جس مالیاتی امداد کا وعدہ کیا اس کی فراہمی میں بھی رکاوٹیں آنے لگیں۔ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد بھارت نے پاک امریکہ تعلقات کو اپنی تجارتی طاقت کے ذریعے یرغمال بنا لیا۔ اس صورت حال کے باوجود امریکہ کے اندر یہ احساس ابھرا کہ افغان تنازع سے باعزت جان چھڑانے کے لیے پاکستان کا کردار ناگزیر ہے۔ امریکہ نے افغان طالبان سے مذاکرات کے لیے پاکستان سے مدد طلب کی۔ پاکستان نے یہ مدد فراہم کر کے اپنے امن پسند ملک ہونے کا ثبوت دیدیا۔ سن 1999ء میں نواز شریف واشنگٹن گئے۔ امریکہ کارگل کی جنگ بند کرانا چاہتا تھا۔ اس لیے صدر کلنٹن نے مسئلہ کشمیر حل کرنے میں معاونت کی بات کی۔ یہ کسی امریکی صدر کی طرف سے کشمیر کے معاملے پر زیادہ سے زیادہ حمایت تھی۔ وزیر اعظم عمران خان نے جب صدر ٹرمپ سے ملاقات کی تو انہوں نے امریکی صدر کو تنازع کشمیر کی تاریخ سے آگاہ کیا۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور ان جنگوں کی بابت بتایا جو دونوں ملکوں کے وسائل کھاتی رہی ہیں۔ یہ امر حوصلہ افزا ہے کہ عمومی طور پر بھارت نواز تصور کیے جانے والے صدر ٹرمپ نے تنازع کشمیر حل کرانے کے لیے خود کو پیش کیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے بالکل درست ردعمل ظاہر کیا اور صدر ٹرمپ سے کہا کہ اگر وہ یہ تنازع حل کرانے میں مدد گار ثابت ہوئے تو جنوبی ایشیا کے عوام ان کو دعائیں دیں گے۔ یہ معاملہ اپنی جگہ الگ حیثیت رکھتا ہے کہ بھارت کے ذرائع ابلاغ تنازع کشمیر پر امریکی ثالثی کے معاملے کو کس نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ بھارتی میڈیا یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ وزیر اعظم مودی نے دو ہفتے قبل صدر ٹرمپ سے ثالثی کی درخواست کی ہے۔ بھارت ہمیشہ دوطرفہ بات چیت پر زور دیتا رہا اور تیسرے فریق کی ثالثی سے انکاری رہا ہے مگر موجودہ صورت حال قدرے مختلف ہے۔ خود پاکستان میں کئی اپوزیشن جماعتیں وزیر اعظم کے دورے پر تنقید کرتی رہی ہیں۔ اب اس دورے کے مثبت اثرات کو دیکھ کر اسے خوش آئند اور ثمر آور قرار دینے لگی ہیں۔ تاریخ کسی تنازع کو پرامن طریقے سے طے کرنے کا موقع بار بار نہیں دیتی۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان براہِ راست مذاکرات کا سلسلہ کئی کوششوں کے باوجود بحال نہیں ہو سکا۔ اس صورت حال میں صدر ٹرمپ کی غیر روایتی سفارت کاری اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کس طرح کا کردار ادا کرتی ہے تو اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔ دنیا کو یہ بات سمجھ آ رہی ہے کہ افغانستان میں امن سے خطے میں جنگ رک سکتی ہے مگر خطے میں پائیدار امن اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتا جب تک کہ تنازع کشمیر طے نہ ہو۔ وزیر اعظم کے دورہ امریکہ کے دیگر فوائد ایک طرف، کشمیر کے معاملہ پر صدر ٹرمپ نے کھل کر بات کر کے جو نقش چھوڑا ہے اس نے جنوبی ایشیا میں امن کی امید زندہ کر دی ہے۔