صدر مملکت عارف علوی نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں کہا ہے کہ کرپشن کو قابو کرنے کے لیے جہاں صاف شفاف نظام ضروری ہے وہیں احتسابی اداروں کو مضبوط کرنا بھی ضروری ہے۔ صدر مملکت کا عہدہ سیاسی وابستگیوں سے پاک وفاق کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ سربراہ مملکت کی حیثیت سے ان کے پارلیمنٹ سے خطاب کی جہاں اہمیت ہے وہاںاس کو حکومت کے لیے گائیڈ لائن بھی تصور کیا جاتا ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ غلط روایات چل نکلی تھیں کہ ماضی میں صدر مملکت کا پارلیمان سے خطاب ہلڑ بازی اور ہنگامہ آرائی کی نذر ہوجاتا تھا یہاں تک کہ سابق آمر اور صدر پاکستان پارلیمنٹ میں احتجاج کے خوف سے سالانہ خطاب سے بھی ہچکچاتے رہے ہیں۔ اسے سیاسی جماعتوں کی ذہنی پختگی اور جمہوری قدروں کی مضبوطی کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ ایک دہائی سے انتقال اقتدار کے مراحل جمہوری انداز میں خوش اسلوبی سے طے کئے گئے ہیں ۔ اس بار پاکستان مسلم لیگ( ن )اور جے یو آئی ایف نے صدر کے خطاب کے اہم موقع پر ایوان سے واک آئوٹ کیا جو بلاشبہ ان کا جمہوری حق تھا۔ مذکورہ جماعتیں اس سے پہلے بھی انتخابات میں دھاندلی کا جواز بنا کر پارلیمنٹ کا واک آئوٹ کرتی رہی ہیں مگر اس بار جہاں صدر مملکت نے ملکی وسائل اور ان کے حل کے حوالے سے بات کی وہاں اپوزیشن کے انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے پارلیمانی کمیشن بنانے کا بھی اعلان کیا ہے ۔جس کے بعد مسلم لیگ ن اور جے یو آئی کا ایوان سے واک آئوٹ کا اخلاقی جواز کیا رہ جاتا ہے؟۔ امید کی جاسکتی ہے کہ اپوزیشن مخالفت برائے مخالفت کے بجائے مخالفت برائے اصلاح کی پالیسی اپنائے گی اور حکومت کی خامیوں، کوتاہیوں کی نشاندہی کے ساتھ قومی امور میں حکومت سے بھرپور تعاون کرے گی‘ ایسا کرنے سے ہی ملکی ترقی اور جمہوریت کا استحکام ممکن ہو سکتا ہے۔