اسرائیلی میڈیا یہ خبر دے رہا ہے کہ وزیر اعظم نیتن یاہو نے اسرائیل سعودی ریلوے لائن کی تعمیر کی منظوری دے دی ہے۔ ریلوے لائن کو توسیع دے کر حیفہ کی بندرگاہ سے اردن اور وہاں سے سعودی عرب تک پٹڑی بچھائے گا۔ سعودی عرب نے اس خبر پر ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق اس ریلوے لائن کو علاقائی امن کی پٹڑی Tracks for Regional Peaceکا نام دیا گیا ہے۔ اس ریلوے لائن سے سعودی عرب کو یورپ تک مختصر راستے کی رسائی مل جائے گی۔ فی الوقت سعودی عرب کی یورپ سے تجارت بحیرہ قلزم اور پھر نہر سویز کے راستے ہوتی ہے۔ ریلوے لائن کے ذریعے مختصر وقت میں سامان حیفہ کی بندرگاہ تک پہنچے گا اور وہاں سے براستہ سمندر یورپ۔ دو تین سال پہلے کی بات ہے کہ حجاز ریلوے کی بحالی کا منصوبہ سامنے آیا تھا۔ اس کے بعد اس پر کسی پیشرفت کی کوئی خبر نہیں آئی۔ شاید شام کی جنگ نے اس کا راستہ روک دیا کیونکہ حجاز ریلوے وہ تھی جو ترکی اور سعودی عرب کو براستہ شام اور اردن ملاتی تھی۔ مشرق وسطیٰ کے معاملات جس طرح آگے بڑھ رہے ہیں اور جس طرح عرب اور خلیجی ریاستیں دن بدن اسرائیل کے قریب آتی جا رہی ہیں‘ اسے دیکھا جائے تو حیفہ سعودی لائن والی خبر سچ بھی ہو سکتی ہے اور اسی عرصے میں صدی کا معاہدہ ہونے کی خبریں بھی آ رہی ہیں جس کے تحت سعودی عرب اور مصر وغیرہ فلسطینیوں کا اسرائیل سے ایک معاہدہ کرانے والے ہیں۔ اس معاہدے کی بنیادی بات یہ ہو گی کہ فلسطینی سارے بیت المقدس کا کنٹرول اسرائیل کو دینے پر تیار ہو جائیں گے اس کے عوض دو ریاستی حل حقیقی شکل اختیار کر لے گا۔ مغربی علاقہ اور غزہ کے علاوہ صحرائے نجف کا ایک رقبہ بھی فلسطینی ریاست کو دے دیا جائے گا۔ صدی کی ڈیل سے یہ بات بھی سمجھی جا سکتی ہے کہ شام میں الوائٹ کے ہاتھوں مسلمانوں کی نسل کشی کیوں کرائی جا رہی ہے۔ اسرائیل کو خطرہ لاحق ہو جائے گا چنانچہ ایک بہت ہی دور اندیش منصوبے کے تحت شام میں مسلمانوں کی گنتی کم کی جا رہی ہے۔ دس سے بارہ لاکھ تو ویسے ہی مارے جا چکے‘ ستر اسی لاکھ بیرون ملک مہاجر بن گئے گویا ایک نیا ڈایا سپورا(Diaspora) وجود میں آ گیا۔ دوسو کروڑ کی آباد میں سے ایک کروڑ تو گئے مزید قتل عام امریکہ اور روس کی سرپرستی میں جاری ہے۔ جو نیا شام وجود میں آئے گا۔ اس کی حکومت مسلمانوں کو مل گئی تو بھی وہ اسرائیل کے لیے کوئی بڑا خطرہ نہیں بن سکے گا۔ کیونکہ اس میں دس لاکھ تو الوائٹ ہوں گے اور اتنے ہی مسیحی جو اسرائیل کے ہمدرد ہیں‘ باقی تو شاید 75,70 لاکھ بھی نہیں رہیں گے۔ منصوبہ یہ ہے کہ بیت المقدس پر اسرائیلی کنٹرول ہو اور اس کے تحت مسجد اقصیٰ مسلمانوں کے لیے کھلی تو رہے گی لیکن اس کی چوکیداری یہودی کریں گے اور جب سارے عرب ملک اور ان کی پیروی میں دوسرے مسلمان ملک بھی اسرائیل کو تسلیم کر لیں گے تو دنیا بھر سے مسلمان قبلہ اول کی زیارت کے لیے یہاں آئیں گے اور ان کی یہودیوں سے نفرت کم ہو جائے گی۔ لیکن کیا بات اس مقام پر ختم ہوجائے گی؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔ اس لیے کہ یہودیوں کے طاقتور گروہ صہیونیوں کا ارادہ نہیں‘ عزم ہے کہ وہ مسجد اقصیٰ کو گرا کر دم لیں گے تاکہ اس کی جگہ اس معبد کو پھر سے تعمیر کیا جائے جو حضرت سلیمان علیہ السلام نے بنایا تھا اور اتفاق ایسا ہے کہ عیسائیوں کا عددی اعتبار سے کم ترین اثر اور طاقت کے لحاظ سے بڑا گروہ پروٹسٹنٹ بھی اس معبد کی بحالی(اور مسجد اقصیٰ کی مسماری) اپنے عقیدے کا حصہ سمجھتا ہے کیونکہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ حضرت مسیحؑ کی آمد ثانی تب تک ہو ہی نہیں سکتی جب تک یہودی بادشاہت پوری طرح قائم نہ ہو جائے اور یہ بادشاہت تب قائم ہو گی جب بیت المقدس (یروشلم) اسرائیل کا پھر سے دارالحکومت نہ بن جائے اور معبد سلیمان بحال نہ ہو جائے۔ یروشلم دارالحکومت بن چکا ہے۔ مسلمان ملکوں اور بعض دوسری غیر مسلم ریاستوں کی مخالفت کے کچھ معنی نہیں ہیں۔ امریکہ نے اسے دارالحکومت تسلیم کر لیا تو بات ختم ہو گئی۔ ایک مرحلہ طے ہو گیا‘ دوسرے کی طرف پیشرفت اندر ہی اندر پچھلے سال بھر سے جاری ہے اور اب چھن چھن کر آنے والی خبریں واضح ہوتی جا رہی ہیں‘ صدی کا معاہدہ ہونے کو ہے۔ سچ پوچھیے تو یہ معاہدہ ہو گیا تو صدی نہیں پوری ہزاری کا معاہدہ ہو گا۔ اس سے بہتر تو وہ تجویز تھی جو کچھ عشرے پہلے آئی تھی کہ مسلمان مسجد اقصیٰ کے نظام سے دستبردار ہو کر پورے پرانے بیت المقدس کا کنٹرول تینوں براہیمی مذاہب کے مشترکہ کنٹرول میں دے دیں۔ اب تو وہ وقت بھی گیا منصوبے کی دور اندیشی دیکھیے مزاحم قوتوں کا پہلے سے کسی اور حیلے بہانے سے کس خوبصورتی سے خاتمہ کیا گیا۔ مصر میں اخوان کی حکومت ختم کرنے کی طرف اشارہ نہیں۔ وہ تو پہلے بھی نہیں تھی۔ سال بھر کے لیے قائم ہوئی تو کیا ہوئی۔ اشارہ اس طرف ہے کہ اخوان کی حکومت کو ختم کرنے کے بعد اخوان کی پوری طاقت کو کیسے ختم کر دیا گیا ہے۔ مصر اور شام‘ یہ دو ہی علاقے تھے جہاں کی اسلامی قوتیں اور مسلمان ’’معاہدہ صدی‘‘ کے لیے خطرہ بن سکتے تھے۔ دونوں کا ایک ہی دورانیے میں کیسے بندوبست کر دیا گیا اور اس سارے بندوبست میں عراق کا ایک پڑوسی مسلمان ملک کیسے برضاو رغبت استعمال ہوا وہ ایک الگ پراسرار کہانی ہے۔ اس ملک پر مسلط نظام سے جو مدد درکار تھی وہ پوری طرح حاصل کر لی گئی۔ اب اس نظام کی ضرورت نہیں رہی چنانچہ واضح اشارے ہیں کہ اگلے برسوں میں اس کا بھی خاتمہ کر دیا جائے گا۔ ملک بھر میں مظاہروں کی جو لہر سال بھر پہلے شروع ہوئی تھی۔ وہ ختم نہیں ہوئی تھی‘ مدھم پڑ گئی تھی اور اب پھر زور پکڑ رہی ہے۔ امریکی پابندیوں کے بعد مہنگائی کا وہ عالم ہے کہ پاکستان میں بیٹھ کر اس کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ ریال کی قیمت ریکارڈ سے بھی زیادہ گر چکی ہے۔ مزید پابندیوں کے بعد شہریوں کا جینا اتنا مشکل ہو جائے گا کہ وہ خودکش مظاہرے کریں گے۔ نام کی حد تک حکومت جمہوری صدر کے پاس ہے۔ صدر کے ترجمان حضرات انتباہ کر رہے ہیں کہ جوہری ڈیل ختم ہو گئی تو نہ صرف ’’رجیم‘‘ ڈھ جائے گی بلکہ ملک بھی ٹوٹ جائے گا۔ بات سچ ہے لیکن اصل سچ یہ ہے کہ جوہری ڈیل چاہے نہ بھی ختم ہو(جو بہرحال ختم ہونے کی طرف بڑھ رہی ہے) نظام نے ڈھ جانا ہے۔ اس کی وجہ پابندیوں سے زیادہ ہر سال 9کھرب ڈالر کی وہ سرمایہ کاری ہے جو شام اور یمن کی جنگ پر کی جا رہی ہے جس نے ملکی معیشت اندر ہی اندر اتنی کھوکھلی کر دی ہے کہ مزید کھوکھلی ہونے کی گنجائش اب کم ہی رہ گئی ہے۔ کوئی دن ایسا آئے گا جب یہ راز بھی کھل جائے گا کہ شام اور یمن پر ’’سرمایہ کاری‘‘ کی ترغیب کس نے دی تھی؟ کیا اسی نے جس نے صدام کو کویت پر حملہ کے ’’فوائد‘‘ بیان کئے تھے اور صدام کے منہ میں پانی بھر آیا تھا اور اسی پانی نے اسے نگل لیا؟