پاکستان کے سیاست پر، اگر تکنیکی حوالے سے دیکھا جائے، جمود سا طاری ہے۔ یعنی یہ تفکراتی موڈ میں ہے۔ کچھ نئے حقائق سامنے آئے ہیں تو سیاسی پارٹیوں نے اپنی سرگرمیاں محدود کر دی ہیں۔ یوں کہیں کہ اگلی حکمت عملی تیار ہو رہی ہے۔ ترجیحات کا تعین ہورہا ہے اور نئی صف بندی ہورہی ہے۔ ن لیگ کے کیمپ میں اگر ہلچل ہے تو اس کی وجہ اندرونی کشمکش ہے۔ شہباز شریف اپنے قائدانہ رول کے لیے پر تول رہے ہیں۔ نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کو مناتے انہیں اڑھائی سال ہو گئے ہیں کہ درمیانی راستہ اختیار کرنے میں ہی پارٹی اور ملک کی بھلائی ہے۔ اس بار لیکن وہ سنجیدہ ہیں اور وہ نتائج کی پرواہ کیے بغیر اپنے مقصد کی طرف آگے بڑھ رہے ہیںیا کم از کم نتائج کی پرواہ کیے بغیر آگے بڑھنے پر تلے نظر آتے ہیں۔ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اگر ن لیگ راہ راست پر نہ آئی تو پارٹی ہی نہیں ملکی سیاست بھی عدم توازن کا شکار ہوجائے گی۔ ایسا طوفان اٹھے گا جس میں بہت کچھ بہہ جائے گا۔ موقع پرستی کی سیاست نے جمہوریت کی ساکھ پہلے ہی خراب کردی ہے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں ایک سیاسی خلا پیدا ہوگیا ہے جسے اگر پر نہ کیا گیا تو اس کے منفی اثرات صوبے پر ہی نہیں بلکہ ملکی سلامتی پر بھی پڑسکتے ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں غیر یقینی کی صورتحال پچھلے عام انتخابات کے ساتھ ہی در آئی تھی۔ پورے دس سال اقتدار کے مزے لوٹنے والی پارٹیوں کے لیے یہ ایک سانحہ ہی تھا کہ 'جمہوریت' کے لیے دی گئی قربانیوں اور حاصل کیے گئے اعزازات کے باوجود انہیں دیوار سے لگا دیا گیا تھا۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے لیے یہ قربانی ہی تھی کہ وہ دہائیوں پر محیط باہمی چپقلش ترک کرکے میثاق جمہوریت کے بندھن میں بندھ گئی تھیں۔ بینظیر بھٹو نے دوہزار آٹھ کی انتخابی مہم کا پنجاب میں افتتاح کیا تو انہوں نے رحیم یارخان میں بڑے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ وہ انتخابات کی شفافیت پر سوالیہ نشان لگا دیں گی اگر انتخابات میں ان کی پارٹی پہلے نمبر پر اور ن لیگ دوسرے نمبر پر نہ آئی۔ یہ بات انہوں نے دو سال پہلے لندن میں کیے گئے میثاقِ جمہوریت کے تناظر میں کہی تھی۔ اس میثاقی طرز سیاست کے ثمرات میں مشرف دور کے مقدمات کا خاتمہ اور آنے والے والے برسوں میں ملکی سیاست پر اجارہ داری شامل تھے۔ مقصد ملک کو سیاسی استحکام دینا تھا تاکہ بیرونی سرمایہ آئے، انڈسٹری لگے ، معیشت پٹڑی پر چڑھے اور معاشی اعشاریوں کی صورت حال بہتر ہو۔ میثاق جمہوریت ایک بیانیہ تھا جس کو ملک کی مقتدر طاقتوں کی اشیر باد حاصل تھی۔ یوں سمجھیں کہ 1970 ء جیسی گھمبیر صورتحال تھی جس سے نکلنے کا بیانیہ یحیٰی خان کے ایل ایف او کی صورت میں سامنے آیا تھا۔ وہ تجربہ ناکام ہوا کہ بنگالیوں کو حقِ نمائندگی دے کر بھی اس سے محروم کردیا گیا۔ بغاوت ہوئی اور ملک دو لخت ہوگیا۔ میثاقِ جمہوریت کے حوالے سے بھی غلطی ہوئی کہ پارٹیوں نے وہ تو سب کچھ کرلیا جس سے ان کے دائمی اقتدار کی راہ ہموار ہو یعنی اٹھارویں ترمیم اور اس کے نتیجے میں ملنے والی پارلیمانی بالادستی اور صوبائی خود مختاری۔ تاہم ایسے کاموں سے اجتناب کیا گیا جو سماجی اور معاشی استحکام کے لیے ضروری تھے: اختیارات و وسائل کی نچلی سطح تک منتقلی اور احتساب کا کڑا نظام۔ پورے دس سال میثاق ِجمہوریت کی سیاست کو جانچا گیا۔ خود مختار مقامی حکومتوں کے ختم کرنے سے ملینئم ڈویلپمنٹ اہداف کی طرف پیش رفت نہ ہوسکی، اس مد میں ملنے والے بہت سے فنڈ ضائع ہوگئے اور معاشرتی استحکام سے متعلق اعشاریے خراب ہوگئے۔ دوسری طرف، مفاہمتی سیاست کے ثمرات نظامِ احستاب کے منجمد ہونے سے ضائع ہوگئے اور ملک وسائل کی تقسیم کے حوالے سے مزید عدم توازن کا شکار ہو گیا، غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوگیا۔ جس سیاسی استحکام نے باہر سے سرمایہ کھینچنا تھا، وہ ملکی وسائل کی لوٹ کھسوٹ اور سرمایہ کی باہر منتقلی پر منتج ہوا۔ ملک پھر دوراہے پر آگیا ہے اور اسے دوبارہ قومی بیانیے کی ضرورت ہے۔ جمہوریت ہے تو سیاسی پارٹیوں کی اہمیت بھی مسلم ہے لیکن اب ان سیاسی پارٹیوں کو صراط مستقیم پر چلنا ہوگا۔ پچھلے دس سالہ دور اقتدار میں کی گئی غلطیوں کا خمیازہ اگر مزید نہیں بھگتنا تو انہیں ان غلطیوں کو درست کرنا ہوگا۔ مثلاً پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے سمجھ لیا تھا کہ شاید وہ دو پارٹی نظام قائم کر لیں گی اور اصلاحات کو اٹھارویں ترمیم اور انتقال اقتدار سے مزید آگے نہیں جانے دیں گی۔ انتقامی سیاست کو ترک کرنے کا مطلب انہوں نے یہ لیا کہ کسی کا احتساب نہ کیا جائے۔ لیکن کیا ہوا؟ ایک تیسری پارٹی اقتدار میں آگئی، احتساب کا دوبارہ آغاز ہوا اور اس کے شکنجے میں سابق حکمران پارٹیاں پھنس گئیں۔ عام انتخابات میں ہونے والی شکست سے انہوں نے کوئی سبق نہ سیکھا، حکومت سے دشمنی اور احتجاج کے راستے پر چل پڑیں۔ معیشت ڈوبی، کشمیر تک ہاتھ سے نکل گیا۔کورونا وائرس پہنچا تو ملک تباہی کے دہانے پر تھا۔ نیا قومی بیانیہ جو ماہ رمضان میں عسکری اور سویلین قیادت کی طرف سے صحافیوں کو دی گئی پر تکلف افطار پارٹیوں کی وساطت سے سامنے آیا ہے اس میں آئین و قانون کی حکمرانی اور احتساب شامل ہے۔ نہ صرف کوئی این آر او نہیں ملے گا بلکہ سیاسی پارٹیوں کو اپنے سوچ اور عمل میں ذمہ داری کا ثبوت بھی دینا پڑے گا۔ جو ہوا سو ہوا، اب غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ابھرتے عالمی نظام میں متحارب طاقتیں ہمیں اپنی اپنی طرف کھینچ رہی ہیں۔ اگرہم نے ایک آزاد اور خود مختار قوم کی حیثیت سے عالمی برادری میں اپنا جائز مقام حاصل کرنا ہے تو ہمیں 'صراطِ مسقیم' پر چلنا ہوگا۔ ہٹ دھرمی اور ضد ہمیں بھٹکا دے گی اور منزل سے دور کر دے گی۔