بوجوہ آج دل بہت اداس ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ دل گرفتگی کا سبب بتا بھی نہیں سکتے۔ بس اتنا سمجھ لیجیے سیاست کی یکسانیت سے دل اچاٹ ہے۔ کچھ بھی نیا نہیں۔ وہی احتساب کے چرچے کہ جس احتساب کے بارے میں جسٹس عظمت سعید نے کہا ہے کہ نیب سب کو پکڑے یا سب کو چھوڑ دے۔ نیب دونوں آنکھیں کیوں نہیں کھولتا‘ پکڑنے اور چھوڑنے کا فیصلہ کون کرتا ہے۔ سپریم کورٹ کی اس تنبیہ پر سب سے اچھا تبصرہ خود نیب کا ہے کہ ہم گرفتاریوں کے سلسلے میں پالیسی بنا رہے ہیں۔ اس پر صرف اتنی ہی لب کشائی کی جا سکتی ہے کہ کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ آج کل پاکستان میں زندگی عدالت سے سیاست تک یا سیاست سے عدالت تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ باقی شعبے ہیں تو یہی مگر بس بروزن بہت ہی ہیں۔ دل گرفتگی کا ایک علاج تو ناصر کاظمی مرحوم نے بھی بتایا تھا کہ: یہ کہہ کے چھیڑتی ہے ہمیں دل گرفتگی گھبرا گئے ہوں آپ تو باہر ہی لے چلیں ہم ایسے مواقع پر اخباروں اور چینلوں کی دنیا سے نکل کر کتابوں کی دنیا کارخ کرتے ہیں‘ جہاں کئی نئی کتابیں ہماری منتظر ہوتی ہیں جو ہماری بے اعتنائی کا شکوہ کرتے دکھائی دیتی ہیں۔ کتابوں کی الماری کا رخ کیا تو سامنے درنجف زیبی کے شعری مجموعے دکھائی دیے۔ چند روز قبل بھائی حسن جعفر زیدی کی موجودگی میں بھابھی درنجف زیبی نے اپنا شعری مجموعہ’’ہم اورتم‘‘ پیش کیا تو میں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آپ دونوں کا سنجوگ تو ادبی حلقوں میں بڑا مثالی خیال کیا جاتا ہے مگر لگتا ہے ابھی تک فرق من و تو باقی ہے۔ بھابھی نے اس سوال کا زبانی جواب تو نہ دیا مگر ہولے سے اٹھیں اور اپنا دوسرا شعری مجموعہ مجھے تھماتے ہوئے انہوں نے کہا لیجیے آپ کے سوال کا جواب حاضر ہے اس دوسرے شعری مجموعے کا ٹائٹل تھا۔’’صرف تم‘‘ درنجف زیبی کی بیشتر آزاد اور پابند نظمیں رومانوی ہیں۔ ان کی تمام تر چاہتوں اور محبتوں کا مرکز ان کا شریک حیات حسن جعفر ہے۔ اپنی نظموں میں وہ جس والہانہ پن سے محبت لٹاتی ہیں‘ اسے دیکھ کر ان کے شریک حیات پر رشک آتا ہے ان کے ہاں کہیں بھی پروین شاکر کی طرح کے شکوے موجود نہیں۔ درنجف زیبی نے سکول کے زمانے سے شاعری شروع کی پھر انہوں نے ایک طالب علم شاعرہ کی حیثیت سے لاہور کالج فار ویمن اور اورنٹیل کالج پنجاب یونیورسٹی کے کل پاکستان مشاعروں میں بھر پور نمائندگی کی اور اپنی شاعری کی دھاک بٹھا دی ۔اس کے ساتھ ہی علمی و ادبی حلقوں میں اس منفرد لہجے کی شاعرہ کا چرچا ہونے لگا۔2013-14ئکے لیے وہ حلقہ ارباب ذوق لاہور کی سیکرٹری منتخب ہوئیں۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی ان کے استاد تھے انہوں نے اپنی شاگرد شاعرہ درنجف زیبی کے بارے میں لکھا۔ ’’زیبی نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ہے اس لیے اس کا امیج ایک ایسی خاتون کا ہے جو زندگی کی جدوجہد میں شامل دور کے گرم و سرد کو محسوس کرتی ہے۔ وہ یاس و حرمان کی شاعرہ نہیں‘ رومان اور شادمانی کی شاعرہ ہے۔ اس کے ہاں ایک آئیڈیل عورت نمایاں ہے جو زندگی سے لڑنا جانتی ہے اور لڑ کر زندگی سے خوشیاں کشید کرتی نظر آتی ہے۔‘‘ بالعموم یہ کہا جاتا ہے کہ کامیاب مرد کے پیچھے کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ درنجف زیبی خوش قسمت ہیں کہ ان کی کامیابیوں کے پیچھے ایک مرد حسن جعفر زیدی کا ہاتھ ہے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ زندگی کی دھوپ چھائوں میں دونوں ایک دوسرے کا سایہ بن کر ساتھ رہے ہیں اور انہوں نے بہت خوب ساتھ نبھایا ہے وہ ہم قدم بھی ہیں اور ہم فکر بھی۔ ان دونوں کو یہ فکر لاحق ہے کہ یہاں کا معاشرہ بدلے۔ یہاں فرد بدلے ‘یہاں زندگی اجلی اجلی اور خوبصورت دکھائی دے‘ اس معاشرے سے دکھ درد اور افسردگی و پژمردگی کو مٹایا جائے۔ زندگی کی دوڑ میں کسی کو پیچھے نہ رہنے دیا جائے۔ کم از کم یہ تو نہ ہو کہ بعض لوگ دھن‘ دھونس اور دھاندلی کے بل بوتے پر دوسرے حقداروں کو زندگی کی خوشیوں سے حصہ نہ لینے دیں اور خود آگے بڑھ کر جام و مینا پر اپنا قبضہ جما لیں اور تشنہ لبوں کا راستہ روک کر کھڑے ہو جائیں اور انہیں مے خانے میں داخل ہی نہ ہونے دیں اور نہ ہی پیر مغاں کی نظر خستہ حالوں پر پڑنے دیں۔حسن جعفر زیدی نے برصغیر پاک و ہند کی تاریخ اور تحریک پاکستان کے حوالے سے کئی تحقیقی کتابیں لکھی ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے وہ ایسے انجینئر ہیں جن کی فنی و علمی مہارت سے پاکستان ہی نہیں دیگر ممالک بھی استفادہ کرتے ہیں۔1970ء کی دہائی میں جب ایشیا کے سبز اور سرخ ہونے کا چرچا تھا تو حسن بھائی اگرچہ ایسی کسی تقسیم کے قائل تو نہ تھے مگر وہ ترقی پسندی کی لہر سے متاثر ضرور تھے مگر اب جبکہ روس میں کمیونزم اور سرمایہ داری کی آویزش نظریاتی سطح پر ختم ہو چکی ہے اور دو بڑی عالمی طاقتوں میں اب کش مکش تو ہے مگر وہ سیاسی نوعیت کی ہے اسی طرح چین بھی آزاد معیشت کے راستے پر چل رہا تو پاکستان میں بھی یہ نظریاتی آویزش اب دیکھنے میں نہیں آتی۔ یوں بھی جب سماج کا دکھ درد کسی منصوبہ بندی اور وعظ و نصیحت کی صورت میں نہیں بلکہ ایک تخلیقی عمل کا حصہ بن کر کسی فن پارے کی صورت میں ڈھل کر سامنے آتا ہے تو اس کی اثر انگیزی کسی طے شدہ منصوبے کے تحت لکھی جانے والی تحریر سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔ یہی بات حسن جعفر زیدی کی تحریروں اور درنجف زیبی کے شعروں میں محسوس کی جا سکتی ہے۔ حسن جعفر زیدی سے ہمارا تعلق خاطر سرگودھا سے ہے اور ہم سب نے اکٹھے ہی اپنے زمانہ طالب علمی میں ڈاکٹر خورشید رضوی اور پروفیسر غلام جیلانی اصغر جیسے اساتذہ ‘ شعرا اور اصحاب علم و دانش سے کسب فیض کیا ہے۔ کسی زمانے میں سرگودھا کی مٹی میں وفا اور حیا دونوں رچی بسی ہوئی تھیں۔ یہ اسی وفا کا ثمر ہے کہ آج لاہور کے علمی و ادبی حلقے حسن جعفر زیدی اور در نجف زیبی کے اس ادبی خانوادے کو بہت سراہتے ہیں اوپر میں نے پروین شاکر کی مثال دی تھی۔ حسن جعفر زیدی اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے لیے ملک سے کئی کئی ماہ غائب رہتے ہیں تو ان کی یاد میں ان کی شریک حیات جس طرح کی شاعری کرتی اور انہیں یاد کرتی ہیں اس کی بھی ایک جھلک دیکھ لیجیے۔ حسن تمہاری جدائی میں اشکبار ہوں میں/قرار ڈھونڈتی پھرتی ہوں بے قرار ہوں میں/وہ ساحلوں کے قرینے تمہارے ساتھ گئے/غموں کی ڈولتی کشتی پہ اب سوار ہوں میں/نہ دن کو چین نہ راتوں کو نیند آنکھوں میں/کچھ اس طرح سے غم ہجر کا شکار ہوں میں غم جاناں کیساتھ ساتھ درنجف زیبی کے ہاں غم دوراں بھی پوری طرح چھلکتا ہے۔1980ء کی دہائی میں انہوں نے شعروں کی زبانی اس دور کی کہانی اپنے مجموعے ہم اور تم‘ میں بارہا سنائی۔ ان کی غزل کے صرف دو اشعار لکھ رہا ہوں: آئو اک لفظ لکھیں اس کے معانی نہ لکھیں اس کو خط لکھیں مگر خط میں کہانی نہ لکھیں کان پہ پہرہ زباں بند نگاہیں چپ چاپ کیا لکھیں آپ کو گر ظلم کا بانی نہ لکھیں پروفیسر شپ سے ریٹائر ہو کر آج بھی فرق من وتو مٹا کر وہ تلاش معاش کے لیے سمندر پار گئے اپنے شریک حیات کو یاد کر کے اپنی ہی نہیں وطن عزیز کی لاکھوں عورتوں کی کہانی اپنے تازہ شعری مجموعے’’صرف تم‘‘ میں سناتی ہیں۔ اپنے ملک میں ہنسنا گانا اچھا لگتا ہے اپنے آپ کو اپنا کہنا اچھا لگتا ہے سیر کرو ساری دنیا کی حرج نہیں ہے لیکن اپنے ملک میں رہنا اچھا لگتا ہے