آج صبح اسلام آباد سے پروفیسر محی الدین کا فون آیا پوچھا، آپ نے سینیٹ انتخاب کی درخواست گزاری ؟ نہیں ، کیوں؟آپ سے عمران خان نے 2013 ء الیکشن میں سینیٹ کے لیے وعدہ نہیں کیا تھا؟ کیا تھا، پھر ؟ بس، اب بالواسطہ انتخاب کے لیے جی نہیں چاہا، بارہ برس اس ایوان میں گزار چکا ہوں، اگر سیاست میں رہنے کا ارادہ ہوا تو براہِ راست انتخاب میں حصہ لوں گا۔ خرید وفروخت سے تو نہیں ڈر گئے؟نہیں،اس سلسلے کی خرید وفروخت کا کاروبار دریائے سندھ کے اس پار تک ہے، پنجاب میں نہیں۔ کیا یہاں سب فرشتے ہیں؟ فرشتے تو نہیں، مگر پنجاب میں خریدار نہیں ہیں۔ کیوں؟ اس کی دو بڑی وجوہات ہیں یہ کہ پنجاب سے سینیٹ کا ممبر بننے کے لیے کم از کم 50ووٹ درکار ہیں، اتنے ووٹ خریدنا کسی کے بس میں نہیں، دوسری وجہ یہاں پر سیاسی پارٹیوں کی گرفت کافی مضبوط ہے، پہلی وجہ سے خریدار ندارد ، دوسری میں مال نایاب۔ 1985ء کے سینیٹ الیکشن میں پرانے سیاسی گھرانے اور گدی نشین ایوان بالا میں پہنچے، اس وقت صوبائی اسمبلی کے ممبران کی خرید وفروخت صرف سندھ میں ہوئی اور چار ’’سیٹھ لوگ ‘‘ ووٹ خرید کر آگئے۔ باقی تین صوبے اس جسارت سے محروم رہے، بعد ازاں سندھ میں پیپلز پارٹی اورمتحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی اجارہ داری بن گئی تب سے سندھ میں انفرادی خریدار ی کا یہ دھندہ بند ہوگیا مگر پارٹی کے لیڈروں نے کارکنوں کے ساتھ ساتھ اکا دکا سرمایہ کار سے مال بٹور کر انہیں ٹکٹ جاری کرنا شروع کیے۔ خیبر پختونخواہ ، فاٹا اور بلوچستان میں انفرادی خریداری کا سلسلہ چلتا رہا مگر پنجاب اور سندھ اس دھندے سے محفوظ رہے ، اس جرم میں سیاسی جماعت کے طور پر شریک ہونے والی پہلی تنظیم پیپلزپارٹی تھی، اس نے خیبر پختونخواہ میں ’’سینیٹر گلزارا حمد‘‘ کو تجویز اور تائید کنندہ دے کر باقی ووٹ خریدنے کو کہا ، پھر کیا تھا : ان کے کوچے سے ایک روز گزرا تھا میں پھر یہی روز کا ماجرا بن گیا پھر گلزار اور اس کا پورا خاندان سینیٹر بن گیا اور بنتا رہا، خریداری میں سینیٹر گلزار کی شہرت سب سے اچھی تھی، ایک انتخاب میں انہوں نے ممبران اسمبلی کے ووٹ خریدے اور سب کو برابر پیسے ملے مگر دو ووٹ کم پڑ گئے، ان دو ووٹوںنے زیادہ پیسوں کا مطالبہ کیا جو ماننا پڑا۔ منتخب ہونے کے بعد گلزار نے دیگر ووٹروں کو بھی وہ اضافی رقم ادا کی جو زیادہ رقم وصول کرنے والوں کو دی تھی۔ اس میدان میں گلزار کا حوصلہ اس قدر بڑھ گیا تھا کہ بے نظیر کے دوسرے دورِ حکومت میں چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں مسلم لیگ کے وسیم سجاد کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کے ووٹ کم تھے، گلزار صاحب تیس لاکھ روپے بریف کیس میں رکھ کر گورنمنٹ ہاسٹل آئے اور اکبر بگٹی پارٹی کے ممبر بشیر خان کے پاس پہنچ گئے اگرچہ وہ غریب آدمی تھے مگر وفادار تھے اور غیرت مند بھی، وہ بھڑک اٹھے اور گالیاں دیتے ہوئے مارنے کو لپکے ، چنانچہ گلزار صاحب بھاگ نکلے۔ اگلے دن سینیٹ اجلاس میں بشیر خان نے بھانڈا پھوڑ دیا ، گلزار اور ساتھیوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا لیکن ان کی طرف سے تحریک استحقاق منظور کرنے کی بجائے معاملہ رفع دفع کردیا گیا۔پیپلز پارٹی بے نظیر اور آصف زرداری کی قیادت میں قانونی اور اخلاقی پابندیوں سے ہمیشہ آزاد تھی، یوں تو میاں نواز شریف بھی کافی جری تھے لیکن اندر ہی اندر چھپ چھپاکر ، مگر پی پی کو پردے میں رہنے یا رکھنے کی زیادہ فکر نہیں تھی۔ بات صوبائی اسمبلی کے ممبران اور سینیٹ تک محدود نہ رہی، چلتے چلتے دور تک جا پہنچی ، سینیٹ چیئرمین کے لیے خریداری کی کوشش کا ذکر تو ہوچکا، اب اس جوڑے کا غیر معمولی کارنامہ بھی سنتے جائیے۔ بے نظیر بھٹو کا دوسرا دورِ حکومت 1993ء میں شروع ہوا، غلام اسحاق خان عہدہ صدارت سے الگ ہوچکے تھے، وسیم سجاد چیئرمین سینیٹ کی حیثیت سے قائم مقام صدر بنے۔ حکومت سازی کے بعد پیپلز پارٹی ہر صورت اپنا صدر بنانا چاہتی تھی، ان کے پاس قومی اسمبلی میں اکثریت تو تھی مگر زیادہ نہیں۔ سینیٹ میں پیپلز پارٹی کے مخالفین کی تعداد بہت زیادہ تھی، مرکز میں حکومت مل جانے کے بعد بھی صدارت میں کامیاب ہونا ایک مشکل مرحلہ تھا، فاٹا کے ممبران روایتاً مرکزی حکومت کی حمایت کرتے ہیں مگر وسیم سجاد کی وجہ سے ان میں بھی تقسیم کا خدشہ تھا، فاروق لغاری پنجاب سے تھے اور بلوچ بھی، پارٹی کے وفادار اور پرانے ساتھی، چنانچہ فاروق لغاری پیپلزپارٹی کی طرف سے صدارت کے لیے امیدوار بنائے گئے، مقابلہ چیئرمین سینیٹ وسیم سجاد سے تھا، وسیم سجا د کو واضح برتری حاصل تھی، بے نظیر نے آصف علی زرداری کو ذمہ داری سونپی کہ وہ مطلوبہ تعداد حاصل کرنے کے لیے دوسری پارٹیوں کے ووٹ کسی بھی قیمت پر حاصل کرے۔ اس الیکشن میں کون کون بکا، سب کا حساب ممکن نہیں مگر تین سینیٹرز اورایک پارٹی کی روداد سنیے۔ بلوچستان کا ایک چھوٹا سا قبیلہ ’’لونی‘‘ بھی ہے، سردار لونی کی وفات کے بعد ان کے بیٹے ممبر سینیٹ منتخب ہوئے، صدارتی انتخاب کے بعد چیئرمین سینیٹ وسیم سجاد کے دفتر میں ہم چند لوگ موجود تھے جن میں ممبر قومی اسمبلی اعجاز الحق بھی تھے، سینیٹر لونی تشریف لائے، بڑے افسردہ اور کچھ بھڑکے ہوئے، ہمیں کچھ اندازہ تھا کہ انہوں نے وسیم سجاد کو ووٹ نہیں دیا، مگر کیوں؟ یہ پوری طرح نہیں جانتے تھے، وہ بے پوچھے خود ہی پھٹ پڑے اور وسیم سجاد کو ووٹ نہ دینے پر معذرت چاہی، پھر خود ہی بولے کہ ہمارے ساتھ بڑا دھوکہ ہوا ، فراڈ کیا گیا، کیا فراڈ ہوا؟ کس نے کیا؟بولے ،ہم تین سینیٹرز یعنی لونی خود ، دوسرے بلوچستان کے ظریف مندوخیل ، تیسرے مانسہرہ سے رضا خان ۔ ہمیں آصف علی زرداری نے بے نظیر سے ملوایا اور ووٹ مانگتے رہے، ہم خاموش تھے، پھر انہوں نے پیسوں کی آفر کی اور پچاس لاکھ روپے فی ووٹ میں معاملہ طے پاگیا، وہ ہمیں وزیراعظم ہاؤس لے گئے اور دس دس لاکھ روپے نقد دیئے اور کہا کہ زیادہ رقم گھر میں موجود نہیں، باقی چالیس چالیس لاکھ انتخاب سے پہلے ادا کردیئے جائیں گے، انتخاب میں ایک دن باقی رہ گیا اور رقم کے تقاضے پر وزیراعظم کے شوہر نے لونی سے کہا کہ نقد رقم تو نہیں ہے، آپ اس کے بدلے میں کوئی کام کروالے، چنانچہ میں نے محکمہ کسٹم کے ایک آدمی سے معاملہ طے کرکے زرداری صاحب سے کہا کہ اس شخص کو ’’کوئٹہ ‘‘میں کلکٹر کسٹم لگادیں تو میرا حساب برابر ہوجائے گا ، چنانچہ اگلی صبح ووٹ ڈالے جانے سے پہلے تجویز کردہ افسر کے لیے کوئٹہ میں کلکٹر کسٹم کی تعیناتی کا نوٹیفیکشن مجھے دے دیا گیا، ووٹنگ ختم ہونے کے بعد وزیراعظم نے اس تعیناتی کا حکم نامہ منسوخ کردیا، ہزار کوشش کے بعد بے نظیر یا زرداری تک رسائی ممکن نہ ہوئی۔ اب ایک جماعت کی سنیئے ، متحدہ قومی موومنٹ کی طرف سے ممبران اسمبلی کا نامزد وفد وسیم سجاد کے پاس آیا اور کہا کہ ہم پیپلزپارٹی کو پسند نہیں کرتے اور آپ کو ووٹ دینا چاہتے ہیں، قائد نے ہمیں آپ کی طرف بھیجا ہے ، ہمارے تمام ووٹوں کے بدلے غالباً 16کروڑ روپے کا تقاضا تھا، ان ووٹوں کے بعد وسیم سجاد کے انتخاب میں کوئی شک باقی نہ رہتا مگر وسیم سجاد نے کہا میرے پاس تو اتنی رقم ہے نہیں، ہاں اتنے پیسے اگر آپ مجھے دے دیں تو میں صدارتی الیکشن سے آپ کے حق میں دستبردار ہونے کو تیار ہوں، اس انکار کے بعد معاملات پیپلزپارٹی سے طے پاگئے، ظاہر ہے کہ یہ رقم وسیم سجاد کو کی گئی پیش کش سے کہیں زیادہ تھی۔