15جولائی کو میٹرک کا نتیجہ آیا۔ ہمارے طالب علموں نے تھوک کے حساب سے نمبر لئے کل گیارہ سو نمبروں میں سے اول پوزیشن حاصل کرنے والے طالب علم نے 1092نمبر لئے یعنی کل نمبروں میں سے صرف آٹھ نمبر کم تھے۔ اتفاق ہے کہ اس بار ہمارے تین قریبی عزیز بچوں نے لاہور بورڈ سے میٹرک کیا دو بچیاں تو ان میں سے پوزیشن حاصل کرنے کی امیدوار تھیں۔ ایک پر توقعات کا بوجھ اس لئے زیادہ تھا کہ گزشتہ برس نویں جماعت میں اس بچی نے لاہور بورڈ میں ٹاپ کیا تھا۔ جس تعلیمی ادارے کی وہ طالبہ تھی اس نے اپنی طالبہ کی کامیابی کو خوب کیش کروایا۔ جیسا کہ آج کل کے تعلیمی ادارے کرتے ہیں۔ ان کے طلبہ پوزیشن لے لیں تو پھر ان کی تصاویر‘ بمع ان کے نمبرز کے فلیکس چھپوا کر پورے شہر میں آویزاں کر دیتے ہیں ظاہر ہے ان کے سکول کا نام ہوتا ہے‘ والدین ‘ دھڑا دھڑ اپنے بچے اسی سکول میں داخل کرواتے ہیں، جہاں ان کے بچے بھی نمبر گیم میں آگے بڑھ سکیں۔سارا المیہ ہی یہ ہے کہ آج کا تعلیمی نظام طالب علموں کو ایک ہی پریکٹس کروا رہا ہے کہ زیادہ سے زیادہ نمبر کیسے حاصل کرنے ہیں۔ طلبہ کو صرف نمبر حاصل کرنے والی مشینیں بنا دیا جاتا ہے اس لئے کہ ان کے مستقبل کا فیصلہ انہی نمبروں سے ہوتا ہے۔ ڈاکٹر اور انجینئر بننا ہے تو کسی نہ کسی طریقے سے مطلوبہ نمبر لو۔ پھر ہی کسی پسند کے تعلیمی ادارے میں داخلہ ہو گا۔ طلبہ کا رجحان کیا ہے‘ ان کے اندر اور کون سی تخلیقی صلاحیتیں موجود ہیں ان کو دریافت کرنے کی کبھی نوبت نہیں آتی اور نہ ہی ہمارا تعلیمی نظام اس کی اجازت دیتا ہے۔جس بچی کا تذکرہ میں نے آغاز میں کیا کہ اس نے نہم جماعت میں لاہور بورڈ میں ٹاپ کیا تھا۔ بس پھر دسویں جماعت میں تو گویا اس کی سختی ہی آ گئی۔ توقعات کا بے جا بوجھ اس پر اس طرح لاد دیا گیا کہ باقاعدہ وہ بچی ڈیپریشن کا شکار ہو گئی۔ سکول میں ہفتہ وار ٹیسٹ ہوتے یاماہانہ ٹیسٹ ہوتے اس بچی کا حل شدہ پیپر اس کے سامنے تمام طلبہ کے پیپروں سے علیحدہ کر کے ہیڈ آفس پہنچا دیا جاتا۔ جہاں اساتذہ کا ایک بورڈ بیٹھ کر اس پیپر کا باریک بینی سے تجزیہ کرتا اور غلطیاں ڈھونڈ کر نشان لگا کر واپس اس طلبہ تک پیپر آتا۔ غلطی ہونا ایک فطری سی بات ہے لیکن یہ نظام ایسے قابل اور لائق طالب علموں کو غلطی کرنے کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ اس سے نمبر کٹ جاتے ہیں لیکن اس مشق سے اس طالب علم کی ذہنی حالت پر کیا اثر پڑتا ہے۔ سکول کو اس کی قطعاً کوئی فکر نہیں۔سوموار سے ہفتہ پورے چھ دن‘ ٹیسٹوں کے سخت نظام الاوقات اور سبق کی دھرائی کی مشقیں کرنے کے بعد جب اتوار کا دن آتا تو پھر اسے اس لئے چھٹی نہ ملتی کہ متوقع ٹاپرز کی فہرست میں شامل ہے جس پر سکول نے اپنی توقعات کا بوجھ لاد رکھا ہے۔ سو، اتوار کے روز بھی جب سارے بچے‘ ایک ریلیکس دن گزار رہے ہوتے، اسے سکول کے ہیڈ آفس کیمپس میں کلاسیں لینے کے لئے جانا ہوتا۔ جہاں شہر بھر کے کیمپسز کے تمام لائق ‘ قابل اور ذہین طلبہ و طالبات‘ اتوار کی ایکسٹرا پڑھائی کے لئے موجود ہوتے۔ یعنی اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا۔ میری عزیزیہ دونوں بچیاں پورا سال اتواروں کو بھی پڑھائی اور صرف پڑھائی کرتی رہیں اور یہ ساری محنت‘ یہ ساری تگ و دو صرف زیادہ سے زیادہ نمبر حاصل کرنے کے لئے۔پورا تعلیمی سال جو طالب علم اس ہیجان میں گزارتے ہیں ان کی ذہنی صحت کا متاثر ہونا ایک فطری امر ہے۔ سکول ‘ والدین اور پورے خاندان کی توقعات سے کم نمبر لینے کا خوف لاشعوری طور پر ان کے اندر بیٹھ جاتا ہے اور ایسا ہی اس بچی کے ساتھ ہوا۔ گریٹ ایکسپٹیشن کے اس بوجھ سے کبھی اس کی نیند اڑ جاتی‘ کبھی اس کی بھوک مر جاتی ،صحت الگ متاثر ہوتی۔ توقعات پر پورا اترنے کے لئے اس نے سو فیصد کیا‘ دوسو فیصد محنت کی ہو گی لیکن اول پوزیشن تو کوئی ایک طالب علم ہی حاصل کرتا ہے۔ رزلٹ آیا دونوں طالبات نے شاندار نمبر حاصل کئے لیکن متوقع ٹاپر کے نمبر سکول کی توقعات سے کم تھے۔ سو سکول سے آنے والا فون اس کی حوصلہ افزائی کے لئے نہیں ہوتا‘ اسے شاندار نمبروں کی مبارکباد دینے کے لئے نہیں ہوتا بلکہ الٹا سرزنش کی جاتی ہے کہ آپ نویں جماعت میں ٹاپ کر کے اس بار ریلیکس ہو گئی تھیں اس لئے آپ کی پوزیشن نہیں آئی۔ ایسی سرزنش کال کے بعد محنتی اور قابل طالب علم کے دل پر کیا گزری ہو گی۔دراصل سکول کے لئے ایسے لائق طالب علم محض ایک پروڈکٹ ہیں یہ کمرشلائزیشن کا دور ہے‘ انہوں نے اپنے پوزیشن ہولڈر طالب علموں کی تصویروں والے فلیکس شہر بھر میں آویزاں کر کے اپنے سکول کی مارکیٹنگ کرنا ہوتی ہے۔ جس کا موقع انہیں اس بار نہیں ملا۔ تعلیمی نظام کے اندر زیادہ سے زیادہ نمبر حاصل کرنے کی اس ہیجان خیزی کو روکنے اور بدلنے کی ضرورت ہے۔14سے 18سال کی عمر کا اہم ترین دور‘ طالب علموں کا زیادہ سے زیادہ نمبر حاصل کرنے کی دوڑ میں گزرتا ہے ہم صرف رٹو طوطے پیدا کر رہے ہیں۔ محنت اور سخت محنت طالب علموں کو لازمی کرنی چاہیے لیکن اس میں تخلیقی سرگرمیاں بھی شامل ہوں۔Critical thinkingاور آئوٹ آف دا باکس تھنکنگ بھی انہیں سکھائیں۔صبح کی سیر ‘ روزانہ کی ورزش اور دیگر جسمانی سرگرمیاں‘ ایک متوازن اور صحت مند زندگی کے لئے کتنی ضروری ہیں اگر آپ ان طالب علموں سے اس موضوع پر بات کریں تو وہ آپ کو ایسے دیکھیں گے جیسے آپ سے بڑا کوئی بیوقوف ہی نہیں۔ اس لئے کہ انہیں اس کی اہمیت کے بارے میں کبھی بتایا ہی نہیں جاتا۔ زیادہ سے زیادہ تفریع سمارٹ فون‘ سوشل میڈیا اور سٹیٹس اپ ڈیٹ کرنا۔ تفریح کے موڈ میں جنک فوڈ کھانا اور Chillکرنا۔ بس اسی دائرے میں آج کے طالب علم کی زندگی گزرتی ہے۔ جاپان میں پلے گروپ میں بچوں کو جو بنیادی تعلیم دی جاتی ہے اس میں ایک صحت مند غذا کا تصور سکھانا بھی شامل ہے۔ ہر قسم کی سبزی اور پھل کھانے کی تربیت کلاس روم میں دی جاتی ہے اور ہمارے نوے فیصد نوجوان سبزیاں کھانا ناپسند کرتے ہیں۔ برگر کھا کر اور chillکر کے چالیس سال کی عمر کو پہنچتے ہی دل اور شوگر کے مریض بن جاتے ہیں۔ ہمارا تعلیمی نظام اور نصاب سب بوگس ہے اسے فی الفور بدلنے کی ضرورت ہے۔