وزیراعظم عمران خان نے حزب اختلاف سے بہتر چال چلی۔قومی اسمبلی تحلیل کرکے عام الیکشن کا اعلان کردیا۔ ملک کے حالات جس نہج پر پہنچ چکے تھے، ان میں نئے الیکشن کے سوا اور کوئی حل نظر بھی نہیں آتاتھا۔ویسے بھی اب الیکشن میں زیادہ وقت نہیں بچا تھا۔ اچھا ہے کہ ساری جماعتیں الیکشن کے میدان میں اترائیں۔ اپنا اپنا زور بازو آزمائیں۔ عوام کو متحرک کریںاور تازہ مینڈیٹ لے کر عنان حکومت سنبھالیں۔ وزیراعظم عمران خان نے قومی اسمبلی کے اسپیکر کے ذریعے جس طرح تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنایا،و کوئی آئیڈیل صورت حال نہیں لیکن جس طرح کی اپوزیشن سے انہیں واسط پڑا ہے، ان کے ساتھ ان ہی کی زبان بولنا پڑتی ہے۔ یقیناقومی اسمبلی کے اسپیکر کی رولنگ پر سپریم کورٹ میں بحث ہوگی۔ یہ بحث ہفتوں تک بھی چل سکتی ہے اور چند دنوں میں بھی فیصلہ ہوسکتاہے۔ عدالتوں میں مقدمات کا فیصلہ جلدی کہاں ہوتاہے۔ ظاہر ہے کہ سپریم کورٹ بھی ملک کے حالات کے پیش نظر نئے الیکشن کے انعقاد کو ہی ترجیح دے گا کیونکہ جو تنازعہ ملک میں اٹھ کھڑا ہوا، وہ آسانی کے ساتھ ٹلنے والا نہیں۔ جمہوریت پسند شہریوں کے لیے یہ خبر قیامت سے کم نہ تھی کہ والد محترم شہباز شریف بائیس کروڑ عوام کے ملک پاکستان کے وزیراعظم بن رہے تھے۔ ان کے صاحبزادے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ۔ ان دونوں کو نامزد کرنے والا ان کے اپنے ہی خاندان کے سربراہ یعنی نواز شریف ہیں۔ نون لیگ میں سینکڑوں نہیں تو کم ازکم درجنوں قابل لیڈر ضرورہیں۔ جنہوں نے پارٹی اور شریف خاندان کی سیاسی بقا کی خاطر جیلیں کاٹیں۔ قربانیاں دیں۔ لیکن قیادت کو جب بھی موقع ملا انہوں نے اپنے قریبی عزیزوں نہیں بلکہ اپنے خاندان کے افراد کو اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا۔ یہ ایک ایسا منظر ہے،جیسے دیکھ کر دل بیٹھ جاتاہے ۔یہ کہنا بجا ہوگا کہ نون لیگ نے چالیس برسوں کے سیاسی سفر میں کچھ نہیں سیکھا۔ عوام اور سیاسی کارکن جو بھی نون لیگ کے دامن سے چمٹے ہوئے ہیں اور امید بہار رکھتے ہیں ان کے بارے میں صرف اتنا ہی کہاجاسکتاہے : میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں وزیراعظم عمران خان کی حکومت جس طرح گرائی جارہی تھی، اس کی کوئی نظیر حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ سرعام ارکین اسمبلی کا بھاؤتاؤ کیا جاتارہا۔ایک بزرگ سیاست دان کہتے ہیں کہ ہر شہ اور ہر شخص بکتاہے۔ صرف قیمت مختلف ہوتی ہے۔بیس کروڑ سے پچیس کروڑ تک کہاجاتاہے کہ اراکین اسمبلی کو حکومت کے خلاف ووٹ دینے پر پیش کیے گئے۔ سوال یہ پیداہوتاہے کہ کل کلاں اگر کوئی دشمن ملک پچاس کروڑ کی پیشکش کردے تو ارکان اسمبلی کیسے اس پیشکش کو ٹھکرائیں گے۔خاکم بدھن !پوری کی پوری قومی اسمبلی اور سینٹ کوئی ملک یا ملٹی نیشنل کمپنی چند ارب روپے میں خرید سکتی ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح سے کہا گیا کہ کانگریس کچھ بااثر لوگوں کو پیسہ دے کرحمایت حاصل کررہی ہے۔ انہیں اپنے دام میں لانے کے لیے مسلم لیگ بھی جال پھینکے۔ ہمیشہ کی طرح دوٹوک اور ستھری بات کرنے والے محمد علی جناح نے جواب دیاکہ کل انہیں کوئی اور بڑی پیشکش کرے گا تو وہ مسلم لیگ سے ترک تعلق کرکے کسی اور جگہ بسیرا کریں گے۔یہ کہہ کر قائداعظم نے سیاست میں پیسہ اور خرید وفروخت کا دروازہ بند کردیا۔ پیسہ کے زور پر بکنے اور خریدنے والے دونوں ایک جیسے ہوتے ہیں ۔ دونوں ایک جیسے جرم کا ارتکاب کرتے ہیں۔دونوں کو یکساں سزا ملنی چاہیے لیکن افسوس! ہمارے سیاسی کلچر میں ایسے لوگوں کو برا تک نہیں کہاجاتا۔انہیں دانش مند اور دوراندیش ماناجاتاہے۔ لوگ ان کے ڈیروں پر دھڑا دھڑا حاضری لگواتے ہیں اور ان سے سیاست کا درس لیتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کو دوسرے سیاستدان پر یہ برتری حاصل ہے کہ ان کا دامن کرپشن سے پاک ہے۔ وہ ایک بہادر لیڈر ہیں۔ جو سچ اور حق سمجھتے ہیں،اس کا اظہار کرتے ہیں۔ مصلحت پسند نہیں۔ بڑی طاقتوںسے خوف کھاتے ہیں اور نہ ان کے گماشتوں سے۔دباؤ برداشت کرنے کی بے پناہ صلاحیت رکھتے ہیں۔موجودہ سیاسی بحران میں انہوں نے کمال کامیابی سے اپنی پارٹی کے لوگوں کو اپنی گرد جمع کرلیا۔ پی ٹی آئی جو تنظیمی طور پر کمزور ہوچکی تھی، ایک بار پھر اپنے لیڈرکی پشت پر کھڑی ہوگئی۔ پی ٹی آئی کے حامی بنیاد ی طور پر وہ لوگ ہیں جو دو جماعتی نظام یعنی نون لیگ اور پی پی پی سے ہٹ کر کسی تیسری قوت کی تلاش میں تھے۔ اب پی پی پی اور نون لیگ دونوں ایک کشتی کے سوار ہوگئے۔ کل کے دشمن اور سیاسی حریف آج ایک دوسرے کے راستہ میں پلکیں بچھاتے ہیں۔ اس منظر نے بھی ان تمام لوگوں کو ایک بار پھر وزیراعظم عمران خان کے گرد جمع کردیا ہے جو مہنگائی کے طوفان ہاتھوں گھائل ہوچکے تھے۔لوگ سب دکھ بھول گئے اور خاندانی بادہشاہتوں کے خلاف عمران خان کے ہم رکاب ہوتے نظر آرہے ہیں۔ غیر ملکی سازش کے ساتھ اپوزیشن کے تانے بانے ملا کروزیراعظم عمران خان نے قومی اتحاد کی ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف چلنے والی تحریک کی قوم کو یاد دلادی۔ اس وقت بھٹو کے خلاف مذہب کا کارڈ خوب استعمال ہواتھا۔ اس مرتبہ فرق یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن کو اور بالخصوص مولانا فضل الرحمان کو مذہب کا کارڈاستعمال نہیں کرنے دیا۔بلکہ گزشتہ تین برسوں میں انہوں نے ملکی اور عالمی فورمز پر توہین رسالت کے خلاف فضا بنانے میں اہم کردار اداکیا ۔حتیٰ کہ پاکستان کی تحریک پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسلامو فوبیاپر قرارداد بھی منظور ہوئی اور اب ہر سال پندرہ مارچ کو اسلامو فوبیاکے خلاف عالمی رائے عامہ بیدار کرنے کے لیے اقوام متحدہ ایک دن منایاکرے گی۔ پاکستان میں ایک بہت بڑا طبقہ ہے جو پاکستان کو ایک آزاد ملک کے طور پر دیکھنا چاہتاہے، جو اپنی پالیسیاں اپنی مرضی سے بناتاہو۔اس پر کوئی دباؤ نہ ڈال سکتاہو۔ وہ کشکول اٹھاکر دنیا بھر میں خیرات یا امداد مانگنے نہ جاتاہو۔ ایسے لوگ متوسط طبقے میں بھی پائے جاتے ہیں اور قومی اداروں میں بھی۔ وہ ریٹائرڈ بھی ہیں اور سروس میں بھی۔جس طرح ریٹائرڈ ملازمین کی ایک بہت بڑی تعداد نے سوشل میڈیا پر آکر وزیراعظم عمران خان کی حمایت کا اعلان کیا وہ بہت ہی غیر معمولی عمل ہے۔ میرے خیال میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے عمران خان کو حکومت سے نکالنے میں بہت جلدی کی۔ انہیں اگلے الیکشن کا انتظار کرنا چاہیے تھا۔اب بھی بہتر یہ ہوگا کہ حزب اختلاف والے سپریم کورٹ کے ذریعے اسپیکر کی رولنگ کو مسترد کرانے کے بجائے نئے الیکشن میں چلے جائیں۔ یہ ہی ملک وقوم کے حق میں بہتر ہوگا۔